کیا واقعی ’’صفائی نصف ایمان ہے؟‘‘

رئیس فاطمہ  اتوار 17 ستمبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ یہ کہہ کر آدھا ایمان تو یوں ہی آپ کی جھولی میں ڈال دیا گیا، باقی رہا آدھا ایمان وہ ہمارے اعمال پر مبنی ہے لیکن اس وقت میرا موضوع اول الذکر والا ایمان ہے۔ ہم سب نے دیکھا ہے اور دیکھتے رہتے ہیں کہ جس دیوار پر ’’صفائی نصف ایمان‘‘ لکھا ہوتا ہے عین اس کے نیچے اور آس پاس سب سے زیادہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں خاص کر عید قرباں کے بعد جو شہر کی حالت ہوتی ہے وہ کسی مہذب معاشرے کی تصویر ہرگز نہیں ہے۔ گلی محلوں میں، سڑک کے کنارے، گٹر کے پاس، فٹ پاتھوں پہ جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کی آلائشیں وہیں سڑک پر پھینک دی جاتی ہیں۔

قربانی کے بعد مہینوں سڑے ہوئے گوشت اور خون کا تعفن اٹھتا رہتا ہے۔ کوئی اخلاق نہیں، کوئی قانون نہیں۔ اندھا قانون ہے جس کا جی چاہا شامیانہ اور قنات لگا کر گلی دونوں طرف سے بند کرلی۔ لوگوں نے ان شامیانوں میں جانور باندھ دیے۔ جانوروں کی غلاظت اور چارہ دونوں نے مل کر گندگی پھیلائی لیکن آپ احتجاج نہیں کرسکتے۔ گلیوں کو بند کرنے پرکسی کو روک نہیں سکتے کیونکہ مذہب کے نام پر ہر زیادتی اور ہر غلط بات جائز بنادی جاتی ہے۔

یہ کیسا تہوار ہے جو اپنے بعد تعفن اور بدبو کے بھبکے دے کر جاتا ہے۔ قربانی تین دن کی ہوتی ہے لیکن سڑکیں اور گلیاں، بازار، محلے کئی کئی ماہ تک کراہت کے نظارے پیش کرتے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہتی ہے۔دوسرے اسلامی ممالک بھی ہیں جہاں گھر میں قربانی کا جانور ذبح نہیں کیا جاتا۔

دیگر ممالک میں بھی جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں وہاں جانور کو سلاٹر ہاؤس میں صاف ستھرے طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے اور اس کا گوشت پیک کرکے دے دیا جاتا ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں گندگی سے لبریز سڑکوں کے کنارے جانور ذبح کیا جاتا ہے، وہیں چٹائی بچھا کر قصاب گوشت بناتا ہے، وہیں آلائش پڑی ہوتی ہے۔ جراثیم سے لبریز گوشت گھروں کے فریج اور ڈیپ فریزر میں مہینوں پڑا رہتا ہے۔ خاص کر ایک ماہ بعد محرم میں حلیم اسی قربانی کے گوشت کا بنایا جاتا ہے۔

دراصل ہماری قوم میں نمود و نمائش کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ خاں صاحب اگر بکرا لائے ہیں تو ہم گائے لائینگے۔ دکھاوے اور نمود و نمائش کے جذبے کی تسکین سے بیوپاری فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا اس قربانی سے اﷲ کو خوش کیا جاسکتا ہے؟ خدا کو نہ جانور کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون۔ وہ تو آپ کی نیت دیکھتا ہے اور نیتوں کا حال یا خدا جانتا ہے یا خود قربانی کرنیوالا۔ کئی کئی دن تک جانور کے گلے میں ہار پھول اور گھنٹیاں ڈال کر ٹہلایا جاتا ہے۔

بعض نامی گرامی سرمایہ دار باقاعدہ شامیانہ لگا کر گائے، بیل، دنبوں اور بکروں کی نمائش کرتے ہیں پھر ان جانوروں کی تصاویر اخبار میں شایع ہوتی ہیں، باقاعدہ کیپشن کے ساتھ کہ یہ بیل فلاں شخصیت کا ہے اور لوگ بچوں سمیت جانور کو دیکھنے آرہے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ میں ’’بعد از مرگ واویلا‘‘ والی بات کر رہی ہوں لیکن میں خود کو صحیح سمجھتی ہوں اور میری طرح اور بھی بہت سے لوگ مجھ سے اس بات پہ متفق ہوں گے کہ یہ سارے مسائل جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے قربانی کے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔

اس دفعہ بارشوں نے بدبو، سڑاند اور غلاظت میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اگلے سال بھی عید قرباں آئیگی۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہماری حکومت اس جانب توجہ دے۔ سارا سال ہمارے علمائے کرام، سیاستدان اور وزیر مسلسل ٹیلی ویژن پہ بحث و مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض تو ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں لیکن ان علمائے کرام اور وزرا میں سے کبھی کسی کو خیال آیا کہ آیندہ سال ہم اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو پابند کرے کہ قربانی کے جانور ذبح کرنے کے لیے سلاٹر ہاؤس مختلف علاقوں میں بنائے جائیں۔

ہماری شتر بے مہار قوم سے یہ امید نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ خود آیندہ سال آلائشوں کو فٹ پاتھوں اور سڑکوں پہ نہیں پھینکے گی۔ قربانی ایک مذہبی فریضے سے زیادہ ’’دکھاوا کلچر‘‘ لگتا ہے۔ اگر وزارت مذہبی امور چاہے تو دو تین سال میں اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ آیندہ سال کے لیے حکومت لوگوں پر پابندی لگا دے کہ کوئی بھی عید قرباں کے موقعے پر گلیاں اور سڑکیں بند نہیں کریگا۔ جہاں بھی ایسی صورتحال نظر آئے جس سے غلاظت کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے مسائل بھی سامنے آرہے ہوں انھیں ختم کیا جائے اور شامیانے لگانے والوں کو کڑی سزا دی جائے۔

آئندہ سال کے لیے مختلف علاقوں میں کھلے میدانوں میں عارضی سلاٹر ہاؤس حکومت کی طرف سے بنائے جائیں، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے یہ کام کرنا آسان ہوگا۔ عارضی باڑے بھی شہر سے باہر بنائے جائیں۔ پرائیویٹ پارٹیوں کی شراکت سے ایک تو یہ فائدہ ہو گا کہ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ دوسرے جانور کو براہ راست باڑے سے سلاٹر ہاؤس لانے اور ذبح کروانے کی ذمے داری پرائیویٹ پارٹیوں کو معقول فیس کے عوض سونپ دی جائے۔ آلائشیں بھی سلاٹر ہاؤس ہی میں تلف کی جائیں اور جو لوگ قربانی کر رہے ہیں ان سے معقول معاوضہ وصول کر کے صاف ستھرے طریقے سے گوشت مہیا کردیا جائے۔

دراصل ہم بحیثیت مجموعی بہت بڑے منافق ہیں ایک طرف حدیثوں کا حوالہ دیں گے، قرآنی آیات پڑھ کر ترجمہ بتائیں گے، جگہ جگہ دیواروں پر ’’صفائی نصف ایمان‘‘ لکھوائیں گے، لیکن عملاً دوسروں کو تکلیف دیں گے۔ جانوروں کو لاکر گلیوں میں باندھیں گے۔

اونٹ، بیل، گائے، دنبے اور بکرے سب گلیوں میں موجود۔ ذرا یہ احساس نہیں کہ راہگیروں کو کتنی تکلیف ہو رہی ہے۔ راستے سے پتھر ہٹا دینا بھی صدقہ جاریہ ہے لیکن ہم یہ باتیں صرف زبانی کلامی، ٹی وی پر علما سے سنتے ضرور ہیں لیکن کبھی علمائے کرام میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ عید قرباں کا تہوار غلاظت اور آلائشوں کا تہوار بنتا جا رہا ہے۔ آخر کیوں کسی مذہبی ادارے کو صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو اس بات کا خیال تک نہیں آیا کہ دوسرے اسلامی ممالک مثلاً دبئی اور سعودی عرب سے کچھ سیکھیں۔ ان کے نظام قربانی کا جائزہ لیں۔ اپنے ہاں ٹیمیں بنائیں ان سے مدد لیں اور عید قرباں کو صاف ستھرا مذہبی تہوار بنائیں۔

ہماری حکومت کے کیا کہنے، ایٹم بم بنانے پر کروڑوں خرچ کرسکتے ہیں پھر اس کی حفاظت پر خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں، اور کرتے رہیں گے لیکن نہ شہروں اور قصبوں میں سلاٹر ہاؤس بنیں گے نہ آلائشیں اٹھانے کا معقول انتظام ہوگا۔ رمضان میں معدے کی بیماریاں عام ہیں، عیدالفطر پہ بھی صرف کھانے پینے کا اہتمام اور بعد میں ڈاکٹروں کے کلینک کی طرف دوڑ۔ سب سے بڑھ کر عید قرباں جس میں بیماریوں کو خود گھر لاکر فریج اور ڈیپ فریزر میں بند کرتے ہیں پھر یہ جراثیم بھرا گوشت مہینوں کھاتے ہیں اور جگہ جگہ جلی حروف میں لکھا دیکھتے ہیں ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ کیا واقعی یہ سچ ہے اور یہ کہ اس پر کتنے لوگ عمل کرتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔