توہم پرستی کے معاشرے پر اثرات

عائشہ صدیقہ  جمعـء 15 ستمبر 2017
دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی توہم پرستی عام ہے۔فوٹو: فائل

دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی توہم پرستی عام ہے۔فوٹو: فائل

توہم پرستی اور بدشگونی جیسے عقائد کے حامل افراد کچھ چیزوں، واقعات یا علامات کو اپنے لیے مبارک گردانتے ہیں اور کچھ کو نقصان دہ یا منحوس۔ توہم پرست لوگ منفی خیالات کا شکار ہو کر اپنی خوشیاں اور سکون برباد کرلیتے ہیں اور بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں۔ کہنے کو تو ہم سائنسی دور میں رہتے ہیں جہاں ہر واقعہ اور نظریے کے دلائل اور حقائق تلاش کیے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی توہم پرستی عام ہے۔

اسپین میں منگل کے دن مہینے کی 13 تاریخ ہو تو اسے قومی طور پر بدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چائنا میں 8 کا ہندسہ مبارک اور 4 کا ہندسہ منحوس خیال کیا جاتا ہے حتیٰ کہ کچھ لوگ عمارت کی چوتھی منزل تعمیر نہیں کرتے۔ انہیں لگتا ہے کہ ہر سال خوش قسمتی گھر کے اگلے دروازے سے داخل ہوتی ہے اس لیے وہ صفائی کرکے گھر کی نحوستوں کو کچرے کے ساتھ پچھلے دروازے سے باہر پھینک آتے ہیں۔ آئرلینڈ میں دلہنیں اپنے لباس یا زیورات میں چھوٹی گھنٹی ضرور استعمال کرتی ہیں جسے خوش قِسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

روس میں خالی بالٹی کہیں لے جانے کو بُرا شگون سمجھا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر مکڑی کو مارا جائے تو اگلے دن بارش ہوگی۔ پرتگال کے لوگ سمجھتے ہیں کہ الٹا چلنے سے برائی ہمارا رستہ سیکھ لیتی ہے۔ مصر میں خالی قینچی چلانے کو بُرا سمجھا جاتا ہے کیوں کہ اس سے ہوا میں موجود بد روحیں کٹ جاتی ہیں جس کے باعث ان کو غصہ آجاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ اور نیدرلینڈ کے لوگ شادی کے بعد گھر کے باہر صنوبر کا درخت لگاتے ہیں کہ یہ ان کے ازدواجی تعلقات میں مضبوطی ڈالے گا۔ برطانیہ میں چیونٹیوں کی آمد برے موسم اور ان کا قطار میں چلنا بارش ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں سفید مرغی نظر آنا رحمت جب کہ سیاہ مرغی کو شیطان کی روح گمان کیا جاتا ہے۔ ترکوں کا خیال ہے کہ اگر آپ دو ہم نام لوگوں کے درمیان کھڑے ہیں تو جو مراد چاہیں وہ پوری ہوگی۔

٭ مسلمانوں میں توہم پرستی کی وجوہات
اگرچہ اسلام ہمیشہ تحقیق اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس میں توہم پرستی یا بدشگونی کی قطعا گنجائش نہیں مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی کثیر تعداد اس مرض کا شکار ہے۔ مسلمانوں میں توہم پرستی کی وجہ ایک تو کم علمی اور دینی احکام سے ناواقفیت ہے اور دوسری بڑی وجہ برصغیر میں ہندوؤں کے ساتھ رہنا ہے جن میں توہم پرستی حد درجہ عام ہے جیسا کہ نومولود کو نظربد سے بچانے کے لیے پیشانی پر کاجل کا ٹیکا یا نشان لگانا، شام کے وقت صفائی سے گریز کرنا کہ اس سے دولت کم ہوگی، مرد کی دائیں اور عورت کی بائیں آنکھ پھڑکنے کو اچھی خبر کی آمد سے مشروط کرنا، ٹانگیں ہلانے سے دولت کا جانا، پیاز یا چھری سرہانے رکھنے سے برے خوابوں سے نجات ملنا، اس کے علاوہ کالی بلّی کا راستہ کاٹنا، شیشہ ٹوٹنا، دودھ کا ابل کر برتن سے باہر گر جانا وغیرہ کو بُرے واقعے کی علامت سمجھنا ہندو معاشرے کے عام عقائد ہیں۔

٭ غیر شرعی کام جو توہم پرستی میں شامل ہیں
ہمارے بزرگوں نے بہت سی غیر منطقی باتیں ہمارے ذہنوں میں انڈیل دی ہیں جس طرح ان کے بڑے ٹوک کر انہیں ذہن نشین کرواتے رہے جو توہم پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ توہم پرستی پر مبنی بے شمار باتیں آپ نے ضرور سنی ہوں گی مثلا منڈیر پر کوا بیٹھا تو مہمان آنے والے ہیں، چھینک آئی تو کوئی یاد کررہا ہے، فلاں پتھر اور ہندسہ مبارک ہے اور فلاں منحوس، بدھ کا دن اور ماہ صفر مصیبتیں لاتے ہیں، دائیں ہاتھ میں خارش ہے تو دولت آئے گی، بائیں میں ہے تو جائے گی، جھاڑو کھڑا کرنا یا بعد از عصر جھاڑو دینا نحوست ہے، ٹوٹے تارے کو دیکھ کر یا پلک کا بال گرنے پر جو دعا مانگو وہ قبول ہوگی۔

مغرب کے بعد گھر کی ساری بتیاں جلادو ورنہ بد روحیں آجائیں گی، جائے نماز کا کونا الٹا دو ورنہ شیطان نماز پڑھنے لگ جائے گا، خالی قینچی چلانے سے قطع تعلقی ہوجائے گی، نمک غلطی سے بھی زمین پر گر گیا تو روز قیامت پلکوں سے اٹھانا پڑے گا، کسی پر پے در پے آزمائشیں آنے کو منحوس قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کانچ کا ٹوٹنا، بلی یا کتے کا رونا نحوست اور بے برکتی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ اور تو اور کچھ لوگ تو انگلی پر تل کو کام چوری اور ہتھیلی میں تل کو تونگری سے تعبیر کرتے ہیں اور گھر میں منی پلانٹ جتنا بڑھے وہاں اتنی دولت آئے گی۔ کچھ لوگ قرآن سے فال نکالتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی اساس نہیں، اس کے علاوہ طوطے سے فال نکلوانا ، کاہن یا نجومی کے پاس جانا، ستاروں کے زندگی پر اثرات کا یقین رکھنا، ہاتھوں کی لکیریں دکھا کر قسمت کا حال جاننا یہ سب توہمات کے سوا کچھ نہیں۔

٭ میڈیا کا توہمات کی ترویج میں کردار
میڈیا کے نشر کردہ بہت سے پروگرامز اور سیریل توہمات کو سچ ہوتا دکھا کر لوگوں کے اذہان میں ایسے بے معنی خیالات کو پختہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخبارات، میگزین اور دیگر رسائل میں ’’ آپ کے ستارے کیا کہتے ہیں‘‘ یا ’’ آج کا دن کیسا گزرے گا‘‘ جیسی خرافات دیکھنے کو ملتی ہیں جسے تعلیم یافتہ طبقہ بھی بڑے تیقن اور دِل چسپی سے پڑھتا ہے۔ جب کہ اسلام آپ کو ایسا کچھ پوچھنے کے لیے نجومی کے پاس جانے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ آپ کبھی کچھ وقت نکال کر سرچ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان آسٹرولوجیکل سائیسز کی بنیاد یونانی عقائد ہیں جو سیکڑوں خیالی فلسفوں پر مبنی ہیں، جس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔

٭ توہمات اور بدشگونی سے متعلق شرعی احکام
قبل از اسلام بھی لوگ توہم پرستی کا شکار تھے۔ عرب کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے، دروازے کے بہ جائے پچھلی دیوار توڑ کر گھر میں داخل ہونے کو باعثِ برکت سمجھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ کی وفات کے دن سورج گرہن تھا، کچھ لوگوں نے آپؓ کی وفات کی وجہ سورج گرہن کو سمجھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خیال کرنے سے منع فرما دیا۔

دیکھا جائے تو توہمات پر یقین رکھنا ہی تقدیر پر یقین کا رد ہے۔ کوئی دن، پتھر، بشر، چرند پرند یا ستارے وغیرہ انسان کے نفع و نقصان کے خَالِق نہیں ہوسکتے سوائے اللہ کے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی بہ دولت ہے۔‘‘(سورۃ النساء )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کسی چیز سے بدفعالی پکڑ کر اپنے کام سے پیچھے ہٹ گیا تو اس نے شرک کیا۔‘‘ (مسند احمد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ بدشگونی کی کچھ اصل ہے، اور نہ الو میں نحوست ہے اور نہ صفر کی نحوست کی کوئی بنیاد ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔ ( آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا) اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نا کوئی وہم) ہوجاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہے۔‘‘ (سنن ابو داؤد)

جہاں تک دم کی بات ہے تو مسنون دعاؤں سے دم کرنا جائز ہے بہ شرطے کہ شرکیہ کلام نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’دم میں کوئی حرج نہیں جب کہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم )

جو شخص توہم پستی اور بدگمانی جیسے برے خیالات سے احتراز کرے اس کے لیے نیک اجر ہے۔ حدیث میں ہے، مفہوم : ’’میری امت کے 70ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

ایسے میں کسی بھی طرح سے توہم پرستی سے بچنا چاہیے۔ یہ ایک طرح سے شرک اور اللہ پر بھروسا نہ کرنے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان برائیوں سے محفوظ رکھے اور برے اثرات سے بھی بچا کر رکھے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔