بے بس اور لاچار لوگ

نصرت جاوید  جمعرات 21 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کوئٹہ میں گزشتہ چار ہفتوں کے دوران وہاں مقیم ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ جو ظلم ہوا اس نے مجھے بھی ہلاکر رکھ دیا ہے ۔میں نے ابھی تک اس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا اور نہ لکھنے کا حوصلہ پارہا ہوں۔میری خاموشی کی وجہ فرطِ غم کا بوجھ نہیں بلکہ وہ بزدلی ہے جو میری عمر کے صحافیوں میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہری ہوتی چلی جاتی ہے ۔میں اسلام آباد میں کئی سال سے رہنے والے ان معدودے چند صحافیوں میں سے ایک ہوں جس نے آج سے چار سال پہلے بلوچستان کا ایک طویل دورہ کیا تھا۔اسی دورے کے دوران میں ہزارہ کمیونٹی کے نمایاں اور سرکردہ لوگوں سے بھی ملا۔

اس دن سے آج تک میرا ان سے تقریباً 24گھنٹے کا تعلق رہا ہے اور اسی تعلق کے سبب میں کچھ حقائق سے آگاہ ہوں جنھیں بیان کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں۔ اپنی زندگی سے پیار اور رزق کی مجبوریاں احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں ۔ویسے بھی میں ایک رپورٹر ہوں ۔میرا کام تو دوسروں کی کہی باتوں کو آپ کے سامنے لانا ہے اور اس ارادے سے میں مسلسل نیشنل اسمبلی اور سینیٹ کے حالیہ اجلاسوں میں جاتا رہا ہوں ۔بہت سے لوگوں نے وہاں بڑی دھواں دھار تقاریر کیں ۔مگر حقیقت بیان کرنے کی کوئی بھی جرأت نہ کرسکا۔زیادہ سے زیادہ یہ مطالبہ ہوا کہ پارلیمان کا ایک اور ’’ان کیمرہ‘‘ سیشن بلایا جائے اور وہاں قومی سلامتی کے اداروں سے پوچھا جائے کہ ’’یہ کیا ہورہا ہے بھائی یہ کیا ہورہا ہے ‘‘۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ایک اور مشترکہ اجلاس بلاکر وہاں رپورٹروں اور عام لوگوں کی موجودگی کے بغیر ہمارے انٹیلی جنس اور قومی سلامتی کے اداروں کے سربراہوں سے سوالات کرنے کی تڑپ میں مبتلا’’ہمارے نمایندوں‘‘ کو یاد ہی نہ رہا کہ اس سے پہلے بھی کم از کم تین بڑے اہم واقعات کے بعد ایسے ہی ’’ان کیمرہ‘‘ سیشن ہوئے تھے ۔ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ 2مئی 2011ء کی رات امریکی طیاروں نے خاموشی سے ایبٹ آباد کے ایک مکان میں اتر کر اسامہ بن لادن کو مارا تو ایسے ہی ہاہاکار مچی تھی۔

اس کے بعد رات گئے تک قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ایسا ہی ایک مشترکہ اجلاس جاری رہا۔اس کے آخر میں ایک قرارداد منظور ہوئی جس کے ذریعے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا۔اس کمیشن کو دوسری چیزوں کے علاوہ اس بات کا بھی پتہ چلانا تھا کہ ہماری ہر وقت مستعد بنی 16سے زیادہ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے کوئی بھی اس بات کا سراغ کیوں نہ لگاسکا کہ پاکستان ملٹری اکاڈمی کاکول کے اتنے قریب ایک کافی نمایاں نظر آنے والے گھر میں اسامہ اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ پانچ سال سے پناہ گزین ہے ۔جاوید اقبال صاحب کے کمیشن نے اپنی رپورٹ لکھنے میں ضرورت سے زیادہ وقت لیا۔مگر وہ رپورٹ اب وزیر اعظم کو بھیجی جاچکی ہے۔ہمارے عوامی نمایندے اس کی اشاعت کا مطالبہ کیوں نہیں کررہے ۔خاص طورپر Zero Dark Thirtyنامی فلم کے ریلیز ہوجانے کے بعد جس سے پہلے کم از کم دنیا بھر میں بہت زیادہ پڑھی جانے والی دو کتابوں میں بھی اسامہ کے خلاف آپریشن کے بارے میں بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے۔

سیدھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے بے بس اور لاچار لوگوں نے 2008ء کے انتخابات میں جن لوگوں کو ووٹ دیا تھا یہ ان کا فرض تھا کہ پاکستان کو ماضی کی الجھنوں سے نکال کر ایک نئے راستے پر ڈالتے ۔اس راستے کو صرف اب تک گزرنے والے تمام واقعات کے بارے میں پورا سچ بول کر ہی ڈھونڈا جاسکتا تھا۔کسی نے تردد ہی نہ کیا ۔نئی حکومت بن جانے کے بعد آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان عدلیہ بحالی کا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے سے اجنبی اور پھردشمن بن گئے ۔نواز شریف جدا ہوئے تو آصف علی زرداری کے سرپر اپنی جماعت کو حکومت میں پانچ سال پورے کرنے کا جنون سوار ہوگیا۔اس جنون کی تکمیل کے لیے انھوں نے ہر طرح کے حربے اختیار کیے اور ایسے ایسے سمجھوتے جنہوں نے ان کے چند قریب ترین دوستوں کو بھی حیران وپریشان کردیا۔

اپنی اپنی حکومت بچانے کی فکر میں مبتلا ہوکر پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں قومی سلامتی اور خارجہ امور پر کوئی توجہ ہی نہ دے پائیں۔وہ اسی ڈگر پر چلتے رہے جو ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالوں کے درمیان ہمارے لیے منتخب کی تھی ۔اس ڈگر نے اپنے خالق یعنی ضیاء الحق کو المناک موت سے دو چار کیا تھا۔اس کے بعد آنے والوں کے لیے بھی ہرگز فائدہ مندنہ ہوسکتی تھی۔ہماری سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کسی نئی ڈگر کی تلاش میں ناکامی کے بعد ہم ضیاء الحق کا بویا ہوا کاٹے اور بھگتتے چلے آرہے ہیں اور فی الحال مجھے تو اس کے علاوہ اور کسی چیز کی امید نہیں ۔میری مایوسی اور بددلی تو ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مرکزی کابینہ سے مستعفی ہوجانے کے بعد اور گہری ہوگئی ہے ۔

موصوف کو 2010ء میں شوکت ترین کے استعفیٰ کے بعد ہمارے ملک کو قرض دے کر چلانے والوں نے آصف علی زرداری کی نذر کیا تھا۔ چونکہ وہ اوپر سے ’’نازل‘‘ ہوئے تھے اس لیے اپنے اقتدار کے ڈھائی سے زیادہ سال وزیر اعظم اور کابینہ کے کسی رکن کو بھی خاطرمیں نہ لاتے ہوئے اپنی مرضی چلاتے رہے ۔ہماری بھاری بھر کم پارلیمان اور اس کی ایک قومی سلامتی کمیٹی کے ہوتے ہوئے بھی اس وقت حفیظ شیخ سے ہی رجوع کرنا پڑا جب پاکستان کی ریاست نے دریافت کیا کہ اگر اس نے افغانستان میں مقیم امریکی اور نیٹو افواج کی رسد روکے رکھی تو قومی معیشت کو چلانا تو دور کی بات ہے بچانا بھی مشکل ہوجائے گا ۔حنا ربانی کھر اور ان کی وزارتِ خارجہ سے بالابالا حفیظ شیخ نے تن تنہاء واشنگٹن میں بیٹھے لوگوں سے مذاکرات کرنے کے بعد معاملات سنبھا لے ۔انھوں نے اب استعفیٰ اس لیے نہیں دیا کہ وہ شوکت عزیز کی طرح اپنا بریف کیس لے کر کسی اور ملک چلے جانا چاہتے ہیں ۔وہ اب بھی پاکستان کی ’’خدمت‘‘ کرنے پر بضد ہیں ۔دیکھتے ہیں شکارپور میں پیدا ہونے والے اس لاڈلے کو اس کی پسند کا ’’چاند‘‘ کیسے اور کب ملتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔