کتاب الہند، البیرونی کا سفر نامہ ہندوستان

ذیشان محمد بیگ  اتوار 17 ستمبر 2017
عظیم مسلمان سائنس دان ابوریحان البیرونی کے ایک ہزار سال قبل ہندوستان کے سفر کی دلچسپ روداد

عظیم مسلمان سائنس دان ابوریحان البیرونی کے ایک ہزار سال قبل ہندوستان کے سفر کی دلچسپ روداد

آج عالم اسلام علم کے میدان میں زبوں حالی کا شکار ہے مگر صورتحال ہمیشہ سے ایسی نہ تھی۔ ایک وقت تھا کہ جب مسلمان اس میدان میں بھی چھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے ناصرف اس وقت کے مروجہ علوم کو اوج کمال تک پہنچایا بلکہ متعدد نئے علوم کی بنیاد رکھی۔ آج کے جدید علوم اور مغرب کی بے مثال ترقی، مسلمان سائنسدانوں کی قائم کردہ انہی بنیادوں پر استوار ہیں۔

کس کس کا نام لیا جائے؟ ہر مسلمان سائنس دان اس وقت اپنے علم کی معراج پر نظر آتا ہے۔ ابو القاسم الزاہراوی، جدید سرجری کا بانی کہلاتا ہے تو علی ابن العباس المجوسی، علم ابدان (تشریح الاعضاء) اور ماہر امراض جلد کے طور پر مشہور ہے۔ آنکھوں کی ساخت اور ان کے مختلف اجزاء اور ان کے کام کرنے کا طریقہ دنیا کو بتانے والاالحزین تھا اورالفارابی کو علم منطق پر ایسا عبور حاصل تھا کہ کوئی اور اس کے پاسنگ کا نہ تھا۔ الخلیل ابن احمد الفاراہدی ماہر لسانیات تھا۔

دوسری طرف الخوارزمی، کو کون نہیں جانتا؟ جدید الجبراء کا بانی، جس کی وجہ سے آج ریاضی کا علم باب عروج کو پہنچا اور خلائی سائنس کی بنیاد پڑی۔ابن رشد‘ جس کو یورپ عقلی علوم کا بانی مانتا ہے اورابن الہیشم جس نے سب سے پہلے تقابل ادیان کے علم کو اپنا موضوع بنایا۔ جدید معاشیات کی بنیاد رکھنے والاابن خلدون ہو یا جدید علم کیمیا کا ماہر، جابر بن حیان، دنیا کا پہلا ماہر امراض بچگان، الرازی یا سب سائنس دانوں کا سرخیل ابن سینا۔ جس کے ذکر کے بغیر مسلمان سائنس دانوں کا ذکر ادھوراہے۔ اس عظیم فلسفی ابن سینا کی فلسفہ اور طب پر تحریر کردہ کتب صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہیں۔

غرض جدید سائنس کی تاریخ مسلمان سائنس دانوں کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے اور ان کی خدمات کا اعتراف آج بھی دنیا بھر کے دانشور اور سائنس دان کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر ہمارا آج کا موضوع وہ عظیم سائنس دان، مفکر، فلسفی، تاریخ دان، ریاضی دان، ماہر فلکیات، ماہر علم تقویم، جغرافیہ دان اور ماہر لسانیات ابو ریحان محمد ابن احمد البیرونی ہے جس نے ہمارے خطے برصغیر پاک و ہند کے بارے میں ایک سفر نامہ ’’کتاب الہند‘‘ لکھ کر اس وقت کے ہندوستان کے لوگوں کا رہن سہن، طرز معاشرت ، تہذیب و تمدن اور عقائد کوتفصیل سے بیان کیاہے۔

البیرونی 4 ستمبر 973ء کو خوارزم میں پیدا ہوا۔ خوارزم کا علاقہ مو جودہ مغربی ازبکستان اور شمالی ترکمانستان میں واقع ہے۔ اس نے اپنے دور میں مروجہ تقریباً تمام ہی سائنسی علوم میں دسترس حاصل کی۔ ان علوم پر بے انتہا تحقیقی کام کرنے کے باعث اسے آج تک خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور اس محنت و تجسس نے اسے شاہی دربار میں اعلیٰ مقام و مرتبہ پر فائز کروا دیا۔

’’علم مومن کی گمشدہ میراث ہے،جہاں سے ملے، لے لو‘‘ والی حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے البیرونی نے دوسری اقوام کے علوم و فنون سے اکتساب فیض کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کی اور یونانیوںکا فلسفہ سیکھنے سے لے کر ہندوستان میں ہندو پنڈتوں سے سنسکرت سیکھنے تک اپنے علم کو وسیع کرنے کی تگ و دو میں لگے رہے۔ انہیں اپنی مادری زبان کے علاوہ، فارسی، عربی، سنسکرت، یونانی، عبرانی اور شامی عیسائیوں کی زبان پر عبور حاصل تھا۔ ان کی زندگی کا بڑا عرصہ افغانستان کے شہر غزنی میں گزرا۔ جہاں اس وقت غزنوی خاندان کی حکومت تھی۔ 1017ء میں انہوں نے محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان کا سفر کیا اور اسی سفر کے مشاہدات کو کتاب الہند کی صورت میں تحریر کیا اور علم ’’انڈولوجی‘‘ کے بانی کہلاتے ہوئے ’’الاستاد‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ انہوں نے غیر جانبداری سے گیارہویں صدی کے ہندوستان کی مذہبی و ثقافتی روایات کا مطالعہ کیا اور اسے تحریر کے قالب میں ڈھالا۔

آئیے ان کی ’کتاب لاالہند‘ سے چیدہ چیدہ اقتسابات کے ذریعے جائزہ لیتے ہیں کہ ایک ہزار سال پہلے کے اور آج کے ہندوستان کے طرز معاشرت اور وہاں کے باشندوں کے طرز عمل میں کوئی تغیر وقوع پذیر ہوا یا نہیں ؟

البیرونی رقم طراز ہیں: ’’ہم اس کتاب میں جوکچھ لکھنا چاہتے ہیں اسے شروع کرنے سے پہلے ان باتوں کو بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں جن کی وجہ سے ہندوئوں کے احوال و اقوال کو اچھی طرح سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ان باتوں کوجان لینے سے ایک طرف تو ان کے احوال کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور اگر کہیں انہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اس کا سبب بھی یہ باتیں ہیں۔ قاری کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ ہندو ہر اعتبار سے ہم سے بالکل مختلف ہیں اور ان کی بہت سی باتیں ہم کو بہت پیچیدہ اور مبہم معلوم ہوتی ہیں لیکن اگر ہمارے اور ان کے درمیان زیادہ قریبی روابط قائم ہوجائیں تو ان کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

ہمارے اور ہندوئوں کے درمیان مغائرت یعنی دوری ہے اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ اس دوری کا پہلا سبب زبان کا اختلاف ہے۔ اگرچہ لسانی اختلاف دوسری قوموں کے درمیان بھی پایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اس مغائرت کو دور کرنے کے لیے یہ زبان (سنسکرت) سیکھنا بھی چاہے تو آسانی سے نہیں سیکھ سکتا۔ ہندو، دوسری قوموں کی طرح، اپنی زبان کی اس وسعت پر بہت فخر کرتے ہیں جب کہ حقیقت میں یہ زبان کا ایک عیب ہے۔

بے تعلقی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہندو دین میں ہم سے بالکل مختلف ہیں۔ نہ تو ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جو ان کے یہاں پائی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے دین کی کسی بات کو مانتے ہیں۔ ہندو آپس میں مذہبی باتوں پر جھگڑا نہیں کرتے اور اگر کرتے بھی ہیں تو وہ لفظی نزاع تک محدود رہتا ہے اور مذہبی تنازع میں کوئی بھی جان اور مال کی بازی نہیں لگاتا۔ اس کے مذہبی جنون کا رخ دوسرے مذہب کے ماننے والوں یا بدیسیوں کی طرف ہوتا ہے۔ وہ ان کو ملیچھ یعنی ناپاک سمجھتے ہیں اور ان سے ملنا جلنا، شادی بیاہ کرنا، ان کے قریب جانا یا ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا حرام سمجھتے ہیں۔ ہر اس چیز کو جو ان باہر سے آنے والوں کی آگ یا پانی سے چھوگئی ہو ناپاک سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے بغیر کوئی گھر قائم نہیں رہ سکتا۔ پھر وہ اس بات کے بھی قائل نہیں ہیں کہ اگر کوئی چیز ناپاک ہوجائے تو اسے پاک کرکے دوبارہ استعمال کے قابل بنادیں حالانکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی چیز یا کوئی شخص ناپاک ہوجائے تو اسے پاک کرلیا جاتا ہے۔ انہیں غیرمذہب والوں سے ملنے جلنے یا انہیں گھر پر بلانے کی بھی اجازت نہیں ہے، چاہے وہ ان کے مذہب کی طرف میلان اور رغبت رکھتا ہو۔ اس بات نے ہمارے اور ان کے درمیان ایسی خلیج پیدا کردی ہے جس نے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ قائم کرنا ناممکن بنادیا ہے۔

بے تعلقی کا تیسرا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ، اپنے طور طریقوں میں ہم سے اس درجہ مختلف ہیں کہ اپنے بچوں کو ہم سے، ہمارے لباس اور طور طریقوں سے ڈراتے اور ہم کو شیاطین (راکشسوں) کی نسل میں شمار کرتے اور ہمارے اعمال کو نیکی کا الٹ تصور کرتے ہیں۔ بہرحال ہندوئوں کا یہ تعصب صرف ہمارے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دوسری قوموں کے ساتھ بھی ان کا یہی برتائو ہے۔

چوتھا مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کا تعصب اس وقت سے اور بھی بڑھ گیا ہے جب مسلمانوں نے اس کے ملک پر حملہ کیا اور محمد ابن قاسم ابن سبہ سیجستان کی طرف سے سندھ میں داخل ہوا اور بہ ہمنوا اور مول استھان کو فتح کرے ان کا نام علی الترتیب منصورہ اور معمورہ رکھا۔ وہ ہندوستان کے شہروں میں گھستا ہوا قنوج تک پہنچ گیا اور واپسی میں قندھار اور حدود کشمیر تک جاپہنچا۔ کہیں جنگ کی اور کہیں صلح سے کام لیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے اس نے کسی سے تعرض نہیں کیا اور انہیں اپنے آبائی دین پر قائم رہنے دیا۔ ان تمام واقعات نے مسلمانوں کے خلاف ان کے بعض و عناد کو اور بھی مستحکم کردیا۔

اگرچہ اس کے بعد سے ترکوں کے زمانے تک کوئی مسلمان فاتح، حدود کابل اور دریائے سندھ سے آگے نہیں بڑھا۔ لیکن جب سامانیوں کے زمانے میں ترک غزنی کی حکومت پر قابض ہوگئے اورناصرالدولہ سبکتگین اس کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا تو اس نے جہاد کو اپنا مشغلہ بنایا اور غازی (خدا کی راہ میں جنگ کرنے والا) کا لقب اختیار کیا اور اپنے جانشینوں کے لیے ہندوستان کی سرحدوں کو قابل تسخیر بنانے کے لیے وہ سڑکیں تعمیر کرائیں جن پر سے گزر کر اس کا بیٹا یمین الدولہ محمود تیس سال کے عرصے میں کئی بار ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ محمود نے اپنے ان حملوں سے ہندوئوں کی سر زمین کو تہس نہس کردیا اور وہاں ایسے عجیب کارنامے انجام دیئے جن سے ہندو غبار کی طرح منتشر ہوگئے اور داستان پارینہ بن کر رہ گئے۔ جو لوگ بھاگ کر بچ نکلے ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت اور عناد پیدا ہوگیا بلکہ اسی سبب سے ان کے علوم کو مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں سے ہٹا کر کشمیر، بنارس اور ان دوسرے مقامات پر منتقل کردیا گیا جہاں اب تک ہماری (مسلمانوں کی) رسائی نہیں ہوئی ہے اور جہاں دینی اور سیاسی مصالح کی بنا پر تمام غیر ملکیوں کے ساتھ بہت سخت بے تعلقی اور عناد برتا جاتا ہے۔

ان کے علاوہ کچھ اسباب ایسے ہیں جن کو بیان کرنا گویا ہندوئوں کی ہجو کرنا ہے لیکن یہ ان کے قومی کردار کی وہ خصوصیات ہیں جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں اور یہ خصوصیات کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ دراصل یہ ان کی ایک ایسی جہالت ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ہندوئوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے ملک کے علاوہ روئے زمین پر اور کوئی ملک نہیں ہے اور نہ ان کی قوم کے علاوہ کوئی دوسری قوم ہے، نہ کہیں ان کے بادشاہوں جیسے بادشاہ ہیں، نہ ان کا جیسا مذہب ہے اور نہ ان کا جیسا علم و فن ہے۔ اس خام خیالی نے انہیں، ہٹ دھرمی اور حماقت میں مبتلا کردیا ہے۔ جو کچھ یہ جانتے ہیں اس کو بتانے میں بخل کرنا اوردوسری قوم کے افراد تو درکنار خود اپنی قوم کی ذاتوں کے لوگوں سے اسے بچانا اور چھپانا ان کی فطرت میں داخل ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس زمین پر ان کے ملک کے علاوہ کوئی اور ملک نہیں ہے اور ان کے ملک کے علاوہ کسی کے پاس کوئی علم و فن نہیں ہے۔ یہ خام خیالی ان میں اس حد تک گھرکرچکی ہے کہ اگر ان کے سامنے خراسان و ایران سے کسی علم اور اہل علم کا ذکر کیا جائے تو وہ کہنے والے کو احمق ہی نہیں دروغ گو بھی سمجھیں گے۔

عیسائیت کے ظہور سے پہلے یونانی کفار کے بھی وہی عقائد و افکار تھے جو ہندوئوں کے ہیں۔ ان کے طبقہ علماء کا طریقہ فکر بھی ہندو علماء جیسا تھا اور یونانی عوام ہندو عوام کی طرح بت پرستانہ عقائد رکھتے تھے۔ لیکن یونانیوں میں کچھ ایسے حکماء پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی کوششوں سے حقیقت کو عوامی خرافات سے پاک کیا۔ اس سلسلے میں سقراط کا نام قابل ذکر ہے جس نے اپنی قوم کے عوام کی مخالفت کی اور حق پر قائم رہنے کی پاداش میں جان دے دی۔

ہندوئوں میں اس درجے کے حکماء اور مصلحین پیدا نہیں ہوئے جو علوم کی اصلاح و تکمیل کے خواہاں اور اہل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوئوں کے تمام علوم ابہام و انتشار سے پر ہیں۔ ان میں کوئی منطقی ربط و تسلسل نہیں اور ان میں کوئی علم ایسا نہیں جو عوامی خرافات کی آمیزش سے پاک ہو۔‘‘

اس طویل اقتباس کو پڑھ کر سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور قائداعظم جیسے زعماء کی بصیرت کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہے کہ انھوں نے کانگرسی ہندو لیڈروں کے جھوٹے پروپیگنڈے، کہ ہندوستان میںبس ایک قوم یعنی ہندوستانی بستے ہیں، کا پردہ چاک کرتے ہوئے مسلمانوں کو باور کروایا کہ ہندوستان میں ایک قوم نہیں بلکہ دو قومیں، ہندو اور مسلمان بستے ہیں۔ جن کا رہن سہن، کھانا پینا، قومی ہیرو اور مذہبی عقیدہ غرض سب کچھ ایک دوسرے سے متضاد ہے۔ یوں دو قومی نظریئے کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ نیز اس اقتباس سے ہندوئوں کی کو تاہ عقلی، حسد اور ہٹ دھرمی بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ صرف بھارت ہی کو ساری دنیا سمجھتے تھے، شاید اسی لئے آج بھی وہ اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو روبعمل لانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔

البیرونی آگے لکھتے ہیں۔
’’ہندوئوں میں پائے جانے والے طبقات اور ذاتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس معاملے میں ہم میں اور ہندوئوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ہم آپس میں سب کو برابر سمجھتے ہیں اور فضلیت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ یہ اختلاف ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت اور قرب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ہندو اپنے طبقوں اور ذاتوں کو ورن یا رنگ کہتے ہیں اور نسب کی حیثیت جاتکا یا پیدائش۔ ابتداء سے ہی ان طبقوں کی تعداد صرف چار ہے۔

سب سے اونچی ذات برہمنوں کی ہے، جن کے بارے میں ہندوئوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ برہما کے سر سے پیدا ہوئے تھے اور برہما سے مراد وہ قوت ہے جسے فطرت کہتے ہیں۔ سر حیوانی جسم کا سب سے بلند حصہ ہے اس لیے برہمن اس نوع کا جوہر اور منتخب حصہ ہیں اور اسی لیے ہندو ان کو افضل ترین انسان سمجھتے ہیں۔

ان کے بعد کھشری (چھتری یا کھتری) طبقہ ہے۔ ہندوئوں کے خیال کے مطابق ان کی پیدائش برہما کے کندھوں اور ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ ان کا مرتبہ برہمنوں کے مرتبے سے بہت زیادہ کم نہیں ہے۔

ان کے نیچے ویش ہیں جو برہما کی ران سے پیدا ہوئے تھے اور شودر برہما کے پیروں سے پیدا ہوئے تھے۔

دھرم کی رو سے برہمن پر پانچ سبزیاں کھانا حرام ہیں۔ پیاز، لہسن، کدو، گاجر کی مانند پودے کی جڑ جوکرنن؟ کہلاتی ہے اور تالابوں (نالیوں) کے کنارے اگنے والی ایک قسم کی سبزی۔

چھتری وید کو پڑھ اور سیکھ سکتا ہے لیکن اس کی تعلیم نہیں دے سکتا۔ آگ کی قربانی کرسکتا ہے اور پرانوں کے احکام پر عمل کرسکتا ہے۔ وہ جب کھانا کھانے کی ایسی جگہ پر بیٹھے گا جہاں کھانا کھانے کے لیے زمین پر چوکے بنائے جاتے ہیں اور جن کا ذکر ہم ابھی کرچکے ہیں تو اس کے لیے جو چوکا بنایا جائے گا وہ تکونا ہوگا۔ اس کا کام لوگوں پر حکومت کرنا اور ان کا دفاع کرنا ہے اور وہ اسی کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ جب اس کی عمر بارہ سال کی ہو جائے تو اسے ایک یجن پوتیاتیس دھاگوں سے بٹا ہوا اور ایک ایک موٹے دھاگے کا پہننا چاہیے۔

ویش کے فرائض میں کاشت کرنا، مویشی پالنا اور برہمنوں کی ضرورتیں پوری کرنا شامل ہیں۔ اس کے لیے صرف دو دھاگوں کا ایک یجن پوتیا پہننا کافی ہے، شودر کی حیثیت برہمن کے غلام کی ہے۔ اس کو برہمن کے کاموں میں مصروف اور اس کی خدمت کرنا چاہیے۔ اگر افلاس کے باوجود وہ یجن پوتیا کے بغیر نہ رہنا چاہے تو موٹے کپڑے کی ایک پٹی پہن لے۔ ہر وہ کام جو برہمن کے لیے مخصوص ہے مثلاً پوجا کرنا، وید پڑھنا اور آگ کی قربانی دینا، وہ شودر اور ویش کے لیے اس درجہ منع ہے کہ اگر شودر یا ویش کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے وید پڑھا تو برہمن اسے اس الزام میں حاکم کے سامنے پیش کرے گا اور حاکم اس کی زبان کٹوادے گا۔ البتہ خدا کا دھیان، نیک کام اور صدقہ دینا ممنوع نہیں ہے۔ جو شخص ایسا پیشہ کرے جو اس کے طبقے کے لیے جائز نہیں، مثلاً برہمن تجارت کرے یا شودر کھیتی کرے، تو وہ گناہ کا مرتکب ہوگا اور اس گناہ کی حیثیت چوری سے کچھ ہی کم ہے۔

(البیرونی نے یہاں ہندوئوں کی ایک روایت نقل کی ہے کہ رام کے زمانے میں لوگوں کی عمر بہت لمبی ہوتی تھی اور وہ بہت صحت مند ہوتے تھے اور کوئی بچہ اپنے باپ سے پہلے نہیں مرتا تھا۔ اتفاق سے ایک بار برہمن کا بیٹا باپ کے سامنے ہی فوت ہوگیا۔ برہمن اس کو راجا رام کے محل لے گیا اور آہ زاری کرنے لگا۔ رام نے تحقیقات کا حکم دیا۔ ایک دن مخبروں نے اطلاع دی گنگا کے کنارے ایک چنڈال ریاضت کرتا ہے۔ راجا وہاں گئے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک پیڑ سے الٹا لٹکا ہے۔ راجا نے کمان میں تیر جوڑ کر اس کے پیٹ میں مارا۔ تب وہ بولا ’’میں انہیں اس لیے مارتا ہوں کہ مجھے اس کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے جب کہ تمہارے ساتھ ایسا معاملہ نہیں۔‘‘ جب راجا محل میں واپس آئے تو انہوں نے برہمن کے مردہ بیٹے کو زندہ پایا۔

چنڈالوں کے علاوہ وہ سب لوگ جو ہندو نہیں ہیں ملیچھ یعنی ناپاک کہلاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قتل کرتے، ذبح کرتے اور گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔

اولاد ماں کی طرف منسوب ہوتی ہے یعنی جو ماں کی ذات ہے وہی اولاد کی ذات ہو گی۔ مثلاً اگر برہمن کی بیوی بھی برہمن ہے تو اولاد بھی برہمن ہو گی لیکن اگر بیوی شودر ہے تو اولاد بھی شودر ہو گی۔ برہمن اپنی ہی ذات کی عورت سے شادی کرتے ہیں اگرچہ ان کے لئے غٖیرذات شادی کرنا جائز ہے (سوال: کیا شودر مرد بھی برہمن عورت سے شادی کر سکتا ہے ؟)

یہ تمام چیزیں درجات کی کمی بیشی اور ذات کی اونچ نیچ کا نتیجہ ہیں اور ایک طبقے نے دوسرے کو احمق سمجھ رکھا ہے۔ ‘‘

انسانیت کی تذلیل کے اس تصور کے نظارے اکثروبیشتر ہمیںدلتوںکی حالت زار اور ان پر مظالم کی صورت میںآج بھی دکھائی دیتے ہیں۔

ہندوئوں کے عجیب و غریب اطوار اور رسمیں کا ذکر کرتے ہوئے البیرونی بتاتے ہین کہ

’’اب ہم ہندوئوں کے بعض عجیب و غریب اطوار اور رسومات کو بیان کرتے ہیں۔ ہندوئوں کی بہت سی رسمیں ہمارے زمانے میں ہمارے ملک کی رسموں سے اتنی مختلف ہیں کہ وہ ہمیں عجوبہ معلوم ہوتی ہیں اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں نے بالقصد ان کو ایسا بنا دیا ہے کہ کیوں کہ ہمارے طور طریقے ان سے قطعاً میل نہیں کھاتے بلکہ ان کے بالکل برعکس ہیں۔

یہ لوگ بال بالکل نہیں تراشتے۔ ابتدا میں وہ گرمی کی وجہ سے ننگے رہتے تھے اور سر کے بال اس لیے نہیں منڈاتے تھے کہ دماغ پر گرمی کا اثر نہ ہو۔ ڈاڑھی کی حفاظت کے خیال سے وہ اس کی چوٹیاں گوندھ لیتے ہیں۔ وہ اپنے ناخن بڑھنے دیتے ہیں اور کاہلی پر فخر کرتے ہیں کیوں کہ ناخن بڑھا کر محنت کا کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔ ناخنوں کو صرف بالوں کو کھجانے اور جوں پکڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ہندو کھانا گوبر کے دسترخوان پر اکیلے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ جو کھانا بچ جاتا ہے اسے دوبارہ نہیں کھاتے۔ جس برتن میں کھاتے ہیں، اگر وہ مٹی کا ہو تو اسے پھینک دیتے ہیں۔

چونا لگا پان اور چھالیہ چباتے چباتے ان کے دانت لال پڑجاتے ہیں۔ نہار منہ شراب پیتے ہیں اور اس کے بعد کھانا کھاتے ہیں۔ وہ گائے کا پیشاب پیتے ہیں لیکن گائے کا گوشت نہیں کھاتے۔

وہ صافے کو پجامے (دھوتی) کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جو شخص کم سے کم لباس پہننا چاہتا ہے وہ دو انگل کی دھجی پر اکتفا کرتا ہے جسے وہ لنگوٹ کی طرح کس لیتا ہے۔ جو زیادہ پہنتے ہیں، وہ ایسے لہنگے پہنتے ہیں جن میں اتنی روئی ہوتی ہے جو کئی لحافوں کے لیے کافی ہو۔ ان لہنگوں کے چاک نہیں ہوتے اور یہ اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ پائوں نظر نہیں آتے۔ ان لہنگوں کے گھنڈی تکمے پیچھے کی طرف ہوتے ہیں۔ ان کے صدرے بھی پاجاموں کی طرح پیچھ کی طرف سے بند کیے جاتے ہیں۔ ان کی کرتیوں میں دائیں اور بائیں چاک ہوتے ہیں۔

جوتا اس قدر تنگ رکھتے ہیں کہ اس کو پنڈلیوں کی طرف سے قدم کی طرف موڑ کر پہنتے ہیں۔

منہ سے پہلے پائوں دھوتے ہیں اور تہواروں میں خوشبو کی جگہ گوبر ملتے ہیں۔

مرد عورتوں جیسا لباس پہنتے ہیں۔ بنائو سنگھار کا سامان استعمال کرتے ہیں۔ کانوں میں بالیاں، ہاتھوں میں کنگن، انگلیوں میں انگوٹھیاں اور پیروں کے انگوٹھوں میں چھلے پہنتے ہیں۔‘‘

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو قوم اتنا غلیظ رہن سہن رکھتی ہو، اس کی سوچ پاک صاف کیسے ہو سکتی ہے اور یہ بات ہماری نئی نسل کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کہ وہ بھی کانوں میں بالیاں، ہاتھوں میں کنگن، انگلیوں میں انگوٹھیاں پہن کر اور اسے طور طریقے اپنا کرکس کی تقلید کر رہے ہیں ؟

ہندوئوں میں جہالت کے سبب صنفی امتیاز برتنے کی بابت البیرونی کا کہنا ہے کہ

’’بچہ پیدا ہونے پر اس کے باپ کی طرف زیادہ ملتفت ہوتے ہیں، ماں کی طرف کم۔ دو بیٹوں میں چھوٹے بیٹے کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً پورب کے علاقے میں۔‘‘

البیرونی کے مطابق ذرا ان کے معاشرتی آداب ملاحظہ فرمائیں۔

’’ہندو مصافحہ کرتے وقت ہاتھ کو پشت کی طرف سے پکڑتے ہیں، ہتھیلی سے ہتھیلی نہیں ملاتے۔ گھر کے اندر آنے کے لیے اجازت طلب نہیں کرتے لیکن جاتے وقت اجازت لیتے ہیں۔

بزرگوں کا لحاظ کیے بغیر وہ تھوکتے اور ناک صاف کرتے رہتے ہیں اور ان کے سامنے ہی سر سے جوئیں نکال نکال کر مارتے ہیں۔ چھینک آنے کو منحوس سمجھتے ہیں۔

جولاہے کو ناپاک لیکن حجام اور مرے ہوئے جانوروں کو جلا کر یا دریا برد کرکے ٹھکانے لگانے والے کو پاک سمجھتے ہیں۔

مدرسوں میں بچوں کے لکھنے کے لیے سیاہ تختیاں استعمال کراتے ہیں اور ان پر سفید گھرا سے لکھواتے ہیں۔

وہ کتابوں کے نام شروع میں نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں خاتمے پر لکھتے ہیں۔

جب ان کو کوئی چیز دی جاتی ہے تو چاہتے ہیں کہ اس طرح پھینک کر دی جائے جیسے کتے کو پھینک کر دی جاتی ہے۔

جب دو آدمی مزد (چوسر) کھیلتے ہیں تو پانسا تیسرا شخص پھینکتا ہے۔ مست ہاتھی کے پسینے کو جو اس کے دونوں رخساروں پر بہتا ہے۔ خوشبو سمجھ کر بہت پسند کرتے ہیں حالاں کہ وہ سخت بدبودار ہوتا ہے۔‘‘

جزاوسزا کے حوالے سے ہندوئوں کے عقائد بیان کرتے البیرونی نے لکھا ۔

’’ہم نے رشی بھووناکوش کی کتاب میں پڑھا ہے کہ آباد دنیا ہماونت سے جنوب کی طرف پھیلی ہوئی ہے اور اس کا نام بھارت ورش ہے، یہ نام بھارت نامی شخص کے نام پر پڑا ہے جو ان پر حکومت کرتا اور ان کی کفالت کرتا تھا۔ اسی آباد حصے کے رہنے والوں کو آخرت میں عذاب اور ثواب ملے گا۔ یہ آبادی نو حصوں میں منقسم ہے جنہیں ابتدائی نو حصے یا نوکھنڈ پرتم کہتے ہیں۔ ہر دو کھنڈوں کے درمیان سمندر ہے جسے پار کرکے ایک کھنڈ سے دوسرے کھنڈ کو جاتے ہیں۔ آباد دنیا کی شمال سے جنوب کی طرف چوڑائی ایک ہزار یوجن ہے۔

ہماونت سے مصنف کی مراد شمالی پہاڑ ہیں جہاں سردی کی وجہ سے آبادی نہیں ہے۔ چناں چہ تمام آبادی ان پہاڑوں کے جنوب میں ہی ہے۔

یہاں کے باشندوں کے متعلق اس کا یہ کہنا آخرت میں سزا اور جزا صرف انہیں کے لیے ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ دوسرے لوگ حساب کتاب سے مبرا ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ لوگ انسانیت کے مرتبے سے بلند ہوکر فرشتے بن چکے ہیں اور پاک عناصر سے بنے ہوئے اور خدا کی نافرمانی نہ کرنے کے سبب مواخذہ سے بری ہوگئے ہیں یا پھر انسانیت کے درجے سے گر کر بے عقل جانوروں کے زمرے میں آگئے ہیں۔ مصنف کے خیال میں اس آباد حصے یعنی بھارت ورش سے باہر انسان موجود نہیں ہیں۔‘‘

اپنی زبان پر تخافر کا اظہار ہندو یوں کرتے ہیں۔
’’شہروں کے ناموں کا معاملہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر شہر اپنے اصل ناموں سے نہیں جانے جاتے اتپالا کشمیری نے اپنی کتاب ’’سمت‘‘ میں اس صورتحال پر یوں تبصرہ کیا ہے ’’شہروں کے نام بدلتے رہتے ہیں خاص طور پر یگوں میں۔ مثلاً ملتان کا پرانا نام کثیپ پور تھا پھر ہمس پور ہوا، پھر باگ پور، پھر سبھا پور، پھر مول استھان یعنی اصل جگہ کیوں کہ مول کے معنی اصل یا جڑ ہیں اور استھان جگہ کو کہتے ہیں۔ نام اسی طرح تبدیل ہوتے ہیں یعنی یا تو اصل نام کا دوسری زبان میں ترجمہ ہونے کی وجہ سے یا ان کا تلفظ بدل دینے سے جیسے عرب بیرونی ناموں کو معرب کرلیتے ہیں کیوں کہ وہ اس کے اصل تلفظ کو ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ لفظ ’’بوشنگ‘‘ ان کی کتابوں میں، فوسانی اور ’’سکل کنڈ‘‘ فارفز ہوگیا ہے لیکن سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض دفعہ اسی زبان کے بولنے والے اور اسی قوم سے تعلق رکھنے والے بعض الفاظ کو توڑ مروڑ کر ایسا نامانوس بنادیتے ہیں کہ اس سے عجیب عجیب الفاظ پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسا کرنے میں کسی ضابطے یا قاعدے کی پابندی بھی نہیں کرتے اور اس قسم کی تبدیلیاں ہر تھوڑے عرصے کے بعد بغیر کسی جائز سبب کے ہوتی رہتی ہیں۔ ہندئوں میں ان تبدیلیوں اور اضافوں کی وجہ زبان کی وسعت کی طرف ان کا میلان ہے۔ وہ ناموں کی کثرت کو پسند کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔‘‘

عیسائی دور کے کلیسائی نظام کی طرح،ہندوئوں میں بھی سائنس و عقل کی بجائے مذہبی طبقے کی اجارہ داری اور خوف کے بارے میں البیرونی نے کچھ اسے آگاہ کیا کہ

’’کسوف و خسوف کے متعلق جن نظریات کا اظہار ورہ میر نے کیا تھا ان کے اقتباسات ’’سمت‘‘ سے پیش کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ورہ میر چاند گرہن کے بارے میں یہ مانتے تھے کہ یہ اس وقت واقع ہوتا ہے جب چاند زمین کے سائے میں آجاتا ہے اور سورج گرہن اس وقت واقع ہوتا ہے جب چاند اس کو ہماری نظروں سے چھپا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند مغرب سے اور سورج گرہن مشرق سے شروع نہیں ہوتا درہ میر نے گرہن کے متعلق مشہور لیکن غیر سائنسی نظریات کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے ’’عوام نے یہ مشہور کررکھا ہے کہ راس سورج گرہن کا سبب ہے۔ اگر راس ظاہر ہوکر گرہن نہ لگائے تو برہمن اس کو وقت کا جواب غسل نہ کریں۔‘‘

البیرونی نے اس بات پر حیرت ظاہر کی ہے کہ ورہ میر نے اپنی اول الذکر توجیہہ کے بعد جو اس کو ایک عالم ثابت کرتی ہے، ان خیالات کو کیوں پیش کیا۔ شاید اس نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ برہمنوں سے بگاڑنا نہیں چاہتا تھا کیوں کہ وہ خود برہمن تھا اور ان سے ناتا توڑنا نہیں چاہتا تھا۔

البیرونی نے پھر اس بات پر حیرت ظاہر کی ہے کہ برہم گپتا نے جو ان کے منجموں میں سب سے زیادہ ممتاز تھا، ایسے غیر سائنسی نظریات کا اعادہ کیوں کیا ہے۔ برہم گپتا نے ایک لفظ‘ جمہور کی رائے، استعمال کیا ہے۔ اگر جمہور کی رائے کا مطلب ساری آباد دنیا کے لوگوں کی رائے سے ہے تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ساری دنیا کے لوگوں کی رائے معلوم کرنا ناممکن ہے۔میرا اپنا یہ خیال ہے کہ برہم گپت نے جو کچھ کہا ہے اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ کم سنی میں غیر معمولی علم و فضل اور ذکلوت کا حامل ہونے کی وجہ سے سقراط جیسی مصیبت میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اس سے قبل البیرونی یہ کہہ چکا تھا کہ شاید برہم گپتا نے یہ نظریات اس لیے پیش کیے کہ وہ برہمن تھا اور برہمنوں کے بتائے ہوئے نظریات کی تائید کرنا چاہتا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ ان نظریات کے اظہار سے ان کے مبلغین کا مذاق اڑانا چاہتا ہو۔‘‘

اب یہ سوال ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ انھیں کل کے ہندوستان کے ہندوئوں کی نفسیات، ان کے طور طریقوں اور آج کے ہندوستان، خاص طور پر ان کے انتہا پسند لیڈروں کے متکبرانہ روئیے اور اکھنڈ بھارت بنانے کے متعصبانہ ایجنڈے میں کوئی تبدیلی محسوس ہوئی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔