گورنر اسٹیٹ بینک کی سرمایہ کاری میں اضافے کیلیے لابنگ

بزنس رپورٹر  ہفتہ 16 ستمبر 2017
’پاکستان ترجیح‘کی سوچ پرقومی اتفاق کے حامی ہیں،احسان ملک۔ فوٹو: فائل

’پاکستان ترجیح‘کی سوچ پرقومی اتفاق کے حامی ہیں،احسان ملک۔ فوٹو: فائل

کراچی: بینک دولت پاکستان کے گورنر طارق باجوہ نے کہا ہے کہ مالی سال 2016-17 کی دوسری ششماہی کے دوران برآمدات میں بحالی کا جو عمل شروع ہوا تھا رواں مالی سال میں اس کا تسلسل معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ کا ڈیٹا اہم بیرونی اشاریوں خاص طور پر ترسیلات زر، برآمدات اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں بحالی کو ظاہر کرتا ہے، کارکنوں کی ترسیلات زر جولائی تا اگست 2017 کے دوران 13.2 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 3.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور تمام اہم راہداریوں سے رقوم کی آمد جولائی تا اگست 2016 کے مقابلے میں بلند رہی ہے۔

طارق باجوہ نے کہا کہ معاون اقتصادی پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے ملکی معیشت کی کشش بڑھ رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ ایسے سازگار حالات میں کاروباری اداروں کے لیے ترقی اور توسیع کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی بہتر ہوتی صورت حال اور توانائی کی رسدمیں بہتری کی بدولت 2016-17میں مسلسل تیسرے سال معیشت میں توسیع کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے، اس دوران 5.3 فیصد معاشی نمو ہوئی جبکہ گزشتہ برس یہ 4.6 فیصد تھی، یہ معاشی نمو نہ صرف گزشتہ 10 برسوں کی بلند ترین سطح ہے بلکہ وسیع البنیاد بھی ہے، معیشت کے تینوں اہم شعبوں زراعت، صنعت اور خدمات نے اس ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

طارق باجوہ نے کہا کہ سازگار زری پالیسی نے نجی شعبے کے قرضوں کی طلب کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، پالیسی ریٹ اکتوبر 2014کے 10 فیصد سے کم ہو کر صرف 5.75فیصد پر آ گیا ہے، تاریخی لحاظ سے کم شرح سودکا مالی سال 2016- 17کے دوران نجی شعبے کے قرضوں کی نمو کو بڑھا کر 16.8 فیصد کرنے میں کلیدی کردار ہے جو 1سال پہلے کے 11.2 فیصد کے علاوہ ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ مالی سال نجی شعبے کے قرضوں میں مجموعی طور پر 747.9 ارب روپے کی توسیع ہوئی، قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرضوں میں ہونے والی 40 فیصد سے زائد توسیع معین سرمایہ کاری مقاصد کے لیے تھی، رسد کے لحاظ سے ڈپازٹس میں صحت مند اضافے سے بینکاری نظام کی سیالیت کی نمو میں بہتری آ گئی ہے، تازہ ترین اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نجی شعبے میں پائے جانے والے رجحانات مالی سال 2017-18 میں بھی جاری ہیں، نجی شعبے کے قرضے میں یکم جولائی 2017 سے یکم ستمبر 2017 تک 75.5 ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی جو خاصی کم ہے کیونکہ پچھلے سال کے اسی عرصے کے دوران 224.3 ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی جس سے پتا چلتا ہے کہ نجی شعبے نے رواں مالی سال اب تک زیادہ قرضہ لیا ہے، 2016-17 میں مشینری گروپ کی درآمد میں 40 فیصد کا بھرپور اضافہ آئندہ نمو کے لیے نیک شگون ہے۔

طارق باجوہ نے کہا کہ پاکستان کی زرعی پیداواریت کم ہے اور اسٹیٹ بینک اسے بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے، اس سلسلے میں ایک پہلو قرضے کی دستیابی ہے، حکومت نے 1001 ملین روپے کے زرعی قرضے جاری کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن یہ بڑا ہدف تھا، اگرچہ گزشتہ سال کا ہدف بڑی حد تک پورا کیا گیا تاہم قرضہ لینے والوں کی تعداد درحقیقت کم ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ رقم پراسیسنگ میں تو جا رہی ہے اس سے پیداوار نہیں بڑھ رہی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کی خاص توجہ اب کیڑے مار ادویہ اور کھاد کی دستیابی پر ہے، اسٹیٹ بینک زرعی توسیعی خدمات کے لیے نجی شعبے سے بھی رابطہ کر رہا ہے تاکہ پیداواریت بڑھائی جائے۔

گورنر کی تقریر سے پہلے پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر احسان ملک نے کونسل کے ارکان کی جانب سے تعاون پر گفتگو کی، کونسل میں 12 ملکوں سے تعلق رکھنے والی 24 بڑی کثیر ملکی کارپوریشنزشامل ہیں۔ انہوں نے شرکا کو بتایا کہ رکن کمپنیوں کی لسٹڈ مارکیٹ ویلیو 8.4 ٹریلین روپے تک جا پہنچی ہے اور یہ کمپنیاں پاکستان کی جی ڈی پی، برآمدات اور ٹیکس میں اپنا حصہ ڈالنے کے ساتھ 4لاکھ براہ راست ملازمتیں اور20لاکھ بالواسطہ ملازمتیں بھی فراہم کر رہی ہیں۔

احسان ملک نے زور دیا کہ پاکستان بزنس کونسل ’’پاکستان کو ترجیح‘‘ دینے کی سوچ پر قومی اتفاق رائے کی حامی ہے، اس کے رکن ادارے اشیا سازی اور خدمات کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ وفد نے گورنر کو کاروباری طبقے کے مسائل سے آگاہ کیا۔ گورنر نے ان مسائل کو بغور سنا اور ان کے بروقت حل کا یقین دلایا۔آخر میں گورنر اسٹیٹ بینک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ملک میں معاشی صورتحال بدستور سازگار ہے اور کاروباری اداروں کیلیے منفرد موقع ہے کہ وہ اپنا کاروبار میں وسعت لائیں اور ملک کے بہترین مفاد میں اس کی خدمت کے لیے ایک فعال عامل کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔