ورلڈ الیون کا دورہ ٔ پاکستان، اعتماد کی بحالی کے طویل سفر کا شاندار آغاز

عباس رضا  اتوار 17 ستمبر 2017
انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر خوش آئند ہے لیکن جلد بازی میں ابھی بڑی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ فوٹو : پی سی بی

انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر خوش آئند ہے لیکن جلد بازی میں ابھی بڑی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ فوٹو : پی سی بی

ورلڈ الیون کے خلاف آزادی کپ سیریز کے دوران میڈیکل اسٹور کے کاؤنٹرپر بیٹھے ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی، کوریج کے لیے جارہا تھا، پی سی بی کا کارڈ سینے پر آویزاں دیکھ کر پوچھنے لگے، بیٹا میچ کی کوریج کے لیے جارہے ہو، تمہیں ایک چیز دکھاؤں؟  ہ کہہ کر ایک پرانا بریف کیس اٹھا لائے، اس میں سے ایک تصویر نکالی جس میں وہ جوانی کے دورمیں رچی رچرڈسن کے ساتھ کھڑے تھے، میں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سابق ویسٹ انڈین کرکٹرتو آئی سی سی میچ ریفری کے طور پر ذمہ داریاں نبھانے کے لیے لاہور میں موجود ہیں۔

اس پر بزرگ نے اپنا تجربہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ چل رہا تھا،میں دوا ساز کمپنی میں بطور سیل مین ملازم تھا،ہماری ڈیوٹی لگائی گئی کہ گلے کی خراش کے لیے متعارف کروائی جانے والی گولیاں سٹیڈیم داخل ہونے والے شائقین میں مفت بانٹنی ہیں،ہمارے پاس ٹکٹ نہیں تھے،باہر کھڑے ہوکر ہی لوگوں کو تقسیم کرتے رہے،پولیس والوں نے دیکھا کہ ہم کافی دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے تھک گئے ہیں،انہوں نے کہا کہ سٹیڈیم کے اندر چلے جاؤ، آرام بھی کرو اور کام بھی کروِ،سٹینڈز پر بھی ہم نے رونق لگائی رکھی، پویلین اینڈ کے قریب پہنچے تو رچی رچرڈسن نے آواز دے کر بلایا اور گولیاں مانگیں،میرے قریب آئے تو ایک فوٹوگرافر نے تصویر بنائی جو معلوم نہیں کہ شائع ہوئی یا نہیں لیکن میں نے اخبار کے دفتر میں جاکر اس سے حاصل کرلی۔

بزرگ نے کہا کہ میچز اب بھی ہورہے ہیں،ورلڈ الیون کے آنے کی خوشی بھی ہے لیکن حالات اس قدر تبدیل ہوچکے کہ کرکٹ میلے کے ساتھ سکیورٹی اہلکاروں کا ہجوم بھی لازم ہوگیا،قذافی سٹیڈیم یہاں سے 3کلومیٹر دور ہے لیکن سڑکوں سے گزرنا محال ہوچکا۔

بزرگ سے گفتگو کے بعد راقم میچ کی کوریج کے لیے گیا تو ماضی اور حال کا فرق واضح محسوس ہوا،آرمی، رینجرز، پولیس اور دیگر فورسز کے دستے اپنی ڈیوٹیاں سنبھالے ہوئے تھے، سٹیڈیم کے اندر اور اطراف میں سخت چیکنگ اور سرچ آپریشن جاری تھا، قذافی سٹیڈیم، اطراف اور روٹس پر 24 ایس پیز، 52 ڈی ایس پیز، 114ایس ایچ اوز، 88 ایلیٹ پولیس، 10 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات تھے، پولیس رسپانس یونٹ کی 50 گاڑیاں اور 100 سے زائد ڈولفن سکواڈ بائیکس پٹرولنگ کررہے تھے، 300 مقامات پر سنائپرز چھتوں سے ٹیموں کی آمدورفت کے روٹس کی نگرانی کررہے تھے۔

قذافی سٹیڈیم کے اہم مقامات پر ناکہ بندی اور پورے علاقہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ کی جارہی ہے، صرف نشتر سپورٹس کمپلیکس میں ہی 92خفیہ کیمرے نصب تھے، قذافی سٹیڈیم کے اندر اور باہر ایک ایک شخص کیمرے کے سامنے اور اس کی ہر حرکت سکیورٹی اہلکاروں کی نظر میں تھی۔

نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں ایمر جنسی رسپانس سنٹر بھی قائم تھا جس میں تمام محکموں کے افسران ہمہ وقت موجود تھے، 20بستروں پر مشتمل عارضی ہسپتال میں آپریشن تھیٹر اور بلڈ بنک جیسی سہولیات بھی تھیں، عارضی ہسپتال میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف فرائض سرانجام دے رہے تھے، انتظامات میں تمام ترمشکلات اور بھاری اخراجات کے باوجود سب کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لیے امیدکا جو چراغ روشن ہوا ہے،بجھنے نہ پائے۔

شہر اور میدان سے باہر کی صورتحال تو سخت سکیورٹی کے باعث کنٹرول میں رہی لیکن کچھ ناخوشگوار چیزیں بھی دیکھنے کو ملیں، ٹریفک پولیس اہلکار پی سی بی کی طرف جاری کئے جانے والے ضابطہ اخلاق کے پمفلٹ تقسیم کرتے رہے،ان کے تحت شائقین کرکٹ کو پانی کی بوتل اور کھانے پینے کی اشیا ء، سگریٹ، لائٹرز، بیٹری، چارجر اور لوہے کی کوئی بھی چیز سٹیڈیم میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن حکام کے کئی خاص تعلق دار ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے نظر آئے، سگریٹ کے عادی بعض افراد جیب میں لائٹر لانے میں کامیاب ہوئے، کئی ہاتھ میں پانی کی بوتلیں بھی لے کر سٹیڈیم میں داخل ہوئے۔

دوسری طرف سکیورٹی پر معمور اہلکاروں نے عام تماشائیوں کی پانی کی بوتلیں اور لائٹر اپنے قبضے میں لے لئے، سٹیڈیم میں کسی بھی قسم کی نعرے بازی کو روکنے کیلئے سخت ہدایات جاری کی گئی تھیں، نامناسب الفاظ ادا کرنے کو گرفت میں لانے کے لیے مجسٹریٹ تعینات تھے جن کو فوری گرفتاری اور سزا دینے کا اختیار تھا،’’گونواز گو‘‘ کے نعروں کو روکنے کے لیے سابق وزیر اعظم کے حلقہ انتخاب این اے 120 میں ن لیگ کے کارکنوں کو مفت ٹکٹ دیئے جانے کی اطلاعات بھی ملیں۔

مبینہ طور پر کالج کے اساتذہ کو ٹکٹ دے کر طلبہ کو ساتھ لانے اور نعرے بازی کو کنٹرول کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا لیکن ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے پھر بھی لگتے رہے،مجموعی طور پر نہ صرف کہ سٹیڈیم تک پہنچ پانے والے تماشائیوں بلکہ پورے ملک میں شائقین کرکٹ نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لیے سجائے جانے والے میلے کا بھرپور لطف اٹھایا،بہترین سکیورٹی انتظامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی نہ صرف ہم وطنوں بلکہ پوری دنیا سے داد سمیٹی کہ دشمن کی تمام ریشہ دوانیوں کو اپنے آہنی عزم سے شکست دے سکتے ہیں۔

انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر خوش آئند ہے لیکن جلد بازی میں ابھی بڑی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں، مثال کے طور پر چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے دعویٰ کیا کہ ورلڈ الیون کی ٹیم آئندہ 2 سال بھی پاکستان آئے گی، مہمان ٹیموں میں مزید انٹرنیشنل سٹارز شامل ہوں گے لیکن اگلے ہی روز آئی سی سی چیف ڈیو رچرڈسن نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ بہتر سکیورٹی حالات اور آئی سی سی کی کاوشوں کی بدولت عالمی کرکٹرز پاکستان آ کر کھیلنے پر تیار ہوئے، پی ایس ایل فائنل کے کامیاب انعقاد نے راہ ہموار کی،کرکٹ بورڈز اور آئی سی سی کے سکیورٹی ماہرین نے مثبت رپورٹس دیں جس کے باعث ورلڈ الیون کے دورہ کا فیصلہ ہوا، مکمل طور پر انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی خوش آئند ہوگی لیکن اس کے لیے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا۔

ڈیو رچرڈسن کا یہ بیان حقیقت پسندانہ ہے، مجوزہ شیڈول کے مطابق سری لنکن ٹیم نومبر میں ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے پاکستان آئے گی، پی سی بی کی یہ بھی کوشش ہے کہ آئی لینڈرز 2 میچز کے لیے آئیں، ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ نے بھی 3 میچز کی سیریز کے لیے ٹیم پاکستان بھیجنے کی حامی بھری ہے، بتدریج دیگر ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیمیں بھی ٹورز کے لیے آسکتی ہیں لیکن اس کے لیے ہر قدم پھونک پھونک کررکھنا ہوگا۔

آئی سی سی کی جانب سے سکیورٹی معاملات میں مدد کے لیے ایک مخصوص متعلقہ انٹرنیشنل فرم کو دی جارہی ہے،دیگر چیزوں کا بوجھ تو پی سی بی کو اٹھانا ہوگا،دبئی میں ہوم سیریز کا انعقاد مہنگا سودا ہے لیکن اگر ملک میں اس سے بھی زیادہ اخراجات ہوجائیں تو آزادی کپ جیسی کتنی سیریز کروائی جاسکتی ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ کے کامرس رپورٹر عامر نوید چوہدری کی رپورٹ کے مطابق آزادی کپ کے سیکورٹی انتطامات کے لیے لبرٹی و ملحقہ مارکیٹوں کی 9000سے زائد دکانیں بند ہونے سے تاجروں کو روزانہ 6ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، سٹیڈیم اور کھلاڑیوں کی آمد ورفت کی مختص روٹ پر مارکیٹیں بند کرائی گئیں، لبرٹی مارکیٹ، مین بلیوارڈ گلبر گ، قذافی سٹیڈیم اور اس کے اطراف میں واقع کمرشل سینٹرز میں ہزاروں دکانیں کئی روز بند رکھیں گئیں۔

میچز کے روز کاروبار تو آس پاس کسی کوپَرمارنے کی بھی اجازت نہیں تھی، نشتر پارک کے علاقے کو سکیورٹی حصار میں لینا ضروری تھا لیکن کئی کلومیٹر دور اطراف میں بھی کاروباری سرگرمیاں بن رہیں، ٹریفک مسائل کی وجہ سے بھی عام شہریوں کو پریشانی ہوئی،ان مسائل کا ایک حل تو یہ ہے کہ اسٹیڈیم ہی شہر کی گنجان آبادی سے باہر ہوں، دبئی اور ابوظہبی میں سپورٹس سنٹر ایسی ہی کھلی جگہوں پر بنائے گئے ہیں۔

آئی سی سی چیف ڈیو رچرڈسن نے تسلیم کیا ہے کہ سکیورٹی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ اور کھیل بھی ان حالات سے متاثر ہوئے ہیں،پاکستان نے ورلڈ الیون میں شامل کرکٹرز کے دل جیتنے کے ساتھ دنیائے کرکٹ کا اعتماد بحال کرنے میں بھی پیش رفت کی ہے لیکن کوشش کرنا ہوگی کہ عوام کے مسائل اور اخراجات کم رکھتے ہوئے اس پودے کو تناور درخت میں تبدیل کیا جائے۔

آخر میں پی سی بی کی ایوارڈز تقریب کا ذکر ہوجائے، شائقین ایک عرصہ سے منتظر تھے کہ سال میں بہترین کارکردگی پر اپنے سٹارز کی عزت افزائی ہوتے دیکھیں گے، بالآخر اس تقریب کا انعقاد ورلڈ الیون کی سیریز کے دوران انٹرنیشنل کرکٹرز اور آئی سی سی کے نمائندوں کی موجودگی میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا،کرکٹرز کے اس میلے کے بارے میں ایک ٹی وی کے سوا تمام میڈیا نمائندوں کو کوئی اطلاع تھی،نہ کسی کو دعوت دی گئی۔

بورڈ نے سوشل میڈیا پر بھی کوئی تفصیل دینا گوارا نہیں کی،بیشتر صحافیوں کے استفسار پر یہی بتایا جاتا رہا کہ صرف ایک چینل ہی اس کی خبریں اور تفصیلات جاری کرے گا،ریکارڈ کرکے مرضی کے وقت پر یہ پروگرام نشر کرنے کا حق بھی اسی چینل کو حاصل ہوگا، چپکے سے نشریاتی حقوق فروخت کرنے اور مخصوص چینل کو نوازے جانے پر کرکٹ حلقوں میں گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، شائقین اور صحافی صرف ایک چینل کی اجارہ داری قائم کئے جانے پر حیران ہیں۔

آئی سی سی ایورڈز کی تقریب کے بھی حقوق فروخت ہوتے ہیں لیکن اس کی ویب سائیٹ پر ساتھ ساتھ تفصیلات اور تصویریں بھی جاری کی جاتی ہیں، اس انوکھے فیصلے کی وجہ سے بیشتر صحافیوں کو ایوارڈ حاصل کرنے والوں کے نام تک معلوم کرنے میں دشواری ہوئی،پی سی بی کسی فرد واحد کا نہیں پوری قوم کا ہے، پورے میڈیا اور عوام کو قومی کرکٹرز سے دور رکھنا درست نہیں۔n

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔