’’آئیں اس بھوک کو ہی مار ڈالیں‘‘

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 22 فروری 2013

1896 سے 1901 کے پانچ سال کے عرصے میں ہندوستان خشک سالی کا شکار رہا، جس نے ہلاکت انگیز قحط کو جنم دیا اور قحط نے بے شمار لوگوں کو بیمار اور ہلاک کر دیا۔ اس پانچ سالہ انسانی المیے میں روزانہ 4700 افراد ہلاک ہوئے۔ ہر روز 1896 سے 1901 تک۔ ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 8250000 تھی ۔ 1896 کے شروع میں جنو بی اور مغربی ہندوستان کے تین لاکھ مربع میل علاقے میں ایک بظاہر ختم نہ ہونے والی خشک سالی رونما ہوئی ۔1896-98 میں المیہ عروج کو پہنچا اور قحط پڑ گیا، جس میں 60 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔

خشک سالی اور قحط نے اکسٹھ لاکھ سے زیاد ہ افراد کو متاثر کیا۔ اس کے فوری بعد مزید دوسال جاری رہنے والی خشک سالی اور قحط میں 2250000 افراد ہلا ک ہو گئے۔ لاوارث لاشوں سے گلیاں بھری ہوئیں تھیں اور بچے بے گھر ہو گئے تھے۔ لاکھوں لوگوں کے پاس محتاج خانوں میں پناہ لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ حکو متی امداد سے چلنے والی یہ جنتیں جلد ہی جرائم کے جہنم میں بدل گئیں۔ یہاں جسم فروشی ہونے لگی نیز لاعلاج بیماریوں کا شکار لوگ بھی پنا ہ لینے لگے۔ کم عمر لڑکیوں سے جبراً جسم فروشی کروائی جاتی اور بغیر کسی معاوضے کے بے پنا ہ کام کروایا جاتا۔ ایک ہندوستانی محتاج خانے کا دورہ کر نے والی انگریز عورت نے اپنے گھر والوں کے نام ایک خط میں لکھا: ’’ بر ے مرد فاحشہ عورتیں، معصو م بچیاں اور سا دہ لوح بچے ایک ہی جگہ اکٹھے کر دیے گئے تھے۔

بہت سے لوگ کوڑھ کا اور بہت سے لوگ نا قابل بیان امراض کا شکا رتھے۔ خداوند ان محتاج خانوں اور امدادی کیمپوں میں جانے والی بچیوں پر رحم کرے‘‘۔ پہلے تو ہندوستان کے شدید خشک سالی کے شکار علاقوں کے لوگ ہر کھائے جا سکنے والی شے کھا گئے۔ اس سے کئی سال پہلے روس میں قحط پڑا تھا تو لوگوں نے بھوک مٹانے کے لیے درختوں کی چھال، تنکے اور مٹی تک کھا لی تھی۔ ہندوستان میں بھو کے لوگوں نے تھوہر کے کانٹے اور پو دے ، جڑیں اور ہر طرح کے پھل کھا لیے۔ یہاں تک کہ انھوں نے گھاس بھی کھا لی۔ روزگار ختم ہو گیا۔ جن خوش قسمت لوگوں کو کام مل جاتا وہ 75 امریکی سینٹ کے لگ بھگ رقم ماہانہ کما تے تھے۔ گندم کی قیمت 3.60 ڈالر بتیس کلو گرام تھی۔ ہندوستانی اپنے ہی ملک میں پیداوار ہونے والی گند م خر یدنے سے قاصر تھے۔

یہ المیہ تاریخ میں مسلسل رونما ہو تا رہا ہے۔ مر د کا م کی تلاش میں پید ل چل کر میلوں دور واقع شہروں کو جاتے تھے۔ کام بہت تھا لیکن لوگ ان کی مجبوری سے فائد ہ اٹھا کر دو یا تین سینٹ کے عو ض سارا سارا دن جسمانی محنت کرواتے۔ جسمانی طور پر صحت مند اور مضبوط مرد تو یہ محنت کر سکتے تھے لیکن نیم فاقہ زدہ لوگوں کے لیے محنت کرنا ناممکن تھا، وہ تو کئی دنوں کے فاقے کی وجہ سے مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔ بھوک نے طو ل پکڑا تو وہی نا گزیر نتیجہ نکلا۔ مر دم خوری۔ جیسا کہ پوری انسانی تاریخ میں اکثر دیکھا گیا ہے، جب انسان بھوک سے تقریباً پاگل ہو جاتے ہیں تو انسانی گو شت کھا نے پر اتر آتے ہیں۔ ایک ہمہ گیر قحط کے دوران لاشیں ہر طرف پڑی ہوتی ہیں اور گوشت کے اس طرح کے سر چشمے کو دیر تک نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ سعادت حسن منٹو لکھتا ہے۔

دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یعنی تمام مسئلوں کا باپ اس وقت پیدا ہوا تھا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھو ٹا مگر دلچسپ مسئلہ اس وقت پر دہ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مرد کی دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ دونوں مسئلے جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ دو مختلف قسم کی بھوک کی عکاسی کرنے ہیں جن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اس وقت جتنے معاشرتی، مجلسی، سیاسی اور جنگی مسائل نظر آتے ہیں۔ ان کے عقب میں یہ ہی دو بھو کیں جلو ہ گر ہیں۔ موجودہ جنگ کا خونیں پر دہ اگر اٹھا یا جائے تو لاشوں کے انبار کے پیچھے آپ کو ملک گیری کی بھوک کے سوا کچھ اور نظر نہیں آئے گا بھوک کسی قسم کی بھی ہو بہت خطر ناک ہے آزادی کے بھو کوں کو اگر غلامی کی زنجیریں ہی پیش کی جاتی رہیں تو انقلاب ضرور بر پا ہو گا روٹی کے فاقے ہی کھینچتے رہے تو وہ تنگ آ کر دوسرے کا نوالہ ضرور چھینیں گے۔

دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں بھوک ان کی ماں ہے بھوک گداگری سکھاتی ہے بھو ک جرائم کی ترغیب دیتی ہے بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے اس کا حملہ بہت شدید اس کا وار بہت بھر پور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے دیوانگی بھوک پیدا نہیں کر تی آج کے نئے مسائل بھی گزری ہوئی کل کے پرانے مسائل سے بنیادی طور پر مختلف نہیں جو آج کی برائیاں ہیں گذری ہوئی کل ہی ان کے بیج بوئے تھے انسان ایک دوسر ے سے کو ئی زیادہ مختلف نہیں ہیں جو غلطی ایک مرد کرتا ہے دوسرا بھی کر سکتا ہے غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کا ٹتا ہے۔ ہمارے حالات عارضی بد حواسی کا نتیجہ ہیں۔ نطشے نے کہا تھا کہ تاریخ کبھی کبھی ہمارے راستے کا پتھر بن جاتی ہے اور کوئی بڑا تخلیقی کارنامہ انجام دینے کے لیے بعض اوقات تاریخ کو بھولنا ضروری ہو جاتا ہے۔

معروف ادیب کرسٹو فر ایشرو ڈ لکھتا ہے اسے سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اس کا تعلق انسانوں سے ہے انسانوں سے ، انسانی زندگی ہے، زندہ حقیقی مردوں اور عورتوں سے گو شت اور خون سے۔ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے انسانوں کے مسئلے بیشتر مشترک ہوتے ہیں ایک سے دکھ سکھ، ایک سی امیدیں اور مایو سیاں، ایک سے خواب اور ایک سی ہزیمتیں، ہمارے ملک میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کی دولت اور اختیارات جمع کر نے کی بھو ک ختم ہی نہیں ہو پا رہی ہے دوسر ی جانب و ہ کروڑوں بھوکے، ننگے، بے اختیار لوگ ہیں جو ایک ایک روٹی کے لیے بھو کے مر رہے ہیں۔ اسی بھوک نے لوگوں کو بہت تڑپایا اور تر سایا ہے لوگوں کو بہت ذلیل اور رسوا کیا ہے ان کا چین اور سکون لوٹ لیا ہے جب کہ اسی بھوک نے ملک کی اشرافیہ کو وحشی اور درند ہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اس بھوک کو ہی مار ڈالیں تا کہ ملک کے کروڑوں غریب، بے حس اور بے کس لوگوں کو چین اور سکون اور پیٹ بھر کر روٹی مل سکے اور ملک کے درندے اور وحشی دوبارہ انسان بن سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔