- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- ججز دھمکی آمیز خطوط، اسلام آباد ہائیکورٹ کا مستقبل میں متفقہ ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
- سعودیہ سے دیر آنے والی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
- بیوی کی ناک اور کان کاٹنے والا سفاک ملزم ساتھی سمیت گرفتار
- پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
- ٹریفک وارڈنز لاہور نے ایمانداری کی ایک اور مثال قائم کر دی
- مسجد اقصی میں دنبے کی قربانی کی کوشش پر 13 یہودی گرفتار
بھارت میں نومسلم خاتون کا بدھ انتہا پسندوں کو کرارا جواب
لداخ کی ایک نومسلم خاتون نے انتہاء پسندوں کی جانب سے گھناؤنے پروپیگنڈے کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے اور ان سے دوبارہ بدھ مت اختیار کرنے کا مطالبہ انتہائی ’’شرمناک‘‘ ہے۔
ماضی میں اسٹانزن سالڈون کے نام سے بدھ مت کی پیروکار خاتون نے 2015 میں اسلام قبول کیا اور انہیں ’’شفا‘‘ کا نام دیا گیا۔ گزشتہ سال انہوں نے سید مرتضی آغا نامی ایک مسلمان انجینئر سے شادی کرلی لیکن قبولِ اسلام سے لے کر اب تک شفا کو لداخ میں بدھ مت کے ماننے والوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے جبکہ ان کے قبولِ اسلام کو بدھ مت سے نفرت کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔
اپنی ذات پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ’’شفا‘‘ نے بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں ان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے اپنی ’’روحانی جستجو‘‘ کے نتیجے میں اسلام قبول کیا ہے نہ کہ بدھ اِزم سے نفرت کی بناء پر۔
بدھسٹ خاتون کی ایک مسلمان سے شادی مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں مذہبی اور نسلی تناؤ کی وجہ بن گئی جس پر اپنے مضمون میں ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے شفا نے واضح کیا ہے کہ اسلام قبول کرنا اور ایک مسلمان مرد سے شادی کرنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا جبکہ اس سارے معاملے میں کھیلی جانے والی سیاست کو انہوں نے انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔
30 سالہ شفا کو اس ماہ لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن نے دھمکی دی تھی کہ جب تک وہ واپس بدھ مت اختیار نہیں کرلیتیں، تب تک اس علاقے میں کشیدگی برقرار رہے گی۔ دوسری جانب اسی تنظیم نے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیراعلی محبوبہ مفتی کو بھی ایک خط لکھا تھا جس میں شفا اور مرتضی کی شادی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ان بیانات اور مذکورہ مطالبے کے جواب میں شفاء لکھتی ہیں: ’’یہ ایک شرمناک مطالبہ ہے کہ مجھے لوٹ جانا چاہیے، کیونکہ کسی نے مجھ پر قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی مجھے اغوا کیا ہے۔ میں یہاں موجود ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے یہ سب کچھ اپنے لیے منتخب کیا ہے۔‘‘ انہوں نے اس تاثر پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے کہ عورت کو صرف بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھا جائے تاکہ برادری کو بچایا جاسکے، کیونکہ ان پر اعتراض کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے کارگل اور بدھ پیروکاروں کے علاقے لیہ میں اقتدار کی وجہ سے پہلے ہی کشیدگی جاری ہے جس میں شفا کی وجہ سے مذہب اور نسل پرستی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ بدھسٹ مذہبی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ پورے لداخ سیکٹر یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا جائے جبکہ وہاں قانون سازی کا اختیار بھی بدھ مت کے پیروکاروں کو دیا جائے۔ کارگل کے مسلم رہنما اس مطالبے کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔