پاکستان امریکا تعلقات کا غیر یقینی مستقبل

شاہد سردار  اتوار 17 ستمبر 2017

پاکستان کی مجموعی تاریخ اور اس حوالے سے امریکی رویے کو اگر جانچا جائے تو دونوں کے تعلقات ہمیں ’’روایتی ساس بہو‘‘ کے سے نظر آئیںگے۔ جس طرح بہو ہر اچھا کام کرکے بھی ساس کی نظروں میں معتوب ٹھہرتی ہے اسی طرح امریکا بھی پاکستان کے ہر مثالی کام میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور نکالتا ہے اور یہ سب عرصہ دراز سے ہوتا چلا آرہا ہے۔

ویسے بھی جہاں پھل فروشوں کا بائیکاٹ اور وطن فروشوں کے حوالے سے لمبی چپ ہو، جہاں کی گلیاں اور محلے پاناموں سے بھری پڑی ہوں، جہاں پولیو کے قطرے بل گیٹس فاؤنڈیشن بھجوائے، ٹی بی کے خاتمے کے لیے رقم گلوبل فنڈ سے آئے، تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے یو ایس ایڈ کا پیسہ لگے، پینے کا پانی لوگوں تک خیراتی تنظیمیں پہنچائیں، غربت کا خاتمہ یو این ڈی پی، صحت کی سہولتیں ڈبلو ایچ اور کوڑا کرکٹ اٹھانا ترکش کمپنی کے ذمے ہو، جہاں سی پیک گوادر کی ذمے داری چین پر ہو جب کہ بھارت، افغانستان، ایران اور سعودی عرب کے معاملات ’’کسی اور کو‘‘ دیکھنے پڑیں اور جہاں حکومت مدت ایسے پوری کررہی ہو جیسے کوئی بیوہ عورت عدت مکمل کررہی ہو، وہاں ہمارے سیاست دان اور حکمران بڑھکیں نہ ماریں تو کیا کریں؟

گو موجودہ امریکی صدر لاف زنی میں اپنی مثال آپ ہیں اور ان کا حالیہ پاکستان کے بارے میں بیان اور رویہ کسی بھی طرح ایک سربراہ ریاست سے میل نہیں کھاتا لیکن پھر بھی امریکی صدر کے الزامات نے پاکستانی قوم کی غیرت ضرور جگادی ہے۔ ویسے بھی اب امریکی امداد پر پاکستان کا انحصار نہیں رہا۔

پچھلے 16 برس میں امریکا نے پاکستان کو 28 ارب ڈالرز دیے جب کہ اس عرصے میں پاکستان کو 130 ارب ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے سیاست دانوں، حکمرانوں، جرنیلوں اور بیوروکریسی کے امریکا سے مفادات وابستہ ہیں، ایسے میں وہ کس طرح ان کے خلاف اٹھ سکتے ہیں۔ حالانکہ قوم اٹھنے کے لیے تیار ہے لیکن اسے ایک غیور اور غیرت مند لیڈرکا انتظار ہے۔

افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی امریکی پالیسی کو سولہ سال سے خود اپنی شروع کردہ جنگ میں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کو حقائق کا منہ چڑانے کی کوشش کہنا غلط نہ ہوگا۔ حقائق یہ ہیں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ناکافی ثبوت و شواہد کے باوجود افغانستان میں بعجلت تمام شروع کی گئی اس مہم جوئی میں تعاون کے باعث جس میں خود امریکا ہی نے پاکستان کو دھکیلا تھا سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پاکستان نے ہی اٹھایا ہے۔

امریکی صدر پاکستان کو دیے جانے والے جن اربوں ڈالر کا احسان جتا رہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ مالی نقصان افغانستان میں امریکا کی شروع کردہ جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے ملک کے اندر بد امنی، خون ریزی اور دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے جب کہ پاک فوج اور شہریوں کا جانی نقصان ستر ہزار سے متجاوز ہے۔

اب جب کہ بھارت کے سازشی منصوبے بھی جن کے یقینی ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے ذریعے سامنے آچکے ہیں۔ امریکی صدر کی نگاہ میں چنداں قابل اعتراض نہیں۔ جوہری اسلحہ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والی بھارتی آبدوزکا گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنا، وزیراعظم مودی کا برملا سی پیک کو بھارت کے لیے ناقابل قبول قرار دینا اور اسے روکنے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی کو بھاری وسائل فراہم کرنا، افغانستان میں درجنوں بھارتی قونصل خانوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے تربیتی مراکزکا کردار ادا کرنا، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دینا، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا برسوں سے جاری رہنا، جنگی ہتھیاروں کے انبار لگاکر خطے میں اسلحے کی دوڑ کا جاری رکھنا، لائن آف کنٹرول پر آئے دن فائرنگ کرکے مسلسل جنگ جیسی حالت کا قائم رکھنا ان میں سے کوئی چیز بھی صدر ٹرمپ کے خطاب میں بھارتی قیادت کو کسی معمولی سی تنبیہ پر بھی مجبور نہیں کرسکی بلکہ وہ ہر طرح سے بھارت کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے عبوری رد عمل میں بالکل درست کہا ہے کہ امریکا کو بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دینا اور افغانستان میں امن کے لیے سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ چینی حکومت نے بھی دو ٹوک الفاظ میں عالمی برادری سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اسی طرح روس نے بھی نئی افغان امریکی پالیسی پر اپنا منفی رد عمل ظاہر کیا ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ امریکی صدر ٹرمپ کا بیان امریکی پالیسی کا تسلسل ہے، اسے سنجیدہ لینا چاہیے، امریکا اور پاکستان کے تعلقات صرف اسی وقت خوشگوار رہے کہ جب امریکا کو پاکستان کے ضرورت تھی اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ امریکی فوج کی یہ روایت رہی کہ وہ جس ملک میں ایک مرتبہ آجاتی ہے پھر وہاں سے واپس نہیں جاتی۔ ہمارے وقت کے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کو طوالت کے لیے امریکا کے آگے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ بالخصوص پاکستان نے نائن الیون کے بعد جس میں اس کا کوئی شہری ملوث نہیں تھا اپنے ایئر پورٹس امریکا کو دیے۔ فضائی حدود امریکی طیاروں کے لیے کھول دیں۔

امریکی جاسوسوں کو کھلی چھٹی دی کہ ملک میں جہاں چاہیں گھومیں پھریں جو چاہے کریں، ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری، رہائی اور اس کی کتاب کے چشم کشا حقائق ہماری قومی لاچاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈرون حملوں کی اجازت، سلالہ حملہ، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی اور عافیہ صدیقی کا مسئلہ یہ سب کا سب ہماری قومی حمیت کے المیے ہی قرار دیے جاسکتے ہیں۔

وطن عزیز کا یہ بڑا دلخراش پہلو ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی بہت کمزور اور متنازعہ رہی ہے اور گزشتہ چار برسوں سے تو ہماری خارجہ پالیسی بالکل ساکت اور جامد نظر آتی ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ خارجہ پالیسی ہمیشہ قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جاتی ہے جب کہ ہم بعض اوقات ذاتی روابط کے تحت خارجہ پالیسی بناتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ اب ہماری خارجہ پالیسی کو موثر اور مربوط بنایا جائے اور ایک قوم پرست قیادت کو ہر صورت سامنے یا آگے لایا جائے جو پاکستان امریکا سے تعلقات کے حوالے سے حقائق کی روشنی میں نئی حکمت عملی وضع کرے۔ امریکا نے اگر خطے میں بھارت کے تمام جرائم کے باوجود اس کے ساتھ نتھی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پاکستان کو بھی نئے افق تلاش کرنے چاہیئیں۔ چین، روس، ترکی، ایران اور شنگھائی تعاون تنظیم سی پیک میں شمولیت کے خواہش مند درجنوں ممالک سے قریبی تعلقات پاکستان کی نئی پالیسی کے لیے مستحکم بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔

یہ ایک مسلم امر ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا مستقبل تو ہمیشہ سے غیر یقینی تھا اور آئندہ بھی رہے گا یہی حقیقت ہے لیکن اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ پاکستان کو مضبوط بنانا امریکا کے فائدے میں ہمیشہ رہے گا۔ اور یہ بھی غلط نہیں کہ سبھی امریکی (ارباب اختیار) بڑے ہوتے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں اچھے امریکیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے ہوںگے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا انداز حکمرانی یا ان کا جارحانہ رویہ اپنی جگہ۔ لیکن امریکا کے ساتھ دوستی یا اس کی جانب جھکاؤ کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے قومی مفادات کا سودا کیا جائے، قومی مفادات کا سودا کیے بغیر بھی تو کسی ملک سے اچھے سفارتی تعلقات قائم رکھے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔