میرے ٹیلنٹ کو سب سے پہلے والد نے پہچانا

محمود الحسن  بدھ 20 فروری 2013
 ممتاز اداکار فردوس جمال کے حالات وخیالات۔ فوٹو : فائل

ممتاز اداکار فردوس جمال کے حالات وخیالات۔ فوٹو : فائل

ہمارے ہاں مختلف شعبوں کی نمایاںشخصیات سے اکثر و بیشتر یہی سننے کو ملتا ہے کہ وہ جس میدان میں سرفراز ہیں، ادھرآنے کا تو انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

دوسری طرف یہ صورت ہے کہ بہت سوں کویہ تو پتا ہوتا ہے کہ ان میں کس خاص کام کا فطری جوہرہے مگران کے بڑے انھیں اپنی پسند کی راہ پرلگا دیتے ہیں، اوریوںوہ رستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ خوش قسمت فردوس جمال کے ساتھ یہ دونوں معاملات نہیں تھے، انھیں بچپن سے خبرتھی کہ انھیں کیا بننا ہے، اور آس پاس موجود سبھی ان کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ اس پر مستزاد گھر سے باہربھی انھیں ایسا ماحول میسر آتا رہا، جس میں ان کے شوق کی آبیاری فطری روانی سے ہوتی رہی۔

سفرکا آغازاس وقت ہواجب تین چار برس کی عمر میں سینما میں والد کی گود میں بیٹھ کر فلم دیکھی اور گھر واپس آکرفلم کے جومکالمے اور گانے ذہن میں رہے، انھیں دہرانا شروع کردیا، جس سے گھروالے محظوظ ہوئے تو انھیں لگاجیسے وہ کوئی اچھا کام کررہے ہیں۔قصہ خوانی بازار میں واقع اسلامیہ ہائی اسکول نمبر 3 جہاں سے انھوں نے میٹرک کیا، ادھروہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔اس اسکول کے قریب ایک سرائے تھی، جو سرائے ناٹک کہلاتی۔ان کے دادا اور والد انھیں بتایا کرتے کہ سرائے ناٹک میںبرصغیر بھر سے لوگ آتے اور کئی کئی ماہ ناٹک چلتا۔امانت لکھنوی، استاد عبداللہ اور طالب بنارسی کے ڈرامے ہوتے، اور رام لیلا بھی کھیلا جاتا۔ وہ یہ باتیں بڑے اشتیاق سے سنتے اور چشم تصور سے دیکھا کرتے کہ یہاں کیسے کیسے بڑے بڑے اداکار آتے رہے ہوں گے۔ 40 برس سے ریڈیو، تھیٹر اور ٹی وی سے وابستہ اس ممتاز فنکار کے بقول’’ اللہ جس کو جو بنانا چاہتاہے، اس کے لیے ویساماحول پیدا کردیتا ہے ، جس میں وہ خودبخود نکھرتا چلاجاتا ہے۔اتفاق کوئی چیز نہیں۔حادثے تاریخ نہیں بناکرتے۔میں پیدائشی فنکار ہوں،کسی حادثے کی پیداوار نہیں۔فنکار بن کر آتا ہے ، اس کو بنایا نہیں جاسکتا۔‘‘

میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج پشاور میں داخل ہوتے ہیں،اس درسگاہ میں انھیں احمد فراز، محسن احسان اور خاطر غزنوی جیسے اردو کے نامور ادیبوں سے کسب فیض کا موقع ملتا ہے ، اس صحبت سے انھیں سب سے بڑھ کر اپنی اردو نکھارنے میں مدد ملی کیونکہ گھر میں تومادری زبان پشتوبولی جاتی اس لیے اردو میں زیادہ رواں نہیں تھے۔ 9جون 1954ء کو پشاور میں آنکھ کھولنے والے فردوس جمال کے بقول ’’ہمارے ہاں کوئی انسٹی ٹیوٹ اور اکیڈمی تو تھی نہیں۔ خدا کی مہربانی سے مجھے ایسے لوگ مل گئے جو انسٹی ٹیوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘ فردوس جمال میٹرک کے زمانے میں ریڈیوپرکام کرنے لگے تھے۔زندگی کی پہلی کمائی یہیں سے ہوئی جب انھیں دس روپے کا چیک ملا۔ فرسٹ ایئر میں پہنچے تو راولپنڈی میں ٹی وی اسٹیشن قائم ہو گیا اور پشاور میں اس کا دفتر کھل گیا۔

اب انھیں ٹی وی ڈرامے میں کام کا شوق چرایا۔روزانہ چکر لگاتے، لیکن بے نیل مرام لوٹتے۔وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ پٹھانوں میں لحیم شحیم قسم کے ہیروکا تصوراور وہ خاصے دبلے پتلے تھے۔چانس نہ ملنے پر وہ خاصے آزردہ تھے، ایسے میں ایک گلوکار دوست نے راولپنڈی میں پشتو کے نئے گلوکاروں کے پروگرام کے بارے میں بتایا اور انھیں ساتھ چلنے کو کہا ، کہ اسٹیج پرتھوڑی بہت گلوکاری تویہ کر لیتے تھے۔ راولپنڈی میں خود پربیتی کا احوال یوں سناتے ہیں۔ ’’میں نے سوچا، ڈرامے میں مجھے کام دیتے نہیں،لوگ مجھے طعنے دے رہے ہیں کہ ایسے ہی ہیرو بنے پھرتے ہو،ٹی وی پر تو تم آتے نہیں۔میں اب پنڈی چلا گیا۔ اس زمانے میں سب لائیو ہوتا تھا، ایڈیٹنگ وغیرہ کا تصورنہیں تھا،گانا چلا تو میوزک کہیں، میں کہیں۔گھر والوں نے دیکھا توبڑی تھو تھو کی کہ تم تو اداکار بن رہے تھے، یہ تم کیا بن گئے۔

اس پر میں نے گانے سے توبہ کرلی۔ٹی وی پرکام کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ ‘‘ ایک روز وہ ایسے جلال میں آئے کہ ٹی وی آفس میں جاکر دھمکی دے ڈالی کہ اگر انھیں ڈرامے میں موقع نہ دیا گیا تو وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور وہ اداکار جس کو مستقبل میں چار بار بہترین اداکار کے پی ٹی وی ایوارڈ سے نوازاجانا تھا، اسے ایک ہندکو ڈرامے میں ہیروکا کردار مل گیا۔یہ بحیثیت اداکار ٹی وی پر پہلی رونمائی تھی، جس کے بعد اور بھی کئی ہندکو ڈراموں میں وہ جلوہ گر ہوئے۔ 75ء میں پشاور ٹی وی سینٹر کا قیام عمل میں آیا تو یہاں سے پشتومیں نشر ہونے والے پہلے ڈرامے کے ہیرو بنے۔ پشتوکا ایک ڈراما ممتاز ٹی وی پروڈیوسرمحمد نثار حسین کی نظر سے گزرا ۔

پشتو زبان وہ نہیں جانتے تھے لیکن انھوں نے ان میں چھپے ٹیلنٹ کو جان لیا اور ان سے رابطہ کرکے ایک ڈرامے میں کام کی آفردی، جس کو وہ اس لیے قبول نہ کرسکے، کہ اس وقت پشتو کی ایک ڈراما سیریل میں مصروف تھے۔خیر کچھ عرصے بعد لاہور آئے تو انھیں ’’ماہ کنعاں‘‘ میں صلاحیت آزمانے کا موقع مل گیا۔یہ ان کا پہلا اردو ڈراما تھا۔نثار حسین نے زور دیاکہ وہ لاہور میں رہ جائیں لیکن ان کے بقول ’’پشاور میں میری پوری سلطنت تھی،اور میں ادھرریڈیو، ٹی وی ، اسٹیج سبھی جگہ کام کررہا تھا۔‘‘پشاور میں رفتہ رفتہ کام کے اعتبار سے حالات ان کے لیے موافق نہ رہے اورپشاورٹی وی پرلڑائی کی وجہ سے انھیں بین کردیا گیا۔

ہم نے وجہ جاننی چاہی تو بتایا ’’ریہرسل پر تاخیر سے جانے پر لڑائی ہو گئی تھی۔اس زمانے میں پروڈیوسر بھی تو زمین پر چھوٹے چھوٹے خدا تھے۔قدرت نے بس ماحول بنانا تھا، ہجرت کر اکر سنت نبوی پوری کرنی تھی۔نثار صاحب کو صورت حال سے آگاہ کیا تو کہنے لگے کہ میں تو تم سے پہلے ہی کہتا تھا کہ تمھاری اصل جگہ لاہور ہے۔ اپریل 77ء میں لاہور آگیا۔‘‘ لاہور میں بیتے ابتدائی ایام کی بابت جاننا چاہا تو کہنے لگے، یہ لمبی کہانی ہے، اس کا ذکر پھر سہی۔ تھوڑاکرید تو بتایا کہ ’’شروع میں فاقے بھی کئے، تپتی جگہ پر بغیر پنکھے کے بھی سویا۔‘‘

امجد اسلام امجد کے ڈرامے ’’وارث‘‘ نے جس قدر مقبولیت حاصل کی اس کی پی ٹی وی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔اس ڈرامے کے اصل دولہا تو محبوب عالم تھے، جنھوں نے چودھری حشمت کا لازوال کردار کیا مگراس ڈرامے کے کئی دوسرے کرداروں کو بھی ملک گیر شہرت ملی، جس میں چودھری حشمت کے بگڑے پوتے چودھری انور کا کردارتھا، جس کو فردوس جمال نے کمال مہارت سے کیا۔ ’’وارث‘‘ کی مقبولیت اور ان کے کردار کے بارے میں جاننا چاہا تو انھوں نے بتایا ’’وارث‘‘ سے پہلے جاگیردار کا اصل روپ دکھانے کا ٹرینڈ نہیں تھا۔

یہ ڈراماایک طرح سے نظام سے بغاوت تھا۔ قائداعظم کے بعد ملک کی بھاگ ڈور جاگیردار اور بیوروکریٹ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ ضیاالحق صدر بنے تو ان کے پیچھے فوج تھی، دوسرے وہ لوئر مڈل کلاس سے تھے، یعنی عام آدمی صدر بن گیا، جس کے لیے جاگیرداراور بیوروکریٹ اتنے زیادہ اہم نہیں تھے۔ ایوب خان بھی فوج سے تھے، لیکن ان کا پس منظر تھوڑا جاگیردارانہ تھا اور وہ باہر سے پڑھ کر بھی آئے تھے۔بھٹوغریب کی بات تو کرتے تھے لیکن خود جاگیردار تھے،اس لیے ان کے دور میں جاگیردار پر ڈراما نہیں بن سکتاتھا۔ضیاء کے ذہن میں جاگیردار کے خلاف کچھ ہو گا اور ممکن ہے ان کے کسی مشیرنے کہا ہوکہ سب معاشرے میں جمودپیدا ہوگیاہے ، لوگوں کو انٹرٹینمنٹ کے ذریعے مصروف کریں تاکہ ان کا غبار نکلے، کیوں کہ اگر جبر بڑھتا رہا تولاوا پھٹ جائے گا اور انقلاب آجائے گا۔ اس دورمیںکرکٹ کو فروغ دیا گیا۔

دوسرے سلطان راہی کو پروموٹ کیا۔ اس نے ’’او جاگیردارا‘‘ اور ’’اوتھانیدارا‘‘ کانعرہ لگایا اور یوں لوگوں کے کتھارسزکو ممکن بنایا۔ ٹی وی میں بھی یہی پالیسی اپنائی گئی۔ چودھری حشمت جاگیرداری نظام کی علامت تھا۔ اس سوچ کی جب مخالفت کی گئی اور جاگیردار کو تباہ ہوتے دکھایا گیا تو ڈراما کلک کرگیا۔اس ٹائپ کارول پہلے ہوا نہیں تھا۔ میں نے کچھ جاگیرداروں کے بچوں کو دیکھا تھا۔محمد خان ہوتی سے لڑکپن میں میری بڑی دوستی رہی۔ مردان میں، ہوتی خاندان کا جو محل ہے، اس میں میرا اکثرجانا رہتا، ادھر محمد خان ہوتی کے کزن بھی ہوتے تو ان کا اٹھنا بیٹھنا، رہن سہن بغور دیکھا کرتا، ’’وارث‘‘ میں چودھری انور کا کردارکیا تو یہ سب بہت کام آیا گو کہ وہ سرحد کے جاگیردار تھے اور میں نے پنجاب کے جاگیردار کے بیٹے کا کردار کرنا تھا لیکن سائیکی تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے، اس لیے میں نے کردار کو وہاں سے اٹھایا۔

اس زمانے میں ڈرامے سے پہلے ہم بہت زیادہ ڈسکشن کیا کرتے تھے۔ چینی اسکول آف آرٹ میں کہتے ہیںکہ ہر کردار کسی نہ کسی جانور کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ محبوب عالم سے میں نے پوچھا کہ اس نے کردار کو کس طرح سے Conceive کیا ہے تو اس نے بتایا کہ اس نے تو اسے ببر شیر Conceiveکیا ہے۔ اس پر میں نے سوچا میرے کردار کو چیتا ہونا چاہیے۔ آپ چودھری حشمت کا اٹھنا بیٹھنااور حرکات و سکنات دیکھیں تو اس میں شیر کی طرح سے lazy grace نظر آتی ہے، اس کے برعکس چیتے کی حرکت تیز ہوتی ہے، اور میری بدن بولی اور حرکات وسکنات تیز ہے، ڈرامے میں ایک دو بار چودھری حشمت کہتا بھی ہے کہ ’’او میرا چیتا پتر۔‘‘ شیر کی توسیع تو چیتا ہو سکتا تھا، تاکہ اس سے مختلف ہو جائے، میں بھی شیر بن جاتا تو کرداروں میں یکسانیت آجاتی۔ ‘‘

فردوس جمال کے خیال میں، بطور اداکار شہرت کے اعتبار سے انھیں پہلا بریک تھرو ’’وارث‘‘ سے ملا، اورجس ڈرامے نے بطور اداکاران کی حیثیت کو مستحکم کیا، وہ 14اگست کا خصوصی کھیل ’’برگ آرزو‘‘ تھا۔ کہتے ہیں ’’برگ آرزو کے بعد لوگوں نے میرے فن کا اعتراف کیا اور کہا کہ واقعی یہ اداکار ہے۔اس ڈرامے میں میری بہترین اداکاری پر ضیاء الحق نے تعریفی خط بھی لکھا۔‘‘ اب جو پے در پے کامیابیاں ان کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں اس کی بنیادی وجہ وہ روحانیت سے اپنے تعلق جڑنے کو قرار دیتے ہیں۔

1979ء میں وہ غلام رسول شاہ خاکی کے ہاتھوںپر بیعت ہوئے اور پھر ان کے لیے رستے کھلتے چلے گئے۔ کامیاب ڈراموں کی ایک لمبی فہرست کے بعد وہ ڈراما آتا ہے، جس میں روحانیت سے ان کاتعلق سب سے بڑھ کر معاون ثابت ہوتا ہے۔ وہ ڈراما ’’من چلے کاسودا‘‘ ہے، جس میں وہ چار مختلف کردار کمال خوبی سے ادا کرتے ہیں۔ اس ڈرامے میںکام سے قبل وہ اپنے مرشد کے پاس گئے۔ انھوں نے دعا دی تو تمام مراحل آسان ہوتے چلے گئے۔ان کے بقول ’’پتا ہی نہیں چلااور سب ہوگیا۔معلوم نہیں کیسے ہوا۔‘‘ اشفاق احمد سے بھی انھوں نے پوچھاکہ ’’آخر آپ نے مجھے امتحان میں کیوں ڈالا؟‘‘ اس پران کا کہنا تھا کہ ’’کسی میں بابا ہے نہیں، اس لیے تم کو بابا بنادیا۔‘‘ واصف علی واصف سے ان کی بڑی ارادت مندی رہی اور ان کا تذکرہ بڑی محبت اور اپنائیت سے کرتے ہیں۔ واصف علی واصف انھیں پیار سے من چلا کہا کرتے تھے۔

ٹی وی کے اس مایہ ناز اداکار سے ہم نے جاننا چاہا کہ آخر انھیں فلم انڈسٹری میں کامیابی کیوں نہ ملی اورفلم ’’کنواراباپ‘‘ جس کوریلیز ہوئے دس برس ہو گئے ہیں، اس کے بعد انھوں نے کوئی فلم کیوںنہیں کی؟

’’ میں جس زمانے میں فلم انڈسٹری میں گیا وہ اس کے زوال کا زمانہ تھا، اور آپ ڈوبتی کشتی میں بیٹھیں گے تو ڈوبنا ہی مقدر ہوگا۔ اس وقت کشتی میں کافی سوراخ ہو چکے تھے۔ ’’رشتہ‘‘ میری پہلی فلم تھی، جو81ء میں آئی۔ میرے خیال میں ساقی مرحوم کے سوا میں وہ اداکار ہوں جس نے پاکستان میں پانچ زبانوں اردو، پنجابی، پشتو، سرائیکی اور سندھی میں بننے والی فلموں میں کام کیا۔ یہ بھی میرا ریکارڈ ہے۔ فلم میں کام اس لیے چھوڑا کہ سمجھتا تھا کہ یہ انڈسٹری جن کے ہاتھ میں ہے، وہ یہ کام جانتے ہی نہیں۔ فلم کا دروازہ بند نہیں کیا اور اچھی آفر ملی تو ضرور کام کروں گا۔‘‘ ریڈیو،تھیٹر، ٹی وی اور فلم سبھی جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے اس اداکار کو تھیٹر پر کام کرنا سب سے زیادہ چیلنجنگ لگا۔ فردوس جمال ڈائریکشن کے تجربے کو اپنے لیے بہت تلخ قرار دیتے ہیں۔

ان کے خیال میں یہاں ڈراما پروڈیوس کرنا بہت مشکل ہے اور اس کے لیے جو کرنا پڑتا ہے، وہ نہیں کرسکتے۔ پشتو ٹی وی چینل خیبر کے قائم کرنے میں بھی وہ پیش پیش رہے اورپروگرام منیجر کے طور پر خدمات انجام دیں لیکن سال بھربعد اسے چھوڑ دیاکہ نوکری کرنا ان کے مزاج کو راس نہیں۔ 1986ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز حاصل کرنے والے فردوس جمال اداکاری کو دنیا کا مشکل ترین کام قرار دیتے ہیں ، جس کو ان کے خیال میں لگتا ہے، سب سے آسان کام سمجھ لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ڈراما تباہ ہورہا ہے۔کہتے ہیں ’’اداکاری بڑی ہمہ جہت چیزہے۔ اس کے لیے معاشرے میں بکھرے زندگی کے مختلف رخوں اور طبقات کے بارے میں پتا ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاںادارے تو ہے نہیں، اس لیے میں نے ادھر ادھر سے اکٹھا کیا، مختلف چیزوں کا تجربہ کیا، مشاہدہ میں لایا، مختلف طبقوں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر۔مختلف زبانوں کو سیکھا۔اداکار کو موسیقی سے شغف ہوناچاہیے۔ فزکس اور میٹا فزکس دونوں کے بارے میں علم ہوناچاہیے۔ بدلی بولی کے لیے آپ کو بہت مشق کرنا پڑتی ہے۔جو موجود نہیں، اس کو تخیل کی مدد سے آپ نے پیدا کرنا ہوتاہے۔‘‘

ٹی وی چینلوں کی بھرماراور ان پر پیش ہونے والے پروگراموں کے بارے میں ان کا نقطہ نظرہے ’’چھوٹے بازار میں آڑھتی زیادہ آجائیں تو افراتفری کا سماں پیداہوجاتاہے۔کچھ پتانہیں چلتا،مطلوبہ سودا کہاں سے دستیاب ہوگا، موجودہ وقت میں ٹی وی چینلوں کا معاملہ بھی ایساہے، دیکھنے والے کی سمجھ ہی میں نہیں آرہا کہ اسے دیکھنا کیاہے۔ایسا چینلوں کی بے سمتی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ‘‘

پاکستان عوامی تحریک سے اپنے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’’ طاہرالقادری اور میرے مرشد پاک کا قلبی تعلق تھا۔ وہ طاہر القادری کا بڑا احترام کرتے تھے۔ آپ کا پیر جس کو اتنی عزت دے رہا ہوتو آپ کا بھی اس سے تعلق ہوجاتا ہے۔طاہر القادری نے عوامی تحریک بنائی تو مجھے بلایا اور میں اس محبت میں چلا گیا، جو میرے مرشد کو ان سے تھی۔مجھے انھوں نے کہا کہ وہ پارٹی کاکلچرل ونگ تشکیل دے رہے ہیں اور میں اس کا جنرل سیکرٹری بن جائوں۔میں نے عرض کیا کہ مجھے سیاست سے قطعاً دلچسپی نہیں ، میں تو اداکار آدمی ہوں، اس پرکہنے لگے کہ ہم نے آپ سے سیاست نہیں کرانی، بس آپ ذرا کلچرل معاملات دیکھیں گے۔میں مرشد سے ان کے تعلق کی بنا پرانھیں انکار نہیں کرسکالیکن عملی طور پرکبھی زیادہ سرگرم نہیں رہا۔ اب بھی وہ آئے ہیں ، نہ انھوں نے رابطہ کیا نہ ہی میں نے۔میرے خیال میں آرٹسٹ کو کبھی متنازع نہیں ہونا چاہیے۔اسے سب کا محبوب ہونا چاہیے۔ عوامی تحریک سے میرا جو بھی تھوڑا بہت تعلق رہا، وہ میرے مسلک کی مجبوری تھی، وگرنہ سیاست سے مجھے کوئی سروکارنہیں تھا۔‘‘

فردوس جمال کی 1985 ء میں شادی ہوئی، جو ارینج تھی۔ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ دونوں بیٹے، حمزہ اور بلاول ان کے فنی سفرکو کامیابی سے آگے بڑھائیں گے۔ انھوں نے بیٹوں کو باور کرادیا ہے کہ اداکاری کے میدان میں پوری تیاری سے داخل ہوں تاکہ اپنا انفرادی رنگ جماسکیں۔ ٹی وی پروڈیوسرزمیں یاورحیات کو استاد قرار دیتے ہیں۔محمد نثار حسین اور کنور آفتاب سے بھی انھیں بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ریڈیو میں جعفر رضا کو اپنااستاد جانتے ہیں۔ ان کے خیال میں ٹی وی ڈرامانویسوں میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کے بقول، ذہنی سطح بلند ہونے کے ساتھ دنیاوی آئیڈیل بدلتے رہتے ہیں، لیکن جو آئیڈیل کبھی نہیں بدلا وہ رسول کریمﷺکی ذات ہے۔

شاعروں میں مولانا روم، غالب اور اقبال کے دیوانے ہیں۔ بچھڑے ہوئوں میں والد باز محمد خان کی یاد سب سے زیادہ ستاتی ہے۔ والد کے بارے میں بتاتے ہیں ’’میرے والد کا سپیئر پارٹس کا کام تھا۔نو بہن بھائیوں میں میرا دوسرا نمبر تھا۔ہر گھر میں ایک بچہ ایسا ہوتا ہے ، جو دوسروں سے مختلف ہونے کی بنا پر سب کی ڈارلنگ ہوتا ہے تو میں بھی ایسا ہی بچہ تھا۔میرے والد گھر میں کہتے تھے کہ فردوس جو چاہتا ہے اس کو کرنے دو اور مت چھیڑو۔اداکاری میں میرے ٹیلنٹ کا ادراک سب سے پہلے میرے والد کو ہوا۔ ‘‘ زندگی سے وہ مطمئن ہیں اور انھیں کسی بات پر افسوس نہیں۔زندگی سے جو کچھ ملا اس پر قانع ہیں اور ان کے بقول ’’مجھے جو ملا ہے میں خود کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔