ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی

ہما صدیقی  جمعـء 22 فروری 2013

اس حقیقت سے ملک کا ہر شہری واقف ہے کہ صرف گزشتہ برس میں 2300 شہری کراچی میں دن دہاڑے قتل کر دیے گئے۔ جب کہ بھتہ خوری، اسٹریٹ کرائمز، بینک ڈکیتیاں اور اسی نوعیت کے دیگر سنگین جرائم کراچی کے شہریوں کا مقدر بنا دیے گئے۔ قانون نافذ کرنیوالے ادارے بے حسی اور غفلت کی مجرمانہ چادر منہ پر ڈالے سوتے رہے۔ پچھلے تین سال میں تو ایسا لگا جیسے قانون نام کی کوئی چیز اس شہر بے امان میں موجود ہی نہیں۔ یہاں پر جنگل کا قانون نافذ کر دیا گیا ہے۔ جب کہ ان اندوہناک حالات و واقعات کے باوجود کراچی کے باسیوں کے لیے یہ بات سوہانِ روح بن چکی ہے کہ مختلف مقدمات اور سنگین جرائم میں ملو ث 22 ہزار عدالتی مفرور کراچی شہر میں کھلے بندوں دندناتے پھر رہے ہیں۔

اسی تناظر میں 6 فروری بروز بدھ کو سپریم کورٹ نے حکومت سند ھ سے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اس عنوان کا اشتہار دے کہ ’’شہری اپنی ذمے داری پر گھر وں سے نکلیں‘‘ 22 ہزار ملزم آزاد گھوم رہے ہیں۔ اسی بدامنی کے باعث کراچی میں شفاف انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ عوام کا اداروں پر اعتما د ختم ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس بیان کی روشنی میں ایک آزاد اور جمہوری نظام حکومت کے تحت چلنے والے اس اسلامی ملک کی بد قسمتی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے، وہ کم ہے۔ آج اس ملک کے شہریوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور ملک کی معیشت و نیک نامی سب کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ کراچی اور کوئٹہ میں جو قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، وہ یقیناً پاکستان کو پہلے کمزور اور پھر تباہ کرنے کی گھنائونی سازش ہے۔ کوئی تو ہے جو اس قوم کو لڑوا رہا ہے۔ اس کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہاں پر مذہبی منافرت کو ہوا دے رہا ہے۔ مذہبی شدت پسندوں کوا پنا آلہ کار بنا رہا ہے، مگر حکومت ہے کہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔

کیا حکومت اس حقیقت سے انکار کر سکتی ہے کہ کراچی میں ہر سال تقریباً 60 دن ہنگاموں، مظاہروں، جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں، دہشت گردانہ تخریبی کارروائیوں اور سیاسی و مذہبی رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے تجارتی مراکز اور صنعتی مراکز اور ادارے بند رہتے ہیں؟ کیا حکومت کے علم میں نہیں ہے کہ اگر یہ مراکز اور ادارے ایک دن بند رہیں تو صنعت کاروں، دکانداروں اور تاجروں کو 10ارب روپے کا نقصان روزانہ اٹھانا پڑتا ہے، جب کہ 30 لاکھ کے قریب مزدور اور دیہاڑی دار محنت کش طبقہ بے کار اور بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ جب کہ تعلیم اور صحت دونوں شعبے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت روشنیوں کے شہر کراچی کے امن کو تاراج کیا جا رہا ہے۔ جب کہ دہشت گردوں اور کرائے کے قاتلوں کی ہولناک کارروائیوں کا مقصد پاکستان کے اقتصادی مرکز کو دہشت و وحشت اور بربریت کا نشانہ بنا کر پاکستان کی داخلی اقتصادیات کو علیل و مفلوج کرتا ہے۔

ایسے نازک اور مخدوش حالات میں ایم کیو ایم جو گزشتہ پانچ برسوں سے حکومت کی اتحادی جماعت رہی ہے تا کہ ملک میں جمہوریت کے پودے کو مضبوط و مستحکم کیا جا سکے۔ مگر افسوس! اس کی نیک نیتی اور مصلحت پسندی پر ہمیشہ سوالات اٹھائے جاتے رہے۔ اس کے قائد نے ملک کی نازک صورتحال اور اغیار کی سازشوں کی جانب اپنے ٹیلیفونک خطاب میں متعدد بار سب کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی، مگر ان کی باتوں پر کان نہیں دھرے گئے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم جس کا سب سے بڑا ووٹ بینک کراچی میں ہے، اس نے بھی بار ہا حکومت کو اس ضمن میں اپنے شدید تحفظات سے آگاہ کیا اور کئی مرتبہ احتجاجاً حکومت سے علیحدگی کا اعلان بھی کیا ۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ کسی بھی معاشرے اور مملکت کو اس وقت تک مہذب کہلانے کا حق حاصل نہیں جب تک وہاں قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔

اسی رویے کی وجہ سے معاشرے میں لاقانونیت، افراتفری، بد امنی، بے ضابطگی، بے قاعدگی اور انارکی جیسے عفریت فروغ پاتے ہیں جس کی بہترین مثال پاکستانی معاشرہ بن چکا ہے۔ کراچی جو شہر قائد ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ایک Mega City اور اقتصادی حب کا درجہ حاصل کر چکا تھا، شہر میں مستقل بد امنی اور لا قانونیت کی وجہ سے اس کا ہر شہری بری طرح مجروح ہوتا جا رہا ہے جب کہ معاشی حب کی تباہ و برباد صورتحال سے پورے ملک کی معیشت لرزہ براندام ہے۔ اس حقیقت سے کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ امن و امان کی بحالی ہی جمہوریت، ملکی بقاء و سلامتی اور معیشت کی بحالی کے لیے ضامن بن سکتی ہے۔

کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ایم کیو ایم کے وفود نے بار ہا صدرِ مملکت سے مل کر کراچی میں ہونے والی دہشت گردی اور بد امنی پر اپنے شدید تحفظات اور مستقبل کے لیے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے مگر صدرِ مملکت اور حکومتی حلقوں کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود بھی کراچی میں بھتہ خوری زمینوں پر قبضہ، ٹارگٹ کلنگ اور ناجائز اسلحے کی فراوانی میں نہ تو کوئی کمی آئی ہے اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لیے حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔

یہ ایک ایسی زمینی حقیقت ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں کہ کراچی پاکستان کا واحد اور سب سے بڑا شہر ہے جہاں غیر قانونی اسلحہ سب سے زیادہ موجود ہے، مگر اس کی ترسیل کو روکا نہیں جاتا۔ اس لیے یہ ایک انتہائی ناقابل تردید سچائی ہے کہ شہر قائد مختلف مافیاز کے نرغے میں ہے جب کہ ایم کیو ایم کا سب سے زیادہ ووٹ بینک ہونے کے باوجود بھی اس کے پاس لاء اینڈ آرڈر کو کنٹرول کرنے کے لیے اختیارات موجود نہیں ہیں۔ کراچی میں ہر روز 125سے 150کروڑ تک کی رقم بھتہ مافیا کو شہری اور کاروباری حضرات و تاجر جان و مال کے خوف سے دینے پر مجبور ہیں۔ شہر قائد کو مافیاز کے محاصرے سے نجات دلانے کے لیے کراچی کی مؤثر اور با رسوخ جماعتوں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے تا کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے اور اسے دہشت گردوں کی یرغمالی سے چھڑانے کے لیے ٹھوس، مثبت اور عملی کردار ادا کیا جا سکے۔

ویسے بھی عام انتخابات کے انعقاد کا مرحلہ قریب آ رہا ہے۔ اسے خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کراچی میں بد امنی یونہی برقرار رہی تو شفاف انتخابات کا بر وقت انعقاد مشکوک ہو سکتا ہے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں امن کے لیے سخت ترین اقدامات کیے جائیں اور جرائم پیشہ افراد اور دہشت گرد عناصر کے خلاف مربوط ٹارگیٹڈ کارروائیاں ہنگامی بنیادوں پر کی جائیں۔ اگر اس سے روگردانی کی گئی تو حالات خطرناک رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ معاشی حب کراچی امن و امان کا گہوارہ ہو اور سماج دشمن عناصر کے خلاف ٹھوس اقدامات کر کے انھیں فی الفور کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔