مادری زبانوں کا عطیہ

عابد محمود عزام  جمعـء 22 فروری 2013

اگرچہ انسانوں کے علاوہ مختلف جاندار بھی آپس میں ترسیلِ معلومات کرتے ہیں مگر زبان (language) ایک ایسے نظام کو کہتے ہیں جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے کے ساتھ مختلف آوازوں اور اشاروں کی مدد سے تبادلہ معلومات و خیالات کرتے ہیں۔ مختلف زبانوں کی تخلیق و ترقی کا تجزیہ لسانیات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں زبان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زبان کے بارے میں قرآن کریم کی سورۃ الروم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اس (اللہ) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ اس آیت میں زبان کے اختلاف کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ رحمٰن میں تخلیق انسان کے بعد جس پہلی بڑی نعمت خداوندی کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اس کے نطق و بیان کی قوت ہے۔ زبان کے بارے میں ہی ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: ’’ہم نے ہر رسول کو ان کی مخاطب قوم کی زبان ہی میں (دعوت دینے کے لیے) بھیجا۔‘‘ (سورۃ ابراہیم 14:4)

دنیا میں کتنی ہی قومیں ہیں اور ہر ایک قوم زبان کے اعتبار سے اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت و روایات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔

یونیسکو کے مطابق 1950ء سے لے کر اب تک 230 مادری زبانیں ناپید ہو چکی ہیں۔ ’’اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر 2009ء ‘‘ کے مطابق دنیا میں 28 پاکستانی زبانوں سمیت دنیا کی 36 فیصد (2498) زبانوں کو اپنی بقاء کے لیے مختلف النوع کے خطرات لاحق ہیں، 24 فیصد (607) زبانیں غیر محفوظ جب کہ25 فیصد (632) ناپیدی کے یقینی خطرے سے دوچار ہیں، اس کے علاوہ 20 فیصد (562) زبانوں کو خاتمہ کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 21.5 فیصد (538) زبانیں تشویش ناک حد تک خطرات کا شکار ہیں جب کہ 230 تقریباً (10 فیصد) زبانیں متروک ہو چکی ہیں۔ یوں دنیا میں بولی جانے والی 57 فیصد زبانوں کو محفوظ گردانہ جاتا ہے۔ ہر زبان اپنے مطالب اور گرائمر رکھتی ہے اور ہر زبان کی ادائیگی اور لہجہ بھی مختلف ہے۔

یہ زبانیں زیادہ تر قوموں اور خطوں کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں ۔دنیا میں سب سے زیادہ 860 زبانیں پاپوا نیوگنی میں بولی جاتی ہیں جو کل زبانوں کا 12 فیصد ہے جب کہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیاء دوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جب کہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11 ویں اور اردو 19 ویں نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ صرف 57 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور صرف 8 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو کل عالمی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔

سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جب کہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہند کو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات، صوبہ سرحد، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 28 چھوٹی مادری زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے، ان میں سے 7 زبانیں غیر محفوظ گردانی جاتی ہیں جن کو بولنے والے 87 ہزار سے 5 لاکھ تک ہیں، اس کے علاوہ 14 زبانوں کو خاتمے کا یقینی خطرہ لاحق ہے جن کو بولنے والوں کی تعداد کم سے کم 500 اور زیادہ سے زیادہ 67 ہزار ہے جب کہ 6 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے 200 سے 5500 کے درمیان ہیں، یہ زبانیں ختم ہونے کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔

مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جب کہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں، امریکا کی 191 برازیل کو 190 انڈونیشیا کی 147 اور چین کی 144 زبانوں کی بقاء کو خطرہ ہے۔برطانوی قومی شماریات کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد افراد کی ایک بڑی تعداد عام بول چال کے لیے پنجابی زبان استعمال کرتی ہے اور پنجابی زبان برطانیہ کی تیسری بڑی زبان کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کو برطانیہ میں چوتھی بڑی زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ برطانیہ کا مرکزی شہر لندن پاکستان کی متفرق قومیتوں کا گھر سمجھا جاتا ہے جن میں پنجابی، پٹھان، کشمیری، سندھی اور اردو بولنے والے شامل ہیں۔انگریزی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان ہے، یہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں انگریزی بولنے والے افراد کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہو گئی ہے۔

تقریباً 35 کروڑ 40 لاکھ افراد کی مادری زبان انگریزی ہے جب کہ باقی لوگ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولتے ہیں۔ زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے Enthologue کے مطابق ملکوں کے حوا لے سے انگریزی سب سے زیادہ 112 ممالک میں بولی جاتی ہے، اس کے بعد 60 ممالک میں فرنچ، 57 میں عربی، 44 میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44 ممالک میں بولی جاتی ہے جب کہ اردو 23 ہندی 20 اور پنجابی 8 ممالک میں بولی جاتی ہے۔دْنیا میں اتنی زیادہ زبانوں کا پیدا کرنا یقیناً اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں اپنی زبان اور اپنے لہجے سے پہچان لیا جاتا ہے، صرف زبان ہی اس کا مکمل تعارف کرا دیتی ہے۔ زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے۔ قومیتی شناخت اور تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے، مادری زبانوں کو انسان کی دوسری جلد بھی کہا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مادری زبان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الٰہی عطیہ ہے۔ آج انسان جس ترقی پر پہنچا ہے اس میں زبان کا ایک بڑا حصہ ہے۔ مادری زبان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ لسان (زبان) کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنی زبان پر فخر کرے اور دوسرے کی زبان کو حقیر جانے، اس زبان کو ہی بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے قتل و قتال کرنے لگے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ لسانیت کا تو دوست ہو سکتا ہے لیکن انسانیت کا ہرگز دوست نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔