فاٹا

جاوید قاضی  اتوار 17 ستمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بالآخر ہم فاٹا کو ریفارم کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی دینے پر رضامند ہو ہی گئے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر جیسے شاید کوئی گرہن ہو جس کی پاداش میں ہم جیسے نہ ڈوبتے تھے نہ تیرتے تھے، پھر یوں ہمیں فیض یاد آئے۔

ہے جاں کے زیاں کی ہمیں بھی تشویش مگر کیا کیجے
ہر راہ ادھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کے جاتی ہے

آج کا فاٹا کسی زمانے میں خراساں ریاست کا حصہ تھا اور خراساں، ایران کا حصہ رہا۔ ہم قبل مسیح کے ادوار اگر دیکھیں تو سلسلہ ان خانقاہوں پر وادی مہران کی گزرگاہوں پر جو حملے کیے گئے اس کی پہلی روایت قوم آریہ سے ملتی ہے، پھر یونانی آئے، پھر تاتاری قوم، اس کے بعد مغل حکمراں اور پھر افغان وغیرہ وغیرہ۔ وہ سب ان ہی راستوں سے آئے جو آج کے فاٹا سے گزرتے ہیں۔ وہ سب جابر تھے اور قابض ہونا ان کی روایت۔ لشکر بنانا، شمشیر کے زور پر گھوڑے یوں دوڑانا کہ وادی مہران کے سندھو کی آواز ماند سی پڑ جاتی تھی۔

کہتے ہیں جب سکندراعظم نے اس دریا کی روانی دیکھی کہ کہیں سے کوئی سِرا ملے کہ اس دریا کو سر کیا جائے، ایسا ممکن نہ تھا۔ یونانی مورخ سندھو کو سمندر رقم کرنے لگے، یونانی زبان میں سندھو کو ’’انڈوز‘‘ (INDOS) کہا جاتا تھا۔ اس طرح سندھو کا نام (INDOS) سے (INDUS) میں تبدیل ہوا۔ ہند، سندھ خود یونانی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں۔ ہر حملہ آور پر سندھو کا ڈر کچھ اس طرح بیٹھ گیا تھا کہ اس دریا کی سمندر جیسی گہرائی کو دیکھ کر حملہ کرنے سے دریغ کرنے لگے۔

چنگیز خان بھی حملے کی نیت سے بغداد تک پہنچے تو وادی مہران کی طرف جانے سے اجتناب کیا اور دلی کی خیر ہوئی، اور سکندراعظم بھی سندھ کی سرزمین کو فتح کرنے کا خواب اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ سندھو، وادی مہران کے لیے ایک حفاظتی ڈھال تھا۔ لیکن یہ حملہ آور کب ٹھہرتے تھے، پانی پت کا میدان مارتے ہوئے دلی پر راج کرتے تھے یا پھر شاید بعد کے دور میں سندھو کی تیزی اور روانی میں کمی آئی کہ اس کو پار کرنا کچھ آسان ٹھہرا۔

خراساں کے جزیرے سے نادر شاہ دلی کے تخت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ دلی پر محمد شاہ رنگیلا کا راج تھا۔ کہتے ہیں کہ محمد شاہ رنگیلا نے جب نادر شاہ کی حد نگاہ تک پھیلی ہوئی فوج کو پانی پت کے میدان میں دیکھا تو محاذ آرائی سے پہلے ہی اپنی ہار کا عندیہ دے دیا اور دلی کا راج نادر شاہ کے سپرد کردیا۔ حملہ آوروں میں سے نادر شاہ کے حملے کی روایات کچھ محمود غزنوی کی طرح تھیں۔ ’’لوٹو اور لوٹ چلو‘‘ مگر نادر شاہ نے جو قتل و غارت کی روایت دلی میں روا رکھی تاریخ میں شاید اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

1740 سے دلی کی شان و شوکت ماند پڑگئی، ہر طرف بغاوتوں کا سلسلہ رہا اور غاصبوں کی نظر رہی اور یوں جنگ پلاسی 1757 کے بعد سمندر پار فرنگیوں نے دلی کے راج میں اپنی داغیں ڈالنا شروع کیں۔ کلکتہ سے جو چلے، مدراس میں ٹیپو سلطان کو شکست دیتے ہوئے 1857 میں ان فرنگیوں نے بالآخر دلی کی حکومت پر اپنے سکے جمائے۔ جب کہ 1840 سے ان انگریزوں نے سندھ کے ساحلوں سے کابل تک پہنچ کر اپنا راج قائم کرنے کی کوشش کی مگر انھیں شکست ہوئی۔

آخرکار 1893 افغان حکومت اور برٹش انڈیا کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ جہاں تک راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی وہاں تک برٹش حکومت کی سرحدیں ہوں گی اور یوں افغانستان اور برٹش ہندوستان کے درمیان ایک بفرزون بنا۔ یہ وہ ہی علاقہ ہے جو ہماری سرحدوں کے اندر آج ’’فاٹا‘‘ کہلاتا ہے۔ یہاں کے مکین قبائلی طرز کے تھے۔ ’’جرگہ‘‘ ان کی روایت تھی، انگریز کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ان لوگوں کو اپنی طرز پر رہنے کے لیے چھوڑ دیا۔ باقی تمام ہندوستان گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت تھا اور فاٹا کے لیے “FRONTIER CRIME کے نام سے ایک قانون بنایا گیا، جس میں جرگہ سسٹم کے تحت قانون چلتا تھا۔

1947 میں جب پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا تب فاٹا کو (FCR) کے قانون کے تحت ہی چلایا گیا۔ اور پاکستان کو Goverment of India act کے تحت، پھر Goverment of India act سے ہم بالآخر آگے نکل کر 1958 کا آئین، پھر 1962 کا آئین، 1971 کا سانحہ، اور یوں چوٹ کھا  کر بالآخر 1973 میں آئین کو ایک بھرپور شکل دے سکے۔ آمریت نے  بعد میں بھی کئی دفعہ اس آئین کی شکل بگاڑی، مگر ختم نہ ہوا اور یوں لاج رکھی۔ لیکن فاٹا کو ہم سوا سو سال پرانے FCR کے تحت چلاتے رہے۔

جناح نے جب پاکستان بنایا تو فاٹا کے قبائلی عمائدین نے جناح سے درخواست کی کہ ان کے قانون اور قبائلی رسم و رواج کو ویسے ہی پرانی طرز پر رکھا جائے اور جناح نے اس بات کو قبول کیا مگر وقتی طور پر۔ 1948 کی جنگ میں میرے والد بھی کشمیر گئے تھے، کشمیر کی جنگ وزیرستان اور فاٹا کے مجاہدین کے بغیر جیتنا ممکن نہ تھی۔ میرے والد اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ جس اسکول کے کیمپ میں وہ مجاہدین کے ساتھ ٹھہرے انھوں نے اس اسکول کی کیمسٹری لیبارٹری کی ساری بوتلیں اور شیشے توڑ دیے۔

میرے والد علامہ مشرقی کے شاگرد اور علامہ آئی آئی قاضی کے روحانی بیٹے تھے، جو مذہبی عالم تو تھے مگر وہ آکسفورڈ کیمبرج کے پڑھے ہوئے تھے۔ وہ سوچ میں ڈوب گئے کہ کبھی کسی تعلیم یا درس کا ذکر ان کے استادوں نے تو کبھی نہ کیا کہ جس میں سیکولر (دنیاوی) تعلیم کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہو۔ میرے والد نے ان مجاہدین کا ساتھ صرف راولا کوٹ تک دیا۔ جب انھوں  نے دیکھا کہ ان مجاہدین نے ایک اقلیتی پاکستانی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور لوٹ کھسوٹ کی، اور وہیں سے انھوں نے اپنی واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ ان کا تعلق خاکساری تحریک سے تھا۔ ان کا یہ موقف تھا کہ اس طرح کے اسلام کی تشریح اور جہاد کے معنی میرے بڑوں نے مجھے کبھی نہ بتائے۔

ہماری مجبوری یہ تھی کہ ہم سرد جنگ میں ایک کیمپ کا ہر اول دستہ بن گئے اور فاٹا کی ڈیورنڈ لائن وہ لکیر تھی جہاں سے سرد جنگ کا دوسرا کیمپ یعنی سوویت یونین شروع ہوتا تھا۔ بیچ میں صرف افغانستان تھا، جو ان کے زیر اثر تھا اور ہم امریکا کے۔ہمیں کشمیر، برٹش ایمپائر سے “UNFINISHED AGENDA”  کے طور پر ملا۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، ہمارے لیے مسلمان ہونا اولین پہچان بنی اور ان کے لیے ہندو ہونا، لیکن ان کے پاس فاٹا نہ تھا۔

“PROXY WARS” کا زمانہ شروع ہوا۔ ہمیں مجاہدین سستے داموں ملتے تھے اور انھیں مقامی قوم پرست۔ وہ کابل میں ان کی نشست لگواتے تھے اور یوں یہ مقامی قوم پرست اور سورخے، پاکستان جس کی ریاستی پہچان دو قومی نظریہ، قرارداد مقاصد تھا، اب ترخان و افغانی غاصبوں کو اپنا قومی ہیرو تصور کرنے لگے۔ ایک سرد جنگ تھی اور دوسری طرف ہماری داخلی صورتحال یہ تھی کہ جمہوریت کو بچانے کی جنگ تھی۔ اس طرح پاکستان ادارے نہ  بنا سکا۔

نیشنل سیکیورٹی و نیشنل انٹرسٹ جیسی پالیسیز چند افراد کے ہاتھ میں آگئیں۔ امریکا نے اپنی سرد جنگ کے مفادات کی خاطر، پاکستان کے اندر جمہوریت سے ٹکراؤ میں ان چند افراد سے ہاتھ ملا لیے۔ یہ سرد جنگ یوں کہیے کہ فاٹا اور “FCR” کے لیے جیسے ایندھن ہو اور مسئلہ کشمیر بھی۔ اس طرح علاقہ غیر میں بندوقوں، کلاشنکوف، اغوا اور مجاہدین کلچر کو فروغ ملا۔افغانستان میں سوویت یونین کی Entry ہوئی، اور پاکستان میں آمریت کی۔ اب ان مجاہدین کی ضرورت صرف پاکستان کو نہیں بلکہ دنیا کو بھی تھی۔

سرد جنگ اپنے عروج کو پہنچی، دنیا بھر کے مجاہدین فاٹا میں پہنچے، مسلم افغانستان کو، کافر سوویت یونین سے آزاد کروانے کے لیے۔ یہی تھا اس جنگ کا NARRATIVE  اور اس NARRATIVE کو امریکا نے سرد جنگ کی آڑ میں خوب بیچا۔ ان غیر ملکی مجاہدین میں اسامہ بن لادن بھی پاکستان آئے۔ مجاہدین کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور ڈالر آئے۔ ان میں سے کچھ مجاہدین سچے بھی تھے اور کچھ کچے بھی۔ جیسا کہ فاٹا پر FCR ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے آئین و قانون کے اطلاق سے بری ہیں، نہ وہ ہمارے شہر کے تھے، نہ ان کے بنیادی حقوق تھے یعنی کہ FCR جس کے بنیادی معنی لاقانونیت تھی، وہ اک Balck hole بن گیا۔

فاٹا تھا تو ہمارا ہی حصہ، جب افغانستان میں ملا عمر آئے تو معاملات اور زیادہ بگڑ گئے اور فاٹا میں ملا عمر کا سکہ چلنے لگا۔ سعودی عرب سے بہت زیادہ ایڈ ملی، پاکستان کے مدرسوں کے تمام روحانی پیشوا فاٹا میں رہتے تھے، ہماری نیشنل سیکیورٹی کی پالیسی مبہم رہی۔ ہندوستان افغانستان میں داخل ہوگیا اور ہندوستان نے ان مجاہدین سے تعلقات بڑھانے شروع کیے جو پاکستان سے ناراض تھے۔

پاکستان امریکا کا اتحادی تھا، ملا عمر کی مخالفت میں۔ اور دوسری طرف Black hole کچھ اس طرح بنا کہ ملا عمر کے بغیر جو افغانستان تھا، وہ ہندوستان کا اتحادی بنا۔ وہ ہی NARRATIVE جو ہم نے بنایا تھا کہ سوویت یونین کافر ہے، اسامہ بن لادن نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اسی NARRATIVE کو ایک نیا رخ دیا کہ ’’امریکا کافر ہے‘‘۔ اس طرح جو مدرسہ اور جہادی انفرااسٹرکچر ہم نے بنایا، وہ ہمارے ہی گلے میں پڑگیا۔

یہاں SILVER LINNING یہ تھی کہ ہم کتنے بھی بگڑ چکے تھے، جناح کی تعلیمات کو خدا حافظ کہہ چکے تھے مگر BANANA STATE نہیںبنے تھے اور اس طرح ضرب عضب اور ضرِب ردالفساد اور اب فاٹا ریفارمز یہ سب کچھ اسی پس منظر کا حصہ ہیں۔ اور یہاں مان لیجیے کہ یہ جرأت سول قیادت کے بس کی بات نہیں ہے۔

آج یہ کام سول قیادت کر تو رہی ہے، یہ بل ’’رواج‘‘ کے نام سے ایوان زیریں میں بھی پیش ہوچکا ہے، مگر NIP کے نام سے جو کمیشن بنایا گیا اس میں سول و فوجی قیادت ایک ساتھ ہوگی اور فاٹا نہ صرف KPK کا حصہ بنایا جائے گا بلکہ پاکستان کے آئین کے تحت وہ تمام حقوق دیے جائیں گے جو ایک عام شہری کو میسر ہیں۔ فاٹا ریفارمز کے لیے110 ارب روپے کا فنڈ بھی مختص کیا گیا ہے۔ یہ بحث بہت طویل ہے اس کا اختتام فی الحال ہم یہیں پر کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔