سبق آموز واقعات

شبیر احمد ارمان  جمعرات 21 فروری 2013
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ایک طرف برطانیہ میں لچک دار موبائل فون بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو دوسری طرف ہمارے یہاں اسے منفی پہلو میں استعمال کرنے کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے، میڈیا رپورٹ کے مطابق موبائل فون کو ایک کاغذ کے ٹکڑے کی طرح استعمال کیا جا سکے گا، موبائل موڑیں، گرا دیں یا پھر موڑ کر اپنی جیب میں رکھ لیں، اور اگر آپ کا پیر بھی اس پر پڑ جائے تو بھی اسے نقصان نہ پہنچے، یہ موبائل فون 2013 میں ہی بازار میں دستیاب ہو گا۔ جب یہ جدید موبائل ہمارے ملک کے من چلے نوجوانوں کے پاس آ جائے گا تو نہ جانے وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

فی الحال یہ پیرا ملاحظہ کریں ’’میں ایک طالب علم ہوں اور میں نے تعلیمی مقاصد کے لیے انٹرنیٹ لیا، مگر میں نے اس کا غلط استعمال شروع کر دیا، انٹرنیٹ پر ایک لڑکی سے دوستی کی، اس نے اپنی فیک تصاویر مجھے دکھائیں اور میں نے بھی فیک تصاویر کے ساتھ فیس بک اکاؤنٹ بنا لیا، ہم ساری ساری رات چیٹ کرتے اور فون پر باتیں کرتے رہے، پھر میں نے اس کو ملاقات کے لیے بلایا، میں نے اپنے دوست کے فلیٹ پر اس کو ٹائم دیا اور وہ وہاں آ گئی، لیکن جب میں نے اس کو کمرے میں آتے دیکھا تو میرے پیروں تلے زمین نکل گئی، فوری طور پر فلیٹ سے نکل کر بھاگ گیا، میرا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں دھنس جاؤں، وہ لڑکی میری ہی بہن تھی، خدا کا شکر ہے کہ میری بہن کو پتہ نہیں چلا کہ اس کو بلانے والا اس کا بھائی تھا۔ میں آپ لوگوں سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کے کمپیوٹر کے استعمال پر نظر رکھیں‘‘۔ ان خیالات کا اظہار انٹرنیٹ اور موبائل کے غلط استعمال کے ایک شکار نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’بات سے بات‘‘ میں کیا۔ اس پروگرام کے ذریعے اینکر پرسن نے موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے باعث متاثر ہونے والوں کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی تا کہ نوجوان نسل کو جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بچایا جائے۔

کمپیوٹر کے ذریعے جسم فروشی کے دھندے میں ملوث لوگوں تک پہنچنے کے لیے ’’بات سے بات‘‘ کی ٹیم نے فیس بک کے اکاؤنٹ سے ہی ایک کال گرل کا نمبر لیا۔ اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، جس پر اس نے 16 ہزار ملاقات کے مانگے اور آٹھ ہزار روپے بطور ایڈوانس طلب کیے۔ گاڑی میں ہونے والی ملاقات کے دوران جب پوچھا گیا کہ تم یہ کام کیوں کرتی ہو اور تمہارے ساتھ اور کون کون لوگ شامل ہیں؟ تو اس نے اپنے کاروبار یا ساتھیوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور آخر کار وہ گاڑی سے اتر گئی۔ ایسا ایکسپریس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔ پروگرام میں موبائل فون کے غلط استعمال کی وجہ سے مشکلات میں گھرنے والی لڑکی (ع) نے کہا کہ میں اسلام آباد کے ایک اسپتال میں اپنی ماں کے علاج کے لیے گئی تھی جہاں فرضی ڈاکٹر ثاقب نے اپنی بہنوں کے ذریعے میرا موبائل نمبر لیا اور پھر ایک دو دفعہ ہمارے گھر بھی آیا۔

اس کے بعد اس نے مجھ سے موبائل پر رابطہ کرنا شروع کر دیا اور مجھ سے کہا کہ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ میں ساتویں جماعت کی طالبہ تھی اس کی باتوں میں آ گئی اور گھر والوں سے چھپ کر نکاح کر لیا۔ اس نے دھوکے سے میرا زیور بھی ہتھیا لیا۔ اس نے سب سے زیادہ ظلم یہ کیا کہ میری موبائل پر ویڈیو بنالی اور وہ نیٹ پر ڈال دی، لوگوں کو بھی دکھاتا اور میرا فون نمبر بھی اپنے دوستوں کو دے دیا۔ میں نے اس سے طلاق لے لی، مگر وہ پھر بھی مجھ سے ملنے کے لیے اصرار کرتا رہتا۔ پھر میں نے پولیس کی مدد لی، لیکن اس نے پولیس انسپکٹر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ابھی بھی میری فلم دکھا کر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (ص) نامی خاتون نے بتایا کہ میں نوکری کے لیے گئی تھی، میرے تین بچے تھے، مجھے سہارا چاہیے تھا میں نے ڈاکٹر ثاقب کو فون نمبر دے دیا اور پھر اس نے مجھے کرائے کے ایک مکان میں رکھا، وہ باہر سے تالہ لگا دیتا تھا، پھر اس نے میرے ساتھ نکاح کیا، لیکن نکاح کے کاغذات جلا ڈالے، اس نے موبائل پر میری بھی ویڈیو بنا لی تھی، اس نے بہت سے خاندانوں کی عزت نیلام کی۔

میں نے مذکورہ بالا خبر کی روداد اس لیے نقل کی ہے تا کہ اس سبق آموز داستان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہو سکے اور لوگ احتیاط برتیں۔ بلاشبہ موبائل فون اور کمپیوٹر پر انٹرنیٹ رابطے رکھنے کے تیز ترین ذرایع ہیں جن کے ذریعے ہم پل بھر میں اپنے پیاروں سے بات چیت کر کے ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہو سکتے ہیں۔ آئیے! ان دونوں ذرایع ابلاغ کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرتے ہیں۔

مثبت پہلو: کم وقت اور کم خرچ پر آپ اپنی بات دور دراز کے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں، جسے رابطے کا آسان، تیز ترین اور موثر ذریعہ کہتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موبائل فون کو مثبت انداز میں استعمال کرنے والوں کی تعداد 42 فیصد ہے جو افسوسناک پہلو کی نشاندہی کرتا ہے، یعنی اسے منفی انداز میں زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ موبائل فون کا جہاں استعمال کرنا چاہیے وہاں ہم نہیں کرتے اور جہاں کرنا نہیں چاہیے وہاں ہم شوق سے کرتے ہیں۔

منفی پہلو: موبائل فون کے متعلق بزرگ لوگ کہتے ہیں کہ ’’یہ ہر برائی کی جڑ ہے‘‘۔ اسے رکھنا گویا خود کو برا بنانا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں 58 فیصد موبائل فون کا غلط استعمال ہو رہا ہے جو کئی برائیوں کو جنم دے رہا ہے۔ ہمارے نوجوان طبقے نے اس کا منفی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ فضول خرچی کی ایک وجہ موبائل فون بھی ہے جو انسان کو کھانے کے بجائے فون میں بیلنس لوڈ کروانے پر مجبور کرتا ہے اور جب موبائل میں بیلنس لوڈ کرواتے ہیں تو بیلنس بھی منفی استعمال میں لاتے ہیں۔ بے مقصد ایس ایم ایس کرنا، فری کالز اور فری منٹس سے کاروباری لوگوں کو باعزت گھرانوں کو تنگ کرنا، لڑکے اور لڑکیوں کی موبائل فون کے ذریعے دوستی کر کے شرارت کرنا، پہلے لوگ صرف آواز ہی سنتے تھے مگر اب جدید موبائلز نے ایم ایم ایس، ویڈیو کالز نے تصویروں کے ذریعے اور آمنے سامنے گفتگو کرنا بھی مہیا کر دیا ہے جس وجہ سے موبائل فون سے بے شمار گھروں کی عزتیں خاک میں ملتی جا رہی ہیں، آئے روز اخبارات میں پڑھا جاتا ہے کہ فلاں جگہ فلاں گھرانے کی آبرو پاؤں کی خاک ہو گئی ہے۔

اصل میں جس مقصد کے لیے موبائل فون ایجاد ہوا ہے، اس مقصد کے برعکس اسے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ موبائل فون رابطہ رکھنے کا آسان ذریعہ ہے جس میں خطوط، انٹرنیٹ، فیکس، فون وغیرہ شامل ہیں، لیکن انھیں غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میں غلطی صرف کمپنی والوں کی نہیں بلکہ فارغ شیطانی دماغوں کی بھی ہے جو اسے مثبت کے بجائے منفی استعمال کر رہے ہیں۔ موبائل فون رکھنا غلط بات نہیں ہے بلکہ اسے منفی استعمال کرنا غلط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔