حقائق اور ہم

سلیم احمد  جمعرات 21 فروری 2013

ایک روز امیرالمومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا بیٹا گھر میں زار و قطار رو رہا تھا، ماں کا دل بچے کی اس حالت پر تڑپ اٹھا، اس نے بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ بچے سے رونے کا سبب پوچھا۔ بچے نے روتے ہوئے ماں کو بتایا ’’ماں! میرا لباس جگہ جگہ سے پھٹ چکا ہے اور جہاں سے یہ لباس پھٹ جاتا ہے تو آپ وہاں پیوند لگا دیتی ہیں، اب تو میرے لباس میں اور پیوند لگانے کی جگہ بھی نہیں رہی۔ مدرسے میں میرے ساتھی اچھے کپڑوں میں آ تے ہیں۔ وہ میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں تم خلیفہ کے بیٹے ہو کر بھی اس حلیے میں مدرسے آتے ہو‘‘ ماں ننھے بچے کی یہ بات سن کر بہت رنجیدہ ہوئی۔

اس نے بچے کو بہلا پھسلا کر سمجھانے کی بہت کوشش لیکن بچہ نہ مانا اور اس نے کہہ دیا ’’ماں! اگر آپ نے مجھے نیا لباس نہ سلوا کر دیا تو میں کل مدرسے نہیں جائوں گا۔‘‘ اسی دوران حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ گھر میں داخل ہوئے۔ بچے کی ماں نے اپنے شوہر سے کہا ’’اے مسلمانوں کے خلیفہ! میں ایک وقت کے حاکم کی بیوی ہونے کے باوجود گھر کے سارے کام خود کرتی ہوں۔ میں نے روکھا پھیکا کھا کر آپ ؒکے ساتھ گزارا کیا ہے۔ ہمیشہ آپؒ کی اطاعت کی ہے۔ آپؒ کے حکم پر اپنی دولت جائیداد اور زیورات بیت المال میں جمع کرادیے۔

آپؒ سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی لیکن میں یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ میرے لخت جگر کو مدرسے میں اپنے پھٹے پرانے لباس کی وجہ سے شرمندہ ہونا پڑے، لہٰذا آپؒ آج ہی میرے بیٹے کے لیے نئے لباس کا انتظام کریں۔‘‘ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دل پر بیوی کی ان باتوں کا گہرا اثر ہوا، وہ اپنے بچے کو نیا لباس دلوانا چاہتے تھے لیکن ان کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی، چنانچہ آپ ؒنے بیوی سے کاغذ قلم منگوایا اور بیت المال کے وزیر کو ایک رقعہ لکھ کر بھیجا کہ میرے اگلے ماہ کی تنخواہ میں سے رقم پیشگی دے دو، اگلے ماہ کی تنخواہ سے کاٹ لینا۔

کچھ دیر بعد بیت المال کے وزیر کا جوابی خط ملا جس میں لکھا تھا، اے خلیفہ! آپؒ اس بات کی کیسے ضمانت دیں گے کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہیں گے اور خلیفہ کے منصب پر فائز بھی رہیں گے۔ عمر بن عبدالعزیز یہ سب پڑھ کر خاموش ہوگئے۔ بھلا وہ اس کی ضمانت کیسے دے سکتے تھے چنانچہ انھوں نے اپنی بیوی اور بیٹے کو سمجھایا کہ اگلے مہینے تنخواہ ملنے پر نیا لباس منگوا دوں گا۔ یہ تھے مسلم قوم کے اصل حکمران جو اسلامی نظام کے عین مطابق حکمرانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیا گیا لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کو حقیقی حکمران نصیب حاصل نہ ہوسکا، اس کی وجہ بالکل واضح ہے، اس ملک پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور مراعات یافتہ افراد کا قبضہ ہے۔ ان لوگوں نے اس ملک کے نظام کو جکڑ رکھا ہے، یہ ہر اس شخص کے آگے روڑے اٹکاتے ہیں جن سے ان کو ڈر لاحق ہوتا ہے۔ اس طبقے نے قائداعظم ؒسے لے کر آج تک کسی بھی حکمران کو کھل کر کام نہیں کرنے دیا۔ یہاں کے انتخابات میں بھی وہی امیدوار کامیاب ہوتا ہے جسے یہ طبقہ چاہتا ہے، یہ لوگ دن دہاڑے شاہ زیب جیسے نوجونواں کا قتل بھی کرتے ہیں اور جب چاہیں منو بھیل جیسے غریبوں کی بہو بیٹیوں کو اغوا کرلیتے ہیں، ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں رہا، قانون تو ان کے گھر کی باندی بن کر رہ گیا ہے۔

یہ کبھی بھی اس ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ اسلامی نظام سے اس طبقے کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے، ان کی جائیدادیں اور مفادات ختم ہوجائیں گے۔ آپ اس ملک میں رہنے والے حکمرانوں کی جائیدادوں پر نظر دوڑائیں اور قوم کی حالت زار بھی دیکھ لیں تو آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔ جمہوریت میں اصل حکمران عوام کو تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اصل حکمران کون ہے اس کا باآسانی علم ہوجائے گا۔

ان چار طبقوں کی خواہشات پر یہاں کے قوانین میں ترامیم کی جاتی ہے، صدارتی آرڈیننس جاری کیے جاتے ہیں، اس طبقے کا ایک صوبائی وزیر بھی بھاری بھرکم حصارمیں نکلتا ہے اور عوام کے پیسوں کا بے دریغ استعمال کرنا اپنا حق سمجھتا ہے، ان کے بچے دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان حکمرانوں کی آمدنی اس قدر وافر ہوتی ہے کہ یہ عمر بن عبدالعزیزؒ کی طرح اپنے بچے کے کپڑوں کے لیے بیت المال کے وزیر کو رقعہ نہیں لکھتے ہیں، ان کے بچے مہنگے ترین لباس زیب تن کرتے ہیں اور اس لباس کو دوسری دفعہ پہننا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ یہ بچے عمر بن عبدالعزیز ؒکے بچے کی طرح روتے نہیں ہیں نہ ہی ان کی مائیں انھیں ڈھارس بندھاتی ہیں۔

آپ اس ملک کے بچوں کی بدنصیبی دیکھیں، یہ ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں پر قریب ہی بھینسوں کے باڑے قائم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں دو طبقے کے لوگ ہیں ایک مراعات یافتہ تو دوسرے غریب لوگ، ایک طبقہ حکمران ہے تو دوسرا طبقہ غلام ہے، ایک طبقے پر ٹیکس دینا لازم ہے تو دوسرا طبقہ ان ٹیکسوں سے اپنے محلات تعمیر کراتا ہے، اس کے صلے میں یہاں کے حاکم ان کو مہنگائی، بے روزگاری، ٹارگٹ کلنگ، لاقانونیت اور خودکشیوں کے تحفے دیتے ہیں۔ اس قوم نے کبھی بھی عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمرانوں کو لانے کی کوششیں کرنا تک گوارا نہ کی۔ معلوم نہیں یہ قوم کب جاگے گی، لیکن جاگے گی ضرور۔ کیونکہ ظلم سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور وہ دن دور نہیں جب اس ملک کا حاکم اور اس کی بیوی بھی اپنی ساری جائیداد حکومت کو دیدے گی، پھر اس کے گھر میں بھی بچے اپنے پھٹے پرانے لباس پر روئیں گے اور اس ملک کا حاکم بھی اپنی بیوی سے کاغذ قلم منگوائے گا اور بیت المال کے وزیرکو ایڈوانس تنخواہ لینے کے لیے رقعہ لکھے گا اور اس کی چٹھی یہ کہہ کر مسترد کردی جائے گی کہ آپ اس بات کی کیسے ضمانت دیں گے کہ اگلے مہینے تک آپ زندہ رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔