اب کیا ہم بھی ’’آئٹم سانگ‘‘ کریں گے؟

عبدالرحمان شریف  پير 21 جنوری 2019
پاکستانی فلم سازوں کو فلموں میں جان ڈالنے کےلیے قطعی طور پر کسی آئٹم سانگ یا پھر بھارتی فلم انڈسٹری کی تقلید کی کسی بھی طرح ضرورت نہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستانی فلم سازوں کو فلموں میں جان ڈالنے کےلیے قطعی طور پر کسی آئٹم سانگ یا پھر بھارتی فلم انڈسٹری کی تقلید کی کسی بھی طرح ضرورت نہیں۔ فوٹو: فائل

’’سینما میں نئی فلم لگی ہے، دیکھنے چلیں؟‘‘ بیگم صاحبہ کی آواز سن کر میں فیس بک کی دنیا سے باہر نکل آیا اور کن انکھیوں سے بیگم صاحبہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا ’’سینما میں تو آئے دن ہی کوئی نہ کوئی نئی فلم لگتی ہے، اس بار ایسی کونسی فلم لگی ہے جو آپ جانے کےلیے مچل رہی ہیں؟‘‘

’’کل صدیقی صاحب کی بیگم بتارہی تھیں۔ پاکستانی فلم ہے اور شائقین کی طرف سے ردعمل بھی اچھا دیکھنے کو ملا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں اچھی فلمیں بنتی ہی کب ہیں؟ ہم یہ فلم ضرور دیکھنے جائیں گے۔ ویسے بھی بہت دن ہوگئے پوری فیملی کو کہیں آؤٹنگ پر گئے ہوئے۔‘‘

بیگم کی بات سن کر میں نے اسمارٹ فون ایک طرف رکھا اور پوچھا کہ ایسا کیا ہے اس فلم میں جو آپ اتنے دلائل دے رہی ہیں؟ ’’فلم ملک سے باہر بنی ہے، کہانی بھی بڑی شاندار ہے، فیملی فلم ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان اداکار ہیں اور مسز صدیقی نے بتایا تھا کہ خصوصی طور فلم میں نئی ماڈل کا آئٹم سانگ بھی ہے جس نے فلم میں چار چاند لگا دیئے ہیں،‘‘ بیگم صاحبہ نے ایک ہی سانس میں اس طرح دلائل دیئے جیسے کہ وہ خود دیکھ چکی ہوں۔

آئٹم سانگ پر میرے کان کھڑے ہوگئے اور فوراً بیگم سے کہا کہ فلم میں آئٹم سانگ فلم کے اچھا ہونے کی تو کوئی دلیل نہ ہوا۔ اور آئٹم نمبر ہے تو یقیناً فیملی کے ساتھ تو نہیں جاسکتے اور نہ ہی یہ کوئی فیملی فلم ہوئی۔ مانا کہ زمانہ بہت آگے جاچکا ہے لیکن جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں اخلاقیات اور تہذیب کا ایک دائرہ ہے، اور یقیناً ہمارا معاشرہ اخلاقیات کی اس پستی میں نہیں گیا جہاں والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر آئٹم سانگ دیکھیں۔

میری بات سن کر بیگم صاحبہ نے بھی اتفاق کیا اور میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا: ’’کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں۔‘‘ اور پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئیں، لیکن میں سوچنے لگا کہ یہ پتا نہیں یہ آئٹم سانگ نام کی بلا کیسے ہماری ضرورت بن گئی۔

پاکستانی فلموں میں آئٹم سانگ کا بڑھتا ہوا رجحان یقینی طور پر ہمسایہ ملک بھارت کی فلم انڈسٹری کا اثر ہے۔ بھارتی فلموں میں آئٹم سانگ کا کلچر نیا نہیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ کلچر بھارتی فلموں کی زینت بنا ہوا ہے لیکن پچھلے چند سال میں بھارتی فلموں میں آئٹم سانگ کا کلچر انتہائی تیزی سے پروان چڑھا ہے اور اب فلموں کی مارکیٹنگ کےلیے آئٹم سانگ کا ہونا بے انتہا ضروری ہے۔

بات کی جائے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تو آج کل کے نوجوان اداکار تو ہیں ہی بھارتی اداکاروں کے دیوانے، جتنی دل جمعی کے ساتھ بھارتی اداکاروں کی تقلید کی جاتی ہے اگر اتنی دل جمعی کے ساتھ ہم اپنا اصل کام کریں تو کامیابی یقیناً ہماری ہے۔ اب تو حد یہ ہے کہ فلموں کی چربہ سازی میں لالی ووڈ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ فلموں کی کہانی سے لے کر اداکاروں کے کپڑے، فلموں کے مناظر، ان میں شامل گانے، بالخصوص آئٹم سانگ کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی دلیل ہیں کہ پاکستانی فلم انڈسٹری بھارتی فلم انڈسٹری کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔

ایک دور تھا جب وحید مراد، محمد علی، ندیم، سید کمال، جاوید شیخ، راحت کاظمی اور منور ظریف جیسے ادکاروں کی فلمیں دیکھنے کےلیے سینماؤں کے باہر کھڑکی توڑ رش ملتا تھا اور اس وقت آئٹم سانگ فلم کا کسی طور پر جزو نہیں تھے اور اس وقت کی فلمیں بغیر آئٹم نمبر کے آج کی فلموں سے زیادہ کامیاب تھیں۔ آئینہ، انجمن، مٹھی بھر چاول، دوپٹہ جل رہا ہے اور بھابی دیاں چوڑیاں سمیت بہت سی فلمیں ہیں جنہوں نے نہ صرف کامیاب بزنس کیا بلکہ خود بھارتی فلم انڈسٹری بالی وڈ اور اداکار ان فلموں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

لیکن آج کل شاید لالی وڈ نے حقیقت سے قریب تر کہانیوں کو چھوڑ کر رنگین دنیا کا رخ کرلیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری بہت عرصے تک زوال کا شکار رہی تاہم گزشتہ دہائی سے فلم انڈسٹری کی بحالی کےلیے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے لیکن خدارا اس معاشرے کو آئٹم سانگ کی لعنت سے دور ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ آئٹم نمبر کا بڑھتا ہوا رجحان ہماری تہذیب، ثقافت اور روایات کےلیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ ایک اچھی تفریح اور موضوع سے بھرپور فلم یا پھر عریانی اور فحاشی؟

بے شک آج کا ناظر 70 اور 80 کی دہائی میں بننے والی فلموں کو خاص پسند نہ کرے لیکن کیا ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘، ’’سلطنت‘‘ اور فلم ’’جلیبی‘‘ کو آئٹم نمبرز ہونے کے باوجود پسند نہیں کیا گیا۔ یہ ایک عمومی مظہر ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز جدت کا تقاضا کرتی ہے اور یہ عمل ترقی کےلیے بے انتہا ضروری بھی ہے۔ پاکستانی سینما میں ترقی کے عمل کو ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ پاکستانی سینما کے سنہری دور کو اگر جدت بخش کر کسی نے آج پیش کیا ہے تو وہ ’رام چندر پاکستانی‘، ’بول‘ اور ’خدا کےلیے‘ جیسی فلمیں ہیں۔ ان فلموں میں موضوعات کو مدنظر رکھ کر فلمایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آئٹم سانگ نہ ہونے کے باوجود ان فلموں نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی۔

لالی ووڈ میں ترقی کا جو عمل شروع ہوا ہے اسے کامیابی کے ساتھ جاری بھی رہنا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ نئے پاکستانی فلم سازوں کو فلموں میں جان ڈالنے کےلیے قطعی طور پر کسی آئٹم سانگ یا پھر بھارتی فلم انڈسٹری کی تقلید کی کسی بھی طرح ضرورت نہیں۔ ہم آج بھی اداکاری کے میدان میں بھارت سے کئی گنا آگے ہیں اور اگر ہم اچھے، اچھوتے اور معاشرتی موضوعات کو لے کر فلمیں بنائیں تو یقیناً ہمیں کسی آئٹم سانگ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔