جو خزاں لوٹ کر گئی ہے ابھی!

نسرین اختر  جمعـء 22 فروری 2013

پھول اور پودے قدرت کی صناعی کے بہترین مظہر ہیں، قدرت نے فطری ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے ان میں ایک توازن رکھا ہے، انسان اور پودے ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، ایک دوسرے کو خوشیاں فراہم کرتے ہیں اور دکھ کی گھڑیوں میں بھی رفاقت کا بھرم قائم رکھتے ہیں، پھولوں کے مختلف رنگوں، شکل و شباہت اور ایسی ہی دیگر خوبیوں نے انسان کی تمدنی اور معاشرتی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ انسان کو مہذب بنانے میں پھولوں کا بڑا حصہ ہے۔ پھولوں کی دیدہ زیبی اور زیبائش نے حضرت انسان کے گھر، راستوں اور باغات وغیرہ کو ایسی خوبصورتی عطا کی ہے کہ پھولوں کے تنوع کی کاشت، ان کی سجاوٹ وغیرہ کو اگر معیار قرار دیا جائے تو مہذب ترین افراد اور قومیں وہی معلوم ہوتی ہیں جو پھولوں، پودوں کا استعمال ایک خاص قرینے سے اپنے گھروں، باغیچوں، دفاتر اور سڑکوں پر کرتی ہیں۔

ماحول کی خوبصورتی اور اسے متوازن بنانے میں پھولوں، پودوں کا کردار کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہمیں صاف و تازہ ہوا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول کو خوشگوار بھی بناتے ہیں، دنیا بھر میں ماہرین کے اندازے کے مطابق پھولوں کی بارہ ہزار اقسام ایسی ہیں جن سے صرف سجاوٹ، زیبائش اور حسین مناظر کا کام لیا جاتا ہے، یہ صرف وہ اقسام ہیں جنھیں ماہرین فنی زبان میں بیان کر سکتے ہیں اور ان کی جماعت بندی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں درختوں کی ہزاروں اقسام پائی جاتی ہیں، ان میں سے کچھ کا تعلق مخصوص جغرافیائی خطوں سے ہے اور کچھ ان حدود سے آزاد ہیں اور ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ جنگلات میں زیادہ تر خود رو درخت پائے جاتے ہیں جب کہ شہروں، دیہاتوں اور باغات میں ان کا وجود انسان کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے، ہر زمانے میں ماہرین معدنیات، درختوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔ درخت یا پودے لگانے کو ہر دور میں ایک مستحسن فعل قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کھلی جگہوں پر درخت لگوا دیا کرتے تھے، قدیم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بابل و نینوا کے باغات بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ وقت کے لوگوں کو بھی درختوں کی اہمیت کا بخوبی علم تھا۔

موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی شجر کاری کا آغاز ہو جاتا ہے، سیکڑوں کی تعداد میں پودے لگائے جاتے ہیں، سرکاری سطح پر سڑکوں کے کنارے یا چوراہوں میں پھولوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سجایا جاتا ہے، لیکن پھر موسم بہار کے رخصت ہونے کے بعد شہروں کی سڑکوں پر لگائے گئے سیکڑوں پودے آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتے ہیں کیونکہ پودوں کو لگانے کے بعد ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی، حالانکہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ پھول اور پودے بے حد نازک اور معصوم ہوتے ہیں ان کی نشوونما بچوں کی طرح کی جاتی ہے اور ذرا سی عدم توجہی کے باعث یہ مرجھانے لگتے ہیں، مسکراتے ہوئے رنگ برنگے کھلتے پھول موسم بہار کی آمد کا پتہ دیتے ہیں، شہری حکومت کو اس ضمن میں اپنا کردار زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ صرف پھول پودے لگانا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ انھیں لگانے کے بعد ان کی مناسب دیکھ بھال بھی ضروری ہوتی ہے۔

شجرکاری مہم میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے بلکہ کوئی بھی مہم عوام کے تعاون کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی، جب تک عوام میں یہ شعور اجاگر نہیں ہو گا کہ پھول اور پودے نہ صرف ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں بلکہ یہ ہماری صحت کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں لہٰذا ان کی دیکھ بھال ہم سب پر لازم ہے، اکثر باغوں میں پھولوں کی کیاریوں کے قریب لکھا ہوتا ہے ’’ان پھولوں کو مت توڑیئے‘‘ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ اب ترقی پذیر ممالک میں بھی پھولوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہمارے ملک کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں پھول فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں اور کئی لوگ تو فٹ پاتھ پر چھوٹی سی جگہ پر ’’فلاور ہاؤس‘‘ کا بورڈ لگا کر پھول فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ٹہنی پر سجا پھول ہی سب سے اچھا لگتا ہے کہ اس کی زندگی، اس کی رنگت، اس کی خوشبو اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس پھول کا تعلق پودے سے رہتا ہے، اس لیے ہماری عوام کا یہ فرض ہے کہ وہ پھولوں اور پودوں کی اہمیت کو سمجھیں اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ پھول ٹہنی پر کھلا ہوا ہی اچھا لگتا ہے لہٰذا انھیں توڑ کر پھینکنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ باغوں، سڑکوں کے کناروں اور چوراہوں پر کھلے پھول ماحول کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں، اور بقول شاعر:

جو خزاں لوٹ کر گئی ہے ابھی
رنگ اس نے بھی کچھ نکھارے ہیں

موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی کئی شہروں میں پھولوں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور ہر سال موسم بہار میں خوش نما پھولوں کی نمائش میں بے شمار خوش نما پھول دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ فلاور شو میں لاتعداد اقسام کے مختلف رنگوں کے پھول دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، پھولوں سے سب کو دلچسپی ہوتی ہے، رنگ برنگے خوش نما پھول سب کو پسند آتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان سے ماحول زیادہ دلکش دکھائی دینے لگتا ہے، رات کی رانی، چنبیلی، یاسمین اور گلاب تو جہاں لگے ہوں، ان کی خوشبو سب کو بھاتی ہے اور پھولوں کی یہ بہار یقینا ماحول میں تروتازگی کا احساس اجاگر کرتی ہے۔

پھولوں کا بادشاہ گلاب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کی بادشاہت کو کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا۔ اس کی شہنشایت کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا کیونکہ خوشبو کے سفیر اور محبتوں کے امین پھول جب دھرتی پر اپنا حسن بکھیرتے ہیں تو بہار کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔ فضا معطر اور خوشگوار ہو جاتی ہے۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ ’’کانٹوں سے بھری ہوئی شاخ کو ایک پھول ہی خوبصورت بنا دیتا ہے‘‘ اور یہ درست ہے کہ قدرت کے یہ عظیم شاہکار حسن فطرت سے مالا مال ہوتے ہیں۔

حسن فطرت سے انسان کی محبت ہمیشہ لازوال رہی ہے، پھول پودے انسان کی کمزوری ہیں، جہاں نظر آئے انسان قدرت کی صناعی پر مبہوت رہ جاتا ہے، پودوں اور درختوں سے انسان کی محبت فطری ہے، قدیم زمانے کا انسان بھی جنگل میں شاید قدرت کی ہری بھری گود میں کھیلا ہو گا، اس کی زندگی درختوں کے گرد گزری ہو گی۔ افتاد زمانہ سے جب وہ ہرے بھرے جنگلوں سے نکل کر میدانوں میں آ گیا اور شہری زندگی کی شروعات کی تو اپنے گھر میں وہ اس قدرت کے مظاہر کو اگانا نہیں بھولا۔ پودے ہمیشہ کھلی فضا میں پھلتے پھولتے ہیں اس کے علاوہ انھیں مخصوص ماحول یا موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدرت نے موسم بہار پھولوں کی افزائش کے لیے مقرر کیا ہے۔ موسم بہار میں لاتعداد پودے لگائے جاتے ہیں لیکن پھر یہ پودے اپنی بہار دکھانے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں اور جو پودے بچ جاتے ہیں ان کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث بہت جلد دم توڑ دیتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو کثیر رقم ضایع ہو جاتی ہے تو دوسری طرف ماحول کی آلودگی اپنی جگہ قائم رہتی ہے یعنی ماحول غیر متوازن رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں درختوں کی کمی خطرناک حد تک جا پہنچی ہے۔ اب سے پچاس پچپن برس پہلے سڑکوں کے کنارے اور پارکوں میں صرف چند اقسام کے درخت پائے جاتے تھے، ان میں نیم، برگد، پیپل، پارس پیپل اور بڑ کے درختوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ یہ درخت گھنے ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھے۔ خوش گلو پرندے ان پر اب بھی اپنے ٹھکانے بناتے ہیں کیونکہ ان پر لگنے والے پھل پرندوں کی خوراک کا کام بھی دیتے ہیں، لیکن ان درختوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، کچھ درخت اپنی طبعی عمر کو پہنچنے کے باعث ختم ہو گئے، کچھ درختوں کو آندھیوں نے اپنا نشانہ بنایا اور کچھ بے رحم انسانوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے جن کے مکانات، دکانیں یا شورومز وغیرہ کا چہرہ ان درختوں کے پیچھے چھپ رہا تھا، حالانکہ درخت تو ماحول کو تازگی کا احساس بخشتے ہیں۔

اکثر سڑکوں کی دونوں جانب سفیدے (یوکلپٹس) کے درخت نظر آتے ہیں، شہری انتظامیہ ان درختوں کو شجرکاری کے لیے اس لیے منتخب کرتی ہے کہ انھیں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بہت جلد قدآور ہو جاتے ہیں۔ درختوں کی بعض ایسی اقسام بھی پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خاص موسم، خاص ماحول اور خاص مقامات پر ہی نشو و نما پا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر میں ایسے درخت اگائے جائیں جو پھل اور پھول پیدا کرتے ہیں اور پرندوں کے ٹھکانے کا کام انجام دیتے ہیں۔

شجرکاری ماحول کو بچانے کے لیے بھی ضروری ہے اور ہمارا دینی فریضہ بھی۔ لہٰذا اپنی زندگی میں ہر فرد کو کم ازکم ایک درخت ضرور لگانا چاہیے اور اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ یہ درخت جب تک رہے گا، لگانیوالے کو ثواب بھی جاری رہے گا، درخت موسموں کو خوبصورت بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، موسم بہار کے علاوہ موسم برسات درخت اگانے کے لیے نہایت مناسب موسم ہوتا ہے۔ درخت لگائیے، ان کی حفاظت کیجیے اور ثواب کمائیے۔ درخت ہمارے ساتھی ہیں، جو ہمیشہ با وفا رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔