بھارت میں نومسلم خاتون کا بدھ انتہا پسندوں کو کرارا جواب

 منگل 19 ستمبر 2017
نومسلم خاتون کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی روحانی جستجو کے نتیجے میں اسلام قبول کیا ہے، بدھ اِزم سے نفرت کی بناء پر نہیں۔ (فوٹو: فائل)

نومسلم خاتون کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی روحانی جستجو کے نتیجے میں اسلام قبول کیا ہے، بدھ اِزم سے نفرت کی بناء پر نہیں۔ (فوٹو: فائل)

لداخ کی ایک نومسلم خاتون نے انتہاء پسندوں کی جانب سے گھناؤنے پروپیگنڈے کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے اور ان سے دوبارہ بدھ مت اختیار کرنے کا مطالبہ انتہائی ’’شرمناک‘‘ ہے۔

ماضی میں اسٹانزن سالڈون کے نام سے بدھ مت کی پیروکار خاتون نے 2015 میں اسلام قبول کیا اور انہیں ’’شفا‘‘ کا نام دیا گیا۔ گزشتہ سال انہوں نے سید مرتضی آغا نامی ایک مسلمان انجینئر سے شادی کرلی لیکن قبولِ اسلام سے لے کر اب تک شفا کو لداخ میں بدھ مت کے ماننے والوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے جبکہ ان کے قبولِ اسلام کو بدھ مت سے نفرت کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

اپنی ذات پر اٹھائے جانے والے تمام اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ’’شفا‘‘ نے بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں ان کا مؤقف ہے کہ انہوں نے اپنی ’’روحانی جستجو‘‘ کے نتیجے میں اسلام قبول کیا ہے نہ کہ بدھ اِزم سے نفرت کی بناء پر۔

بدھسٹ خاتون کی ایک مسلمان سے شادی مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں مذہبی اور نسلی تناؤ کی وجہ بن گئی جس پر اپنے مضمون میں ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے شفا نے واضح کیا ہے کہ اسلام قبول کرنا اور ایک مسلمان مرد سے شادی کرنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا جبکہ اس سارے معاملے میں کھیلی جانے والی سیاست کو انہوں نے انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔

30 سالہ شفا کو اس ماہ لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن نے دھمکی دی تھی کہ جب تک وہ واپس بدھ مت اختیار نہیں کرلیتیں، تب تک اس علاقے میں کشیدگی برقرار رہے گی۔ دوسری جانب اسی تنظیم نے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیراعلی محبوبہ مفتی کو بھی ایک خط لکھا تھا جس میں شفا اور مرتضی کی شادی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ان بیانات اور مذکورہ مطالبے کے جواب میں شفاء لکھتی ہیں: ’’یہ ایک شرمناک مطالبہ ہے کہ مجھے لوٹ جانا چاہیے، کیونکہ کسی نے مجھ پر قبضہ نہیں کیا اور نہ ہی مجھے اغوا کیا ہے۔ میں یہاں موجود ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے یہ سب کچھ اپنے لیے منتخب کیا ہے۔‘‘ انہوں نے اس تاثر پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کی ہے کہ عورت کو صرف بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھا جائے تاکہ برادری کو بچایا جاسکے، کیونکہ ان پر اعتراض کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے کارگل اور بدھ پیروکاروں کے علاقے لیہ میں اقتدار کی وجہ سے پہلے ہی کشیدگی جاری ہے جس میں شفا کی وجہ سے مذہب اور نسل پرستی کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ بدھسٹ مذہبی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ پورے لداخ سیکٹر یونین ٹیریٹری کا درجہ دیا جائے جبکہ وہاں قانون سازی کا اختیار بھی بدھ مت کے پیروکاروں کو دیا جائے۔ کارگل کے مسلم رہنما اس مطالبے کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔