شہدائے کشمیر کے ساتھ ایک یادگار رات

عرفان علی  منگل 19 ستمبر 2017
جنگلوں اور بیابانوں میں پتھریلی زمین پر سوجانے سے جو سکون میسر آتا ہے وہ محلوں کے اندر پلنگوں پر سونے والوں کو کبھی نصیب نہیں ہوسکتا۔ فوٹو: فائل

جنگلوں اور بیابانوں میں پتھریلی زمین پر سوجانے سے جو سکون میسر آتا ہے وہ محلوں کے اندر پلنگوں پر سونے والوں کو کبھی نصیب نہیں ہوسکتا۔ فوٹو: فائل

مقبوضہ کشمیر میں آئے روز ہونہار اور باصلاحیت نوجوان اسلام اور آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں اور شہادتوں کی یہ خبریں سننے کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ لیکن اس بار ایک نام سے ہونے والی شہادت کا سن کر جیسے میرے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا۔ میری یادیں مجھے ایک سال پیچھے لے گئیں جو ماہ ستمبرکی خوشگوار رات تھی، جب میری ملاقات دو بہادر نوجوانوں سے ہوئی۔

یہ پچھلے سال کی بات ہے کہ جب برہان شہید وانی کی شہادت کے بعد عوامی تحریک کو کچلنے کےلیے ہندوستانی فوج اور ریاستی پولیس ظلم کا ہر وہ طریقہ استعمال میں لارہی تھی جس سے چنگیزخان اور اُس کی اولاد بھی ناواقف تھی۔ کرفیو، ہڑتال اور مواصلات پر پابندی نے جیسے وادی کی ساری آبادی کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا تھا۔

انسان کا انسان سے رابطہ ختم ہو کر رہ گیا تھا اور ہمیں اپنوں کی اتنی خبر بھی نہیں تھی کہ کون زندہ ہے اور کون اب یہ دنیا چھوڑ کر جاچکا ہے۔ اسی پریشانی کے عالم میں ایک دن میں اپنے والدین کے اصرار پر رشتہ داروں کی خبر گیری کےلیے اپنے آبائی ضلع اسلام آباد سے نزدیکی ضلع کولگام چلا گیا۔ دن کے اوقات میں نکلنا مشکل ہوتا تھا اس لیے شام گئے میں اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں سوار ہوکر چل پڑا۔ راستے میں ایک دوجگہوں پر بھارتی فورسز کی دہشت گردی سے بال بال بچ نکلا، حتیٰ کہ ایک جگہ فورسز اہلکاروں کی سنگ باری سے میری گاڑی کا ایک شیشہ بھی ٹوٹ گیا۔ آخر کار اللہ کے رحم و کرم کے سائے تلے بڑی مشکل سے میں رات کے نو بجے اپنے رشتہ داروں کے گھر پہنچ گیا۔

مجھے دیکھ کر گھر پر موجود میرے رشتہ دار بہت خوش ہوئے اور ملتے ہی میرے علاقے کے حالات کے بارے میں پوچھنے لگے اور باری باری سب کا نام لے کر خیر و عافیت دریافت کرنے لگے۔ سب کا حال چال پوچھنے کے بعد کھانے کی تیاری ہونے لگی تو یک دم دروازے پر دستک ہوئی۔ سب کے کان کھڑے ہوگئے کہ اتنے میں مالک مکان دیکھنے نکل گیا اور ہم دوبارہ باتوں میں مصروف ہوگئے۔

دس منٹ بعد جب گھر کا مالک واپس آیا تو اس کی بیوی نے پوچھا کون تھا؟ اس نے جواب میں کہا کہ کوئی اللہ کے مہمان تھے اور ہمارے گھر رہنے کا کہہ رہے تھے لیکن جب انہیں پہلے سے ایک مہمان کی موجودگی کی خبر دی گئی تو واپس چلے گئے۔

اُن کا یہ کہنا ہی تھا کہ اْن کی بیوی کی چیخ نکل گئی اورانہوں نے تلخ لہجے میں اپنے شوہر سے کہا، ’’آپ کو کیا ہوگیا؟ وہ اللہ کے مہمان ہیں، اس وقت کہاں جائیں گے؟ نہ جانے کتنے دنوں سے کھلے آسمان تلے راتیں گزاری ہوں گی، نہ جانے کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں؟ آپ نے کیسے انہیں واپس جانے دیا؟‘‘

میں اب بھی سمجھ نہیں پارہا تھا کہ باہر کون ہوں گے اور یہ دونوں میاں بیوی کس بات پر لڑرہے ہیں کہ اتنے میں بیوی بولی: ’’جلدی جائیں باہر اور ان کو واپس لے کر آئیں… وہ ابھی زیادہ دور نہیں گئے ہوں گئے۔ میں بھلا کیسے اپنے بیٹوں کو اس کالی رات میں باہر سلا دوں جب کہ وہ اپنی ماں کے گھر پناہ لینے کےلیے آئیں۔ ان کی جوانیوں اور کوششوں کے سامنے ہمارے مکان کی بھلا کیا حیثیت ہے۔‘‘

ان کے شوہر زیادہ دیرتک جذباتی بیوی کی باتیں برداشت نہ کرسکے اور باہر کی جانب دوڑ پڑے۔ کچھ دیر بعد وہ ان نوجونوں کو اندر لے آئے۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے تو میں نے دو معصوم صورتیں دیکھیں جنہیں آج تک میں اپنے دل سے نکال نہیں پایا۔ بیس بائیس سال کے دو خوبصورت چہروں والے نوجوان ہتھیاروں سے لیس تھےاور مجھے یہ سمجھنے میں ایک پل بھی نہیں لگا کہ یہ دونوں مجاہدین تھے۔

ایک پل کےلیے میرے اندر خوف پیدا ہوا کیونکہ کسی گھر میں مجاہدین کے ہونے کا مطلب مقبوضہ وادی میں بہت خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی وقت فوج گھر کر چھاپا مار سکتی ہے، ان کاؤنٹر ہوسکتا ہے یا پھر سب سے آخری حل مکان کے ساتھ ساتھ اس میں موجود مکینوں کو بھی بارود سے اُڑایا جاسکتا ہے۔ طرح طرح کے وسوسوں نے میری دل کی دھڑکنیں تیز کردی تھیں۔ اگر چہ خوف کے مارے میری جان نکل رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ دل کے کسی کونے میں اس ملاقات کو اپنی سعادت بھی سمجھ رہا تھا۔

پھر وہ بھی ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئے اور ان سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد میں نے ان سے سوالات کرنے چاہے جو میرے ذہن میں کب سے موجود تھے لیکن موقع آج ملا تھا کسی مجاہد سے پوچھنے کا۔ میں نے اْن سے کہا: ’’آپ کیوں اپنی اٹھتی جوانیوں کو یہ جانتے ہوئے بھی قربان کررہ ہیں کہ بھارت ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔ اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں۔ آپ کے پاس یہ معمولی بندوقیں اور چند گولیاں۔ آپ بھلا کیسے اتنی بڑی فوج کے ساتھ لڑ سکتے ہیں؟‘‘

اس پر میرے پاس بیٹھے نوجوان نے ایک ہلکی سے مسکراہٹ چہرے پر بکھیرے ہوئے بڑے ہی مؤدبانہ انداز میں کہا:

’’ہم مسلمان ہیں اور ہماری تاریخ یہ رہی ہے کہ ہم نے ہمیشہ کمزوری کی حالت میں ہی لڑا ہے۔ اور ہمیشہ اللہ کے بھروسے پر لڑا ہے نہ کہ تعداد کے بل بوتے پر۔ ہم مسلمانوں نے ایمان کے دم پر جنگیں جیتی ہیں۔‘‘

پھر میں نے پوچھا: ’’بھائی آپ کے لیڈر شہید ہورہے ہیں، آپ کے نوجوان شہید ہورہے ہیں، آپ کا نقصان ہورہا ہے۔ کیا یہ آپ کو ناامید کرنی والی باتیں نہیں؟’’

تو انہوں نے کہا: ’’دیکھیے میرے بھائی بات کچھ یوں ہے کہ کفار کےلیے جانی نقصان ہار کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ ان کی قوم میں جانیں تلف ہونے سے ناامیدی پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کی شہادتیں جذبہ ابھارنے والی ہوتی ہیں۔ مسلمان مجاہدین کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اْن کے Cause کو آگے بڑھانے کےلیے ہزاروں وارث پیدا ہوجاتے ہیں۔‘‘

میرا اگلا سوال تھا: ’’آپ نوجوان ہیں۔ اس عمر میں اکثر نوجوان موج مستی کرتے ہیں اور آرام طلب ہوتے ہیں۔ کیا آپ کو کبھی اس طرز زندگی کی تمنا نہیں ہوتی؟‘‘

اس سوال کے جواب میں ایک نوجوان کچھ یوں گویا ہوا: ’’بھائی جان! ہماری زندگی میں ایسی چیزوں کی کوئی وقعت نہیں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ جب ہم سرد اور گرم راتوں میں کھلے آسمان تلے سوجاتے ہیں۔ جب کئی کئی دنوں تک بھوکے رہ کر نڈھال ہوجاتے ہیں تو ایک دم یاد آتا ہے کہ یہ سب سختیاں ہم اللہ کے دین، اپنی قوم کی آزادی کےلیے جھیل رہیں ہیں تو واللہ، جنگلوں اور بیابانوں میں پتھریلی زمین پر سوجانے سے جو سکون میسر آتا ہے وہ محلوں کے اندر پلنگوں پر سونے والوں کو کبھی نصیب نہیں ہوسکتا۔ کئی کئی دن بھوکے رہنے کے بعد جب کبھی ہم کچی سبزیاں کھاتے ہیں تو ہزار قسم کے پکوانوں سے زیادہ ہمارا وہ کھانا لذیذ ہوتا ہے۔‘‘

میں نے ان سے کہا: ’’پاکستانی حکومت نے کشمیر کی تحریک کو سپورٹ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایسے میں ہم کیوں پاکستان سے آس لگائے بیٹھے ہیں؟‘‘ تو دوسرے نوجوان نے اپنی آواز کو تھوڑا سا بلند کرتے ہوئے جواب دیا: ’’ پاکستان کی حکومت مختلف وجوہ کی بنا پر ہمارا ساتھ دینا چھوڑ بھی دے تب بھی ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ پاکستان کا آئین ہمارے ساتھ ہے۔ پاکستان ہمارے ساتھ تھا اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا۔‘‘

میں ان دومعصوم صورتوں کے مالک مجاہدین کی باتیں سن کر بالکل لاجواب ہوگیا اور میرے پاس ان کی باتوں کو رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ رات ڈیڑھ بجے کے قریب باتیں ختم کرکے ہم سوگئے۔ صبح باجماعت نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد وہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے، میں نے بہت سارے قاریوں سے قرآن پاک سنا ہے لیکن قرآن کس طرح پڑھا جاتا ہے اور خشوع و خضوع کیا ہوتا، یہ مجھے چھوٹی عمر کے ان نوجوانوں کی نماز اور تلاوت کا مشاہدہ کرنے کے بعد پتا چلا۔

آج جب کہ مجھے ان کی شہادت کی خبر ملی تومیری آنکھوں میں خودبخود آنسو بہنے لگے اور میرا دل جیسے پھٹنے لگا۔ اداسی ہی اداسی ہر سو چھائی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ ہر پل میرے سامنے وہ معصوم اور نورانی چہرے گھومنے لگے اور وہ مٹھاس بکھیرنے والی باتیں میرے جگر کو چھلنی کرنے لگیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میری وادی کےلیے بہنے والا یہ لہو ایک دن ہمیں آزاد کرکے رہے گا۔

ان شاءاللہ

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔