سپریم کورٹ کے چشم کشا ریمارکس

ایڈیٹوریل  جمعـء 22 فروری 2013
قتل و غارت اور بدامنی سے تنگ عوام اگر اپنے تحفظ کے لیے فوج کو بلانے کی بات کرتے ہیں تو اسے غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوٹو: فائل

قتل و غارت اور بدامنی سے تنگ عوام اگر اپنے تحفظ کے لیے فوج کو بلانے کی بات کرتے ہیں تو اسے غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان کے یہ ریمارکس کہ ہم جمہوریت اور پارلیمانی نظام مستحکم کرنا چاہتے ہیں لیکن آج فوج کو لانے کے نعرے لگ رہے ہیں‘ ملک مفلوج ہو چکا ہے‘ ملک کی سیاسی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ داخلی سطح پر اس ملک کی جو حالت ہے‘ برسر اقتدار سیاسی قیادت اس کی ذمے داری سے خود کو الگ نہیں کر سکتی۔ ملک میں نان اسٹیٹ ایکٹرز اگر طاقتور ہیں تو ان کی بیخ کنی کرنا بھی اسی برسر اقتدار قیادت کی ذمے داری ہے جن کے ہاتھ میں ریاستی اداروں کی کمان ہے۔

بلوچستان ہی نہیں بلکہ کراچی میں بھی قتل و غارت جاری ہے۔ یہ کونسی قوتیں ہیں‘ ان کا بھی حکمرانوں کو خاصی حد تک علم ہے‘ قتل و غارت اور بدامنی سے تنگ عوام اگر اپنے تحفظ کے لیے فوج کو بلانے کی بات کرتے ہیں تو اسے غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ادھر سیاسی قیادت کی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی ذمے داریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے سارا ملبہ ایجنسیوں پر ڈال دیتے ہیں‘ ایسا کہتے ہوئے وہ لفظ ایجنسیاں بولتے ہیں‘ اب عام آدمی کو کیا پتہ کہ کس ایجنسی کا کیا مینڈیٹ ہوتا ہے اور وہ اس کا اطلاعات کے حصول اور اسے متعلقہ حکام تک پہنچانے کا کیا میکنزم ہوتا ہے۔

ملک میں ایک نہیں بلکہ کئی ایجنسیاں کام کر رہی ہیں اور ہر ایک کا دائرہ کار مختلف ہے‘ اس لیے کسی وزیر یا دوسرے اعلیٰ عہدے دار کو کسی حساس معاملے پر زبان کھولتے ہوئے اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ سے ابہام پیدا نہ ہو۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کی سماعت ان کیمرہ کرنے کی استدعا اور اس کے حوالے سے گورنر بلوچستان کی رپورٹ مسترد کر دی ہے‘ عدالت عظمیٰ کے یہ ریمارکس بھی اخبارات کی زینت بنے ہیں کہ خفیہ اداروں نے انتظامیہ کو دہشت گردی کے واقعے کے بارے میں اطلاع دے دی تھی‘ لیکن پھر بھی اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ یوں دیکھا جائے تو سکیورٹی کے ایشو پر بھی غفلت‘ لاپروائی کا عنصر موجود ہے۔

سیاسی قیادت روایتی انداز میں حکمرانی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور جس قسم کے چیلنجز کا اسے سامنا ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے‘ ادھر بیورو کریسی بھی روایات کی اسیر ہے‘ اس کی تعلیم و تربیت کا انداز وہی ہے جو سرد جنگ کے زمانے میں تھا‘ اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے‘ اس لیے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں کی تربیت و تعلیم کا انداز بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں سکیورٹی کے ایشوز سے متعلقہ اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کی تربیت ایسی ہو کہ وہ نظریاتی اعتبار سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے نظریات کے مخالف ہوں تا کہ وہ نان اسٹیٹ ایکٹر کو عام جرائم پیشہ گروہوں سے الگ کر کے ان کا تعاقب کریں‘ اس طرح سیاسی قیادت کو بھی ڈیرے دارانہ طرز سیاست کو خیر باد کہنا ہو گا‘ سیاسی قیادت اب بھی جوڑ توڑ کو ہی سیاست سمجھتی ہے‘ وہ الیکشن کو بھی چالاکی اور ہوشیاری کا کھیل سمجھتی ہے‘ ایک جماعت دوسری جماعت کے با اثر افراد کو توڑ کر سمجھتی ہے کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو جائے گی لیکن اسے معلوم نہیں ہے کہ سیاسی قیادت کے لیے الیکشن میں کامیابی ہی امتحان نہیں ہوتا بلکہ حکومت بنا کر ڈلیور کرنا اصل امتحان ہوتا ہے۔

ریلوے کی جو حالت ہے‘ کیا اس میں بھی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا دخل ہے‘ توانائی کا بحران بھی اس لیے کہ حکمران کو خفیہ ایجنسیوں نے بروقت اطلاع نہیں دی تھی‘ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرے‘ جہاں اس کی ناکامی ہے۔ اسے کھلے دل سے تسلیم کرے‘ دہشت گردی کے خلاف لڑائی بالکل مختلف چیز ہے‘ اخبارات میں ایسی اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں کہ بعض با اثر لوگ ایسی تنظیموں کی سر پرستی کرتے ہیں جو فرقہ واریت یا دہشت گردی میں ملوث ہیں‘ ادھر ملک کی حالت یہ ہے کہ کہیں فاٹا ہے‘ کہیں پاٹا ہے‘ کہیں اے ایریا ہے‘ کہیں بی ایریا ہے‘ اس قسم کی انتظامی تقسیم میں اس قدر ابہام ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے افراد کی بھاری اکثریت کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کس علاقے میں کونسی سرکاری مشینری کام کر رہی ہے‘ سیاسی قیادت کو اس ابہام کو دور کرنا چاہیے۔ بلوچستان میں اگر انتظامی لحاظ سے کچھ قانونی اور آئینی رکاوٹیں موجود ہیں تو انھیں دور کیا جانا چاہیے‘ اس معاملے میں ریاستی طاقت کے ساتھ ساتھ بات چیت کے راستے کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ناراض افراد کو بھی دلائل سے قائل کیا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی دلیل اور استدلال کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر آخری آپریشن کو استعمال میں لایا جانا چاہیے۔ اس طرح فاٹا کے بارے میں بھی قانون سازی کی جانی چاہیے۔ یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ اگر سیٹلڈ ایریاز کے ساتھ سیف ہیونز (Safe Heavens) ہوں گی تو پھر یہ علاقے کبھی امن سے نہیں رہ سکتے‘ اگر کوئی علاقہ پاکستان کا حصہ ہے تو وہاں پاکستان کا قانون بھی نافذ ہونا چاہیے‘ انگریز کے دور کے اپنے تقاضے تھے‘ اس نے قبائلی نظام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے جو قوانین بنائے تو ان پر عمل کر کے بھی دکھایا‘ آج حالات مختلف ہیں‘ اب ملک، مشران جوابدہی کے عمل میں شامل ہیں نہ قبائلی عوام‘ اس صورت حال کو تبدیل کیا جانا چاہیے‘ اس حوالے سے اب وقت آ گیا ہے کہ پورے ملک پر آئین کی بالادستی قائم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ اگر حکمران اسمبلیوں میں بیٹھ کر مراعات اور استحقاق کی باتیں کرتے رہیں گے‘ اپنے مفادات کے لیے قانون سازی کریں گے تو پھر ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے نہ جمہوری نظام پروان چڑھ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔