میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا

مقتدا منصور  جمعرات 21 فروری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ پیر (18فروری)کے اظہارئیے میں لکھا تھا کہ ’’پاکستان کا سب سے اہم اورپیچیدہ مسئلہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت ہے۔ جس طرح خیبر پختونخواہ سے کراچی تک اور بلوچستان سے گلگت بلتستان تک یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے،اس کے آیندہ انتخابات پر اثر انداز ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے کی حساسیت میں اضافے کا ایک سبب یہ ہے کہ سیاسی ومذہبی جماعتوں کے درمیان اس مسئلے پر نہ توکسی قسم کی ہم آہنگی ہے اور نہ ہی پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔یہ مسئلہ صرف اندرون ملک مسائل میں اضافہ اور انھیں پیچیدہ بنانے کا سبب نہیں ہے، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔مگر سیاسی اورعسکری قیادتیںاس مسئلے کے صائب حل کے لیے اب تک کسی متفقہ اور مربوط لائحہ عمل پرمتفق نہیں ہوسکی ہیں۔‘‘

اس پیراگراف کی اشاعت سے دو روز قبل ہی کوئٹہ میں سوا مہینے کے دوران ہزارہ کمیونٹی پر دوسرا خونی حملہ ہوجاتا ہے اور سیکیورٹی ایجنسیوں سمیت صوبائی انتظامیہ ایک بار پھر منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ یہ حملہ جنوری میں ہونے والے حملے سے کہیں زیادہ شدید اورہولناک تھا۔لیکن شدت پسند عناصر کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ جب پورے ملک میں ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر ہڑتال کی جا رہی تھی، پشاور کے خیبر ہائوس پرشدت پسندوں نے خود کش حملہ کرکے پانچ افراد کو ہلاک اور اس عمارت کو بری طرح تباہ کردیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شدت پسند عناصر کتنے طاقتور اور با اثرہوچکے ہیں کہ وہ اپنے شکار اور علاقے کا تعین کرکے پورے اطمینان کے ساتھ دہشت گردانہ کارروائی کرتے ہیں اورجب چاہیں اور جہاں چاہیں سیکڑوں افراد کو پیوند زمین اور ہزاروں افرادکوخون میں نہلاسکتے ہیں۔یہ واقعات نئے نہیںہیں،بلکہ روز کا معمول بن چکے ہیں۔فوجی تنصیبات سے عوامی نوعیت کے مقامات تک پورے ملک میںآج کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جسے شدت پسندوں نے نشانہ بناکرنقصان نہ پہنچایا ہو۔

یہ نہیں کہاجاسکتا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اور سیکیورٹی ادارے نااہل ہیں اور ان میں اس قسم کے واقعات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ ایک سے زائد ایسے معاملات ہیں جو شدت پسندعناصر کے خلاف بھرپورکارروائی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اول،ایک مخصوصMindset آج بھی یہ سمجھتاہے کہ خطے میں پاکستان کے فیصلہ کن کردار کے لیے مذہب کے نام پر مجتمع غیر ریاستی ایکٹروںکوکسی بھی وقت ایک بارپھراستعمال کیاجاسکتا ہے۔اس لیے انھیں مکمل طور پرکچلنا مناسب نہیں ہے۔دوئم، مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے موجودہ مظہر (Phenomenon)کی جڑیںسرد جنگ کے زمانے میں کیے گئے بعض فیصلوں میں پیوست ہیں،اس سے جان چھڑانے کے لیے جس سیاسی عزم کی ضرورت ہے، اس کا حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں میں فقدان ہے۔سوئم،اہم قومی امور بالخصوص خارجہ پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور قومی تشخص کے بارے میں ملک کے مختلف شراکت داروں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں ہو پا رہی۔چہارم،بعض مخصوص مفادات دوست ممالک کی اپنی سرزمین پر پراکسی جنگ روکنے میں مانع ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے،جس کا شدت پسند عناصربھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

اس تناظر میں چند روز قبل عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے منعقد کی جانے والی کل جماعتی کانفرنس اور اس میں کیے گئے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے،تواس سے سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی، منافقانہ روش اور موقع پرستی سامنے آتی ہے۔اس کانفرنس میںشریک 24سیاسی ومذہبی جماعتوںمیں سے کسی ایک نے بھی اصل حقائق پر توجہ دلانے اور ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنے کامشورہ نہیں دیا۔حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مختلف مواقعے پر اس قسم کے کئی مذاکرات ہوئے اور معاہدے بھی کیے گئے مگر ان میں سے کسی ایک کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور حالات مسلسل بد سے بد تر ہوتے چلے گئے اور آج اس نہج پر پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے ان جماعتوں سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ آیا ان عناصر سے مذاکرات کاکوئی منطقی جواز ہے، جو آئین پاکستان اور جمہوری نظم حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے؟جو اب تک سیکڑوں فوجی جوانوں سمیت ہزاروں معصوم شہریوں کوقتل اور ان گنت لوگوں کو مفلوج کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ ان جماعتوں سے یہ سوال بھی کیا جانا چاہیے کہ TTPکے ساتھ مذاکرات کے بعدکیا وہ متشددفرقہ وارانہ قوتوںاورکالعدم تنظیموں سے بھی مذاکرات کا مطالبہ کریں گی؟جو مختلف عقائد اور مسالک کے ماننے والوں کی تکفیر کرکے انھیں سفاکی کے ساتھ قتل کررہی ہیں۔

یہاںHRCPکے سیکریٹری آئی اے رحمان کی یہ بات نقل کرنا بے محل نہ ہوگا کہ عقائدونظریات یقینی طور پر قابل احترام ہوتے ہیں،کیونکہ یہ انسان کے ضمیر کی آواز اور اس کا ذاتی معاملہ ہوتے ہیں۔لیکن مذہبیت(Religiosity)ایک قطعی مختلف اصطلاح ہے، جو مذہب کے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال کرنے کی روش کو ظاہرکرتی ہے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء کے دور سے مذہب(Religion)کی متحمل مزاج تفہیم کے بجائے مذہبیت(Religiosity)کوفروغ دینے کی کوشش کی گئی، جس نے پاکستانی معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرکے بیشمار پیچیدہ مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔اس رویے یا روش کی وجہ سے ایک طرف مذہبی اقلیتیں مساوی شہری حقوق سے محروم ہوئیں،تو دوسری طرف مختلف فقہوںاور مسالک سے تعلق رکھنے والے شہری تحقیروتکفیرکی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہوچکے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ متشدد فرقہ واریت مذہبی شدت پسندی کے بطن ہی سے جنم لیتی ہے۔

اس لیے فرقہ واریت کو مذہبی شدت پسندی سے الگ کرکے نہیں دیکھاجاسکتا۔فیصلہ سازحلقوں کو یہ بات ذہن میں رکھناہوگی کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں کوئی بھی معاشرہ کسی ایک ہی عقیدے کا حامل نہیں رہا ہے،بلکہ مختلف عقائد ونظریات اور نسلی و لسانی گروہوں کی کہکشاں کے طور پر آگے بڑھا ہے۔اس لیے کسی معاشرے کی ترقی اور آگے بڑھنے میںفکری اور نظریاتی کثرتیت کے لیے قبولیت کا جذبہ ہی کلیدی کردارادا کرتا ہے۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ہر معاشرے میں ایک مخصوص گروہ اپنی سیاسی طاقت اور اسلحے کی بنیاد پر تہذیبی نرگسیت کا ضرور پرچار کرتا ہے۔ لیکن ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ انھیں حدود سے تجاوز نہ کرنے دے۔اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت ا پنی سرشت میںآزادخیال اور متحمل مزاج ہوتی ہے۔

جس کی ان گنت مثالیںروزانہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔اس کی سب سے نمایاں مثال حال ہی میں کراچی میں منعقد ہونے والا لٹریچرفیسٹول تھا،جو شہر میں قتل وغارت کے باوجود تین روز تک جاری رہا اور جس میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ شرکت کی۔ آشوب زدہ شہرجہاں ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول بن چکی ہے،عوام نے اس فیسٹول میں جوق درجوق شریک ہوکر یہ ثابت کیا کہ وہ ہر قسم کی عصبیتوں سے بالاترہیںاور سماجی وثقافتی سرگرمیوںکے تسلسل کے متمنی ہیں۔ ان تین دنوں میں شہریوںکاجوش وخروش دیدنی تھا۔ کہیں مشاعرہ ہورہاہے،کہیں سماجی وثقافتی امور پر دقیق وسنجیدہ گفتگو جاری ہے،کہیں نئی کتابوں کا اجراء ہورہاہے تو کہیں طنز ومزاح کی محفل سجی ہے۔ ہر جگہ،ہرمقام پر لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے۔مذاکروں میں شرکاء کی اتنی تعداد کہ نشستیں کم پڑرہی تھیں۔ یہاں کوئی کسی سے یہ نہیں پوچھ رہاتھا کہ اس کا عقیدہ کیا ہے؟وہ کس قومیت سے تعلق رکھتا ہے یا کون سی زبان بولتا ہے؟

ریاستی منصوبہ سازوں کو سمجھناہوگا کہ پاکستان کی بقاء صرف 1973 کے آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل سے ہی ممکن ہے۔جس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علاوہ مذہبی اقلیتوںکومساوی شہری حقوق دیے گئے ہیں۔انھیں اس پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا کہ جن فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیموں پر ریاست نے ان کی منفی سرگرمیوںکی وجہ سے پابندی عائد کی ہے،ان کے قائدین کس قانون کے تحت پورے ملک میں دنداتے پھررہے ہیں اور کس کی اجازت سے جگہ جگہ اشتعال انگیز تقاریر کررہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کو بھی محض چند ہزار ووٹوں کی خاطر ان تنظیموں سے درپردہ معاملات طے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ انھیں ماضی کی غلطیوں کاجائزہ لے کراصلاح احوال کے لیے سیاسی عزم کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کے سدباب کے لیے عملی اقدام کرنا ہوگا۔ اس پہلو پر بھی توجہ دیناہوگی کہ اس قسم کے رجحانات پر قابو پانے میں مقامی حکومتی نظام اہم کردار ادا کرسکتاہے۔کیونکہ نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے سے ضلعی انتظامیہ کے بااختیار ہونے کی وجہ سے دہشت گردی سمیت سماج دشمن سرگرمیوں پر قابو پانا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔اس لیے وسیع تر قومی مفاد میں اس نظام کو فوری متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کو دہشت گردی سمیت دیگر عفریتوں سے نکالنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔