بھاری کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ؛ ادائیگیوں کے بحران کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا

کاشف حسین  جمعـء 15 ستمبر 2017
شرح سودودرآمدی ڈیوٹی بڑھانے اوربرآمدی شعبے کومراعات کا مشورہ۔ فوٹو : فائل

شرح سودودرآمدی ڈیوٹی بڑھانے اوربرآمدی شعبے کومراعات کا مشورہ۔ فوٹو : فائل

 کراچی: موجودہ حکومت کی جانب سے ادائیگیوں کے بحران پر قابو پانے کے لیے دیرپا اقدامات نہ کرنے پر آئندہ انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کے آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانے کا خطرہ ظاہر کردیا گیا ہے۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اپنی معاشی جائزہ رپورٹ میں امکان ظاہر کیا ہے کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16سے 16.5ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر مزید دباؤ پڑے گا اور سرکاری ذخائر کی مالیت میں 3ارب ڈالر تک کمی ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں سرکاری ذخائر سے 3 ماہ کا درآمدی بل ادا کرنے کی گنجائش برقرار نہیں رہے گی، رواں مالی سال میں درپیش 16سے 16.5ارب ڈالر کا خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو 10سے 11ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی جو زیادہ تر قرضوں کے ذریعے پوری کی جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں سے 2سے 3ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا جائے گا جبکہ ڈالر یا سکوک سرمایہ کاری بانڈز کے اجرا سے 1سے 2ارب ڈالر جبکہ باقی ضرورت کمرشل قرضوں اور دیگر ذرائع سے پوری کی جائیگی جن میں سی پیک منصوبوں کے لیے چینی اداروں کی مالی معاونت بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی معذول وزیر اعظم نواز شریف کی معاشی پالیسی جاری رکھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ادائیگیوں کے بحران کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائیں گے جس کا بوجھ آئندہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی نئی حکومت کو اٹھانا پڑے گا،ادائیگیوں کے بحران کے حل کے لیے فوری دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے جن میں روپے کی قدر میں کمی، شرح سود کے ساتھ غیر ضروری درآمدات پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ اور برآمدی شعبے کے لیے مراعات کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ روپے کی قدر میں 10سے 20فیصد کمی کرکے تجارتی خسارے میں 3سے6ارب ڈالر کی کمی لائی جاسکتی ہے تاہم سیاسی وجوہ اور 2018 میں عام انتخابات کی وجہ سے موجودہ حکومت روپے کی قدر میں کمی نہیں کرے گی جس کا نئے وزیر اعظم بھی دوٹوک انداز میں اعلان کرچکے ہیں۔

اسی طرح شرح سود میں اضافے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ن لیگ کی حکومت شرح سود میں کمی کو ایک کامیابی کے طور پر پیش کرتی ہے تاہم 2008کے معاشی بحران میں حکومت نے شرح سود میں 450 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرکے شرح سود 15فیصد تک پہنچا دی تھی جس کے نتیجے میں بلند فسکل اور بیرونی خسارے پر قابوپانے میں مدد ملی تھی۔ ٹاپ لائن نے فوڈ، پٹرولیم، مشینری کے علاوہ دیگر درآمدی مصنوعات پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کو قابل عمل قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں 3سے 4ارب ڈالر کے زرمبادلہ کی بچت کی جاسکتی ہے کیونکہ فوڈ، پٹرولیم اور مشینری گروپ مجموعی درآمدات کا 50فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگرچہ بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثہ جات کو وائٹ کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم کی تجویز کافی عرصے سے زیر غور ہے تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں اس طرز کی کسی ایمنسٹی اسکیم کا بھی کوئی امکان نہیں رہا حالانکہ پاکستان بزنس کونسل کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستانیوں کی 150ارب ڈالر کی دولت بیرون ملک میں پڑی ہے جس میں سے 15ارب ڈالر باآسانی وطن لائے جاسکتے ہیں تاہم ایسی کوئی بھی اسکیم اپوزیشن حکومت پر الزام تراشیوں کے لیے نیا دروازہ ثابت ہوگی۔ جس کی وجہ سے ایسی کسی اسکیم کا امکان نہیں۔

رپورٹ میں برآمدی شعبے کے لیے وسیع الااثر مراعاتی پیکیج کے اعلان کا امکان ظاہر کیا گیا، وفاقی حکومت نے جنوری 2017میں 5 بڑے برآمدی شعبوں کے لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا تاہم برآمد کنندگان کے مطابق ریفنڈز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سرمائے کی قلت برآمدات میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ ہے جسے دور کرنے کیلیے اضافی سبسڈی کی ضرورت ہے تاکہ توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت کا اثر زائل کیا جاسکے۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت اضافی کماڈیٹیز کی ایکسپورٹ کی اجازت دینے کے ساتھ برآمدات کیلیے معاون موثر اور وسیع الاثر برآمدی پیکیج پر غور کررہی ہے جس کی وزارت تجارت تیاریوں میں بھی مصروف ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی باعث تشویش ہے جس پرقابو پانے کیلیے چین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے پر جلد ہی نظر ثانی کی جائیگی، چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو 5ارب ڈالر خسارے کا سامنا ہے۔

ٹاپ لائن کے مطابق محدود ٹیکس وصولیاں اور جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکسوں کا پست تناسب پاکستان کی معیشت کا بڑا مسئلہ ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کی موجودہ سطح 10سے 11فیصد ہے جو خطے کی پس ترین سطح ہے، اس تناسب کو 14سے 15فیصد تک بڑھانا ضروری ہے تاہم اس کیلیے ایندھن اور گاڑیوں پر اضافی ٹیکس جیسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے ایک جانب کھپت میں کمی ہوگی، ساتھ ہی درآمدی بل بھی کم کیا جاسکے گا اور حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا تاہم اس اقدام سے افراط زر میں اضافہ کا خدشہ ہے جو ن لیگ کی حکومت کیلیے آئندہ انتخابات سے قبل کسی صورت موزوں نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔