ترقی یافتہ دنیا سے پسماندہ دنیا کے سوال

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 22 فروری 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکا جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں میں دنیا کے جدید ترین دفاعی نظام ’’میزائل شکن دفاعی نظام‘‘ کو ناکام بنانے والے نظام اور ٹیکنالوجی کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔دنیا میں سردجنگ کے خاتمے کا جشن بھی جاری ہے اور گرم جنگ کی تیاریاں بھی اپنے عروج پر پہنچتی نظر آرہی ہیں۔ امریکا اور جنوبی کوریا کی ان مشترکہ جنگی مشقوں کے جواب میں شمالی کوریا نے اپنا تیسرا ایٹمی دھماکا کرکے امریکا کو یہ بتا دیا ہے کہ اگر تم ہمارے پڑوس میں ہمارے نصف بہتر جنوبی کوریا کے اشتراک سے فوجی مشقیں کرکے ہمیں ڈرانا چاہتے ہو تو ہم اب تم سے اور تمہاری سیاست سے ڈرنے والے نہیں، ہمارا تیسرا ایٹمی تجربہ آپ کی مشترکہ جنگی مشقوں کا ایک ایسا جواب ہے جس کی معنویت تمہیں یہ سمجھنے پر مجبور کردے گی کہ اب دنیا کسی سپر پاور کی مرضی پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔

امریکا اور جنوبی کوریا کی مشترکہ جنگی مشقیں اور شمالی کوریا کا 7-6 کلو ٹن ایٹمی دھماکا محض جنوبی اور شمالی کوریا کی عداوت اور جنوبی کوریا اور امریکا کی بامعنی دوستی کے مظاہرے ہی نہیں بلکہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیلنے کی ایک خطرناک حماقت بھی ہے۔ ابھی ابھی ہندوستان نے اگنی 6 کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ میزائل 5500 کلومیٹر تک وار ہیڈ لے جانے کی بھاری جنگ میں بھارتی اگنی 6 میزائل بلاشبہ بھارت کے دفاعی شعبے اور وار ٹیکنالوجی کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کو 5500 کلومیٹر تک جانے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے؟ بھارت کے روایتی حریف تو اس کی سرحدوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ امریکا اس کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور دوسرے مغربی ممالک سے اس کی دوستی ہے، پھر اتنے طویل فاصلے پر اس کا کون سا دشمن موجود ہے؟ اس سوال کا ذہن میں پیدا ہونا فطری ہے۔

پاکستان کی دفاعی نفسیات میں بھارت کی جنگی سیاست کا فوری جواب دینا اہم ضرورت ہے، سو اس نے ایک طاقتور لیکن کم فاصلے کے میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے بھارت کے اگنی 6 کا جواب دے دیا ہے، ہم حتف، اگنی، پرتھوی، غوری میزائلوں کے اس احمقانہ مقابلوں کو بھی اتنا ہی خطرناک سمجھتے ہیں جتنا امریکا جنوبی کوریا کی مشترکہ جنگی مشقوں اور شمالی کوریا کے تیسرے ایٹمی دھماکے کو۔ اور ساری امن پسند طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ میزائلوں اور میزائل ڈیفنس سسٹم اور اس ڈیفنس سسٹم کو ناکام بنانے کے جدید امریکی نظام سمیت جدید ہتھیاروں اور ایٹم بم تیار کرنے اور ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیروں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں۔

چین اور جاپان بھی ایشیاء کے دو بڑے اور طاقتور ملک ہیں لیکن ایک چھوٹے سے جزیرے کی ملکیت کے حوالے سے تیزی کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکا ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے عشروں سے اقتصادی اور سیاسی دباؤ کا ہتھیار استعمال کر رہا ہے ۔

اس پس منظر میں دو اور اہم خبریں ہمارے سامنے موجود ہیں ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ بھارت 180 ارب روپوں کا اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ دوسری خبر کے مطابق بھارتی حکومت نے اٹلی سے اگسٹا ہیلی کاپٹروں کی خریداری میں کی جانے والی بھاری کرپشن کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ دوسری طرف اٹلی کی دفاعی کمپنی کے سربراہ کو بھارت سے کیے جانے والے دفاعی سودے میں بھاری رشوت لینے پر نظر بند کردیا گیا ہے، یہ دو تین خبریں بظاہر الگ الگ نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ساری خبریں سرمایہ دارانہ نظام کی ان جنگی نفسیات کا اظہار ہیں جو دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف بھی دھکیلتی ہیں اور کرپٹ نظام کی گندگی کو بھی باہر لاتی ہیں جو پاکستان سمیت ساری دنیا میں سیاسی ڈنگی کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ امریکا کے صدر بارک اوباما دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ امریکا جنگوں کے تباہ کن دور سے نکل کر امن اور ترقی کے دور میں داخل ہورہا ہے۔کیا بارک اوباما کی یہ خواہش امریکا جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے آخری حد تک جانے اور شمالی کوریا کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کی کوششوں سے مطابقت رکھتی ہیں؟

بلاشبہ دنیا میں جو ایٹمی ہتھیار کے ذخیرے موجود ہیں وہی دنیا کو ہزاروں بار تباہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور ایسی خطرناک صورت حال میں اور ملکوں کا ایٹمی طاقت بننا کسی طرح بھی نیک شگون نہیں کہلاسکتا، لیکن کیا امریکا شمالی کوریا اور ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی کوششوں کے پس منظر اور ان عوامل سے لاعلم ہے جو ان ملکوں کو ایٹمی ملک بننے کی طرف لے جارہی ہیں؟ ایسا نہیں ہے بلکہ امریکا کی حکومت اور اس کے تابعدار فرمانبردار اتحادی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کیوں ایٹمی طاقت بننا چاہتا ہے؟ کیا ان دونوں ملکوں کو ایٹمی ہتھیاروں کی طرف دھکیلنے کی ذمے داری خود امریکا کی امتیازی پالیسیوں پر عائد نہیں ہوتی جو اسرائیل کو تو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دیکھنا چاہتی ہے، ایران اور مشرق وسطیٰ کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیاروں کو جرم گردانتی ہے۔ جنوبی کوریا کے ساتھ تو مشترکہ فوجی مشقیں کرتی ہے اور شمالی کوریا کے ایٹمی دھماکوں کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔ دہشت گردی کو تو دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتی ہے اور یہ ذمے داری قبول نہیں کرتی کہ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے خود اسی نے دہشت گردوں کو پالا پوسا اور جوان کیا۔دنیا بلاشبہ ایک طویل اور نقصان رساں سرد جنگ کے دور سے باہر آئی ہے جس نے انسانوں کی زندگی بہتر بنانے اور دنیا سے غربت ختم کرنے کے سارے وسائل کو ہڑپ کرلیا تھا لیکن سردجنگ کے خاتمے کے بعد ساری دنیا جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے جس راستے پر چل رہی ہے، امریکا میزائل ڈیفنس سسٹم کو ناکام بنانے کے لیے جو جدید ترین نظام متعارف کرا رہا ہے، شمالی کوریا تیسرا ایٹمی تجربہ کررہا ہے اور ایران ایٹمی طاقت بننے کو اپنا حق سمجھتا ہے،پاکستان اور بھارت جیسے پسماندہ ترین ممالک نہ صرف ایٹمی طاقت بن چکے ہیں بلکہ اگنی، حتف، پرتھوی، غزنی میزائلوں کی دوڑ میں مبتلا ہیں۔ بھارت ایک کے بعد ایک جو ہتھیاروں کے 180 ارب سے زیادہ بھاری معاہدے کر رہا ہے، چین اور جاپان ایک چھوٹے سے جزیرے کے لیے جس طرح محاذ آرائی میں مبتلا ہیں، مشرق وسطیٰ جس طرح اضطراب اور افراتفری کا شکار ہے، شمالی مالی میں جو کچھ ہورہا ہے، کیا یہ سارا خطرناک منظرنامہ سردجنگ کے منظرنامے سے کم خطرناک ہے؟

دنیا کی آبادی کا تین چوتھائی حصہ غربت، بھوک، بیماری، جہالت اور تعصبات کے جہنم میں جل رہا ہے، ایک ملک کے عوام کو دوسرے ملک کے عوام کے خلاف اکسایا جارہا ہے، کیا ان محرومیوں، ان نقصانات، ان دوریوں کو اس نئی اور بے نام سردجنگ کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے، کیا جنوبی کوریا کی حمایت کے ساتھ شمالی کوریا کو ایٹمی تجربوں سے روکا جاسکتا ہے، کیا فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر اور اسرائیل کی ناک میں نکیل ڈالے بغیر ایران کی ایٹمی پیش رفت کو روکا جاسکتا ہے، کیا کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو حل کیے بغیر دہشت گردی کو روکا جاسکتا ہے، کیا جمہوریت کو ’’عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے ‘‘ بنائے بغیر عوام کو جمہوریت کے خلاف نفرت کرنے سے روکا جاسکتا ہے، کیا دنیا سے 98/2 کی تقسیم ختم کیے بغیر طبقاتی نفرتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ یہ اور اس قسم کے کئی سوال آج بارک اوباما اور سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے کھڑے جواب طلب کر رہے ہیں، کیا بارک اوباما اور مغربی ترقی یافتہ دنیا کے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔