وزیر خارجہ کا دورہ ایران

شکیل فاروقی  منگل 19 ستمبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

2001 میں افغانستان پر حملے اور تسلط کے بعد سے ہی امریکا پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے اور ’’ڈو مور‘‘ ’’ڈور مور‘‘ کا راگ الاپ رہا ہے۔ ساری دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ پاکستان نے اس سلسلے میں کتنی بے دریغ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں اور ابھی تک دے رہا ہے۔ مگر امریکا کو اس کا نہ کوئی پاس ہے اور نہ احساس۔ کون نہیں جانتا کہ افغان جنگ میں پاکستان نے اپنے تمام وسائل جھونک دیے ہیں، حتیٰ کہ اپنے وجود تک کو داؤ پر لگا دیا ہے اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔ مگر امریکا کی احسان فراموشی کی کوئی حد نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ ملنے والی پاکستان کی سرحد بہت لمبی ہے اور اسے عبور کرکے آنے جانے کے راستے بھی آسان اور بے شمار ہیں۔ ان علاقوں سے ہوکر گزرنے والے ہر شخص کو یہ بات معلوم ہے۔ اس سرحد کو مکمل طور پر سیل بند کرنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ لہٰذا افغان اور امریکی افواج بھی سرحد پار کی حرکات و سکنات کو پوری طرح روکنے سے قاصر ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ جب ایک ملک کے پڑوس میں خشکی کے راستے کوئی دوسرا ملک واقع ہوتا ہے تو سرحدی در اندازی کو روکنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ویت نام کی جنگ میں شمالی ویت نام میں ویت کانگ گوریلوں نے امریکیوں کے خلاف پناہ حاصل کی تھی، اس سے امریکا خود بھی بخوبی واقف ہے۔ اس کے علاوہ 1980 کے اوائل میں کوریا کی جنگ کے دوران چین نے شمالی کوریا کی فوجوں کو بھی اسی طرح کی سہولت فراہم کی تھی۔ آج کے دور میں روس بھی یوکرین کے علیحدگی پسندوں کے لیے یہی کچھ کر رہا ہے۔

سری لنکا کے باغی تمل ٹائیگرز کی مثال اس کے برعکس ہے۔ چونکہ ان کی پشت پر سمندر تھا اور خشکی کی کوئی راہ فرار نہیں تھی اس لیے سری لنکا کی فوج نے 2009 میں آسانی کے ساتھ ان کا صفایا کردیا۔ مذکورہ بالا دونوں قسم کی صورتحال سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اگر پڑوس میں چھپنے کی ذرا سی بھی گنجائش موجود اور بارڈر Porous ہو تو کمزور سے بھی کمزور گروہ پر قابو حاصل کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ان حالات میں پاکستان کے خلاف امریکی اور افغان حکمرانوں کی جھوٹی اور غیر منطقی الزام تراشیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امریکا کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ مطلب کا یار ہے۔ جب اس کی غرض ہوتی ہے تو وہ مہربان ہوجاتا ہے اور جب اس کا مطلب نکل جاتا ہے تو وہ اپنا منہ موڑ کر اجنبی اور انجان بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے ’’طوطا چشمی‘‘ کے محاورے کو ’’امریکا چشمی‘‘ کے تازہ ترین محاورے سے تبدیل کردیا ہے۔

امریکا کی افغان پالیسی کا ایک بہت بڑا اور کھلا تضاد یہ ہے کہ وہ ایک جانب پاکستان پر حقانی گروپ کے خلاف حد سے زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے اور دوسری جانب یہ توقع بھی کرتا ہے کہ پاکستان کسی طرح اسے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے بھی راضی کرلے۔ امریکا کی سمجھ میں آخر اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ اگر پاکستان اس کے اصرار پر حقانی گروپ کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑے گا تو بھلا پھر وہ بات چیت پر کیونکر آمادہ ہوسکیں گے؟ دوسری بات وہ حقیقت ہے جسے امریکا تسلیم کرنے پر مجبور ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ افغان مسئلے کا واحد حل حقانی گروپ کو مذاکرات کی ٹیبل پر لائے بغیر کسی بھی طور ممکن نہیں ہے۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح سے عیاں ہے کہ حقانی گروپ کو راضی کرنا پاکستان کے سوائے اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ امریکا کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ بھارت کو افغانستان زیادہ space دینے کی اس کی پالیسی ایک نہ ایک دن Back Fire کرے گی اور یہ سودا نہ صرف اسے بلکہ افغانستان کے پٹھو حکمرانوں کو بھی بالآخر بہت مہنگا پڑے گا۔

افسوس یہ ہے کہ 16 سالہ طویل افغان جنگ میں ملوث ہونے، ایک ٹریلین ڈالر اس جنگ میں جھونکنے اور 2000 سے زائد جانیں اس لاحاصل جنگ میں ضایع کرنے کے بعد بھی امریکا ہوش کے ناخن لینے کے بجائے ہٹ دھرمی سے باز نہیں آرہا اور صدر ٹرمپ نے اپنے ابتدائی موقف کو چھوڑ کر امریکی انتظامیہ کے بہکاوے میں آکر یوٹرن لے لیا ہے۔

افغانستان میں بھارت کو زیادہ بڑا کردار سپرد کرنے کی امریکی پالیسی کے پس پشت یہ سوچ بھی کارفرما ہوسکتی ہے کہ امریکا افغانستان کو بھارت کے حوالے کرکے خود اپنا پیچھا چھڑا کر وہاں سے نکل بھاگے تاکہ اس طرح ایک سپرپاور کے طور پر کسی نہ کسی حد تک اس کی ساکھ برباد ہونے سے بچ جائے۔ اگر سچ مچ ایسا ہی ہے تو یہ امریکا کے لیے تو شاید بہتر ہو لیکن بھارت کے حق میں دلدل میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہوگا کیونکہ بھارت کے اندر خود علیحدگی پسندی کی کئی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے۔

قصہ مختصر افغانستان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ہاتھوں افغانستان اپنے عوام اور پاکستان کے لیے ایک رستا ہوا ناسور بنا ہوا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو اسے افغان عوام کی آزادی اور فلاح و بہبود اسلامی بھائی چارے کے ناطے سے اتنی عزیز ہے کہ اس نے انھیں سوویت یونین کی یلغار سے بچانے کے لیے اپنا وجود بھی داؤ پر لگا دیا اور 35 لاکھ افغانیوں کو اپنے یہاں پناہ دے کر نہ صرف اپنی معیشت پر اضافی بوجھ برداشت کیا بلکہ آج تک اپنی بے دریغ قربانیاں پیش کر رہا ہے اور اس کے نتائج بھی بھگت رہا ہے۔

افغانستان کی موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال پر اس کے دونوں ممبر اور پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کو گہری تشویش ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کے گہرے ثقافتی اور مذہبی رشتے اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان جب دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو ایران نے اسے تسلیم کرنے میں انتہائی تیزی سے پیش قدمی کی تھی۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ جب پاکستان، ایران اور ترکی آر سی ڈی کے تحت اقتصادی تعاون کے بندھن میں وابستہ ہوئے تھے تو باہمی تعلقات مزید وسیع اور مستحکم ہوئے تھے۔ اس کے بعد ای سی او کے تحت تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہوا تھا۔ 1965 پاک بھارت 17 روزہ جنگ کے موقع پر بھی ایران نے پاکستان کی ہر ممکنہ اعانت کی۔

پاکستان کی طرح ایران کی سرحدیں بھی افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں لہٰذا اس لیے بھی وہاں کے حالات میں دونوں کی دلچسی ایک فطری اور منطقی تقاضہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آئی ہوئی ہے جب کہ امریکا کے ساتھ ایران کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ پاکستان کے لیے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا حالیہ دورہ ایران اس پس منظر میں مخصوص اہمیت رکھتا ہے۔ اپنے اس مختصر سے ایک روزہ دورے میں خواجہ آصف نے تہران میں ایران کے صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف سے اہم ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں ہونے والے تبادلہ خیال کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل ممکن نہیں ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کے ذریعے حل ناگزیر ہے۔ اس بات پر بھی مکمل اتفاق رائے پایا گیا کہ یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے جس میں بیرونی مداخلت کے بجائے خطے کے ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔