بچھانے اور لپیٹنے والی سڑکیں

سعد اللہ جان برق  جمعرات 21 فروری 2013
barq@email.com

[email protected]

حکومت کے پی کے عرف خیر پہ خیر کی طرف سے ایک اعلان نامہ آیا ہے کہ اس با برکت حکومت نے گذشتہ پانچ سال میں چھتیس ہزار گز (یا فٹ یا انچ) سے زیادہ سڑکیں تعمیر کی ہیں۔ بہر حال یہ تو آپ خود ان سڑکوں کو ڈھونڈ کر معلوم کر سکیں گے کہ یہ چھتیس ہزار گز ہیں یا فٹ ہیں یا انچ ۔۔۔ لیکن خوش خبری صرف یہ نہیں ہے بلکہ اعلان میں کہا گیا ہے کہ ان سڑکوں کے ساتھ دو پل بھی ہیں گویا سڑکوں کو اگر ہم شوربا تصور کریں تو اس میں دو بوٹیاں بھی ہیں یا پراٹھے کے اوپر دو انڈے یا کسی کیک کے اوپر دو بادام کی گریاں، اس میں ایک بادام کی گری تو شاید یہی ہے کہ جو پشاور شہر میں ابھی حال ہی میں آ کر جی ٹی روڈ پر فروٹ منڈی سے ہشت نگری تک لیٹ گئی ہے، پل پر زر کثیر تو یقیناً خرچ ہو گیا ہو گا کیوں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں … بلکہ ’’کام‘‘ کیے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ کچھ ’’اس طرح‘‘ کرنے کا موقع ملے اور اس پل میں تو یقیناً بہت کچھ ’’اس طرح‘‘ اور ’’اس طرح‘‘ ہو گیا ہو گا کیونکہ جتنا کام بڑا ہوتا ہے اتنا ہی اس کا دام بھی بڑا ہوتا ہے، لیکن اس پل کو اژدہا کی طرح بیچ سڑک لیٹے لیٹے کئی مہینے ہو چکے ہیں مگر کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ہے کہ انھیں اتنے بڑے اژدہے کو سڑک پر لٹانے کا فائدہ کیا ہے

سوچتا ہوں سرِ ساحل باقیؔ
یہ ’’سمندر‘‘ ہمیں کیا دیتے ہیں

اگر اس سے مقصود ٹریفک کے لیے سہولت پیدا کرنا تھا تو ہم نہایت پر مسرت کے ساتھ فولادی قلعوں میں محصور اہل تدبر کو یہ خوشخبری دیں گے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے اور وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے کیوں کہ اس سرے پر بھی وہی سڑک اور وہی ٹریفک ہے اور اس سرے پر بھی وہی سڑک اور وہی ٹریفک ہوتی ہے بقول مومن

سنگ اور ہاتھ وہی، وہی سر اور داغ جنوں
وہی ہم ہوں گے وہی دہشت و بیاباں ہوں گے

چوں کہ ہم کچھ زیادہ سمجھ دار نہیں ہیں اور پھر سیاسیات اور سرکاریات اور تعمیرات کے اسرار و رموز سے تو بالکل بھی واقف نہیں ہیں اس لیے ایک دانشور بزرجمہر سے رجوع کرنا پڑا کہ آخر اتنے بڑے سیمنٹ اور سریے کے اژدہا کو لٹانے سے کیا فائدہ ہوا کیوں کہ ایک سڑک پر اگر ٹریفک بہت ہے اور قدم قدم پر جام ہو جاتی ہے تو اس کے درمیان میں تھوڑی جگہ پر پل بنا کر کیا فرق ڈالا گیا کیوں کہ پل سے دونوں طرف تو پھر وہی حشر کا عالم ہوتا ہے ہر گاڑی کا ڈرائیور پل سے اتر کر اسی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے کہ

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہو گی
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے

دانشور پھر دانشور ہوتا ہے اس نے اپنے ہونٹوں پر نہایت ہی دانشورانہ مسکراہٹ پھیلائی جس میں کچھ کچھ سرکاری مسکراہٹ کی جھلکیاں بھی تھیں اور نہایت مدبرانہ انداز میں بولے بندر کیا جانے ادرک کا سواد … یہ جا کر کسی ڈرائیور سے پوچھو کہ اس پل کا کتنا فائدہ ہو رہا ہے نا سمجھ نکتہ چین … اس پل سے دہرا فائدہ ہو رہا ہے ڈرائیوروں کو الگ اور گاڑیوں کو الگ، بلکہ یوں سمجھ لو کہ یہ ایک ٹو ان ون منصوبہ ہے ٹریفک کے ساتھ ساتھ اس سے صحت کا فائدہ اٹھانا بھی مقصود ہے، پوچھا وہ کیسے تو دانشورانہ مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر اگاتے ہوئے بولے … دیکھو جب ٹریفک جام ہو جاتی ہے تو پوری سڑک پر دھواں پھیل جاتا ہے جس سے ڈرائیوروں کے پھیپھڑے متاثر ہو جاتے ہیں ساتھ ہی گاڑیوں کے پھیپھڑے بھی گرم ہو کر سانس کی تنگی کا شکار ہو جاتے ہیں آگے تو ٹریفک جام ہوتی ہے گویا نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔۔۔ اس موقع پر گاڑی اور انسان دونوں کے پھیپھڑوں کو سب سے زیادہ ضرورت تازہ ہوا کی ہوتی ہے نیچے سڑک پر تو ہوا صاف ہوتی نہیں چنانچہ یہاں سے گاڑیوں کو اوپر کی صاف ہوا میں چلانے کے لیے یہ پل ایک صحت افزا مقام بن جاتا ہے، گاڑیوں کے پھیپھڑے بھی تازہ ہوا میں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور چلانے والوں کے پیچھے بھی صاف اور کھلی ہوا میں نارمل ہو جاتے ہیں اور پھر آگے ٹریفک جام کے لیے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ اتنا کثیر المقاصد پل کبھی کسی حکومت نے کہیں بھی بنایا ہے، تم چاہو تو اس کو پھیپھڑا پل یا ویلتھ از ہیلتھ پل بھی کہہ سکتے ہو ٹھیک ہے کہ ٹریفک جام اور ٹریفک پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے کیوں کہ پائپ کے درمیان اگر کھلے پائپ کا ٹکڑا لگا بھی دیا جائے تو آگے پیچھے تو وہی پائپ ہے اور وہی پانی ہے لیکن دوسرے فائدے کو دیکھو … کتنا بڑا اور یہ صرف ہماری حکومت ہی کا کارنامہ ہے

ایں کار از تو آئد و مرداں چنیں کنند

دوسرا پل جس کا ذکر ہوا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کہاں ہے لیکن جہاں بھی ہو گا ایسا ہی کثیر المقاصد ہی ہو گا اب آتے ہیں سڑکوں کی طرف … جن سڑکوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی جو تعمیر کی گئی ہیں ان کے بارے میں ہمیں نہایت باوثوق ذرایع سے پتہ چلا ہے کہ عام روایتی سڑکوں سے بالکل مختلف ہیں بلکہ چند سڑکوں کو تو ہم نے خود دیکھا بھی ہے، ان سڑکوں میں پہلی بار ایک نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے کیوں کہ موجودہ حکومت کے پی کے کا خاصہ یہ ہے کہ وہ جو کام کرتی ہے نئی تکنیک سے کرتی ہے چنانچہ ان سڑکوں میں یہ نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے کہ ان پر ’’آیا‘‘ بھی جا سکتا ہے اور ’’جایا‘‘ بھی جا سکتا ہے یعنی جس سڑک پر آپ شہر کو آ سکتے ہیں اسی سڑک پر آپ دوبارہ واپس جا بھی سکتے ہیں، ہے نا کمال کی بات ۔۔۔ گویا ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہے بلکہ یوں کہئے کہ یہ وہ کوٹ یا واسکٹ یا سوئٹر ہے کہ آپ ایک طرف پہننے کے بعد انھیں الٹ کر دوسری طرف بھی پہن سکتے ہیں اور یہ بات آج تک ہم نے نہ دیکھی نہ سنی نہ کہیں پڑھی ہے کہ ایک ہی سڑک سے دو دو کام لیے جائیں، آنے کا بھی اور جانے کا بھی … لیکن اصل فوائد تو ہم نے ان سڑکوں کے بتائے ہی نہیں وہ بھی دہرے دہرے … مثلاً جس طرح ’’آنے جانے‘‘ دونوں کاموں کے لیے یہ سڑکیں استعمال ہو سکتی ہیں اسی طرح ان سڑکوں سے ایک طرف تو وہ لوگ خوش ہو جاتے ہیں جو ان سے آنے اور پھر جانے کا کام لیتے ہیں لیکن ان لوگوں کو بے پناہ فوائد حاصل ہو جاتے ہیں جو اس کی تعمیر میں فنڈنگ بنانے میں منظوری میں یعنی مطلب یہ کہ کسی طرح بھی ان سے تعلق رکھتے ہوں ان کی جیبیں بھی بھر جاتی ہیں کیوں کہ کاغذات میں سڑک پر ایک کروڑ روپے لاگت آتی ہے اس میں کم از کم ساٹھ لاکھ متعلقہ لوگوں میں حصہ بقدر جثہ تقسیم ہو جاتے ہیں اسی لیے تو ایسے کاموں کو ’’ترقیاتی کام‘‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ ان خاندانوں کی اچھی خاصی ترقی ہو جاتی ہے اور سب آخری اور بڑی خوبی ان سڑکوں کی یہ ہے کہ یہ کنورٹیبل ہوتی ہے جہاں جی چاہیے بچھا دی جاتی ہیں پھر جب جی چاہتا ہے لپیٹ دی جاتی ہیں غالباً کسی دوسری جگہ لے کر بچھانے کے لیے … اور یہ ہم نے خود دیکھا ہے کہ آج ایک جگہ سڑک بچھی ہوئی ہوتی ہے لیکن دو چار روز کے بعد وہ وہاں نہیں ہوتی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسے چٹائی کی طرح لپیٹ کر کسی اور جگہ لے جایا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔