قیدی بیٹی کی یاد

سردار قریشی  بدھ 20 ستمبر 2017

25 جنوری 1993ء کو، امریکی ریاست ورجینیا میں سی آئی اے ہیڈکوارٹر پر حملہ کرکے اس کے 2 اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے بلوچ نوجوان، ایمل کانسی کو جب فاروق لغاری کے دورِ صدارت میں پاکستان سے گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا گیا تو وہاں کے میڈیا نے اس کا سارا کریڈٹ صدر لغاری کو دیتے ہوئے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ اْس کی گرفتاری ڈالروں کے عوض عمل میں آئی جو خود صدر نے ہی وصول کی۔ ایمل کانسی کا تعلق چونکہ بلوچستان سے تھا، اس لیے عام خیال یہ تھا کہ وہ وہیں کہیں روپوش ہوگا، سی آئی اے اور پاکستانی ایجنسیوں نے اْس کی تلاش میں بلوچستان کا چپہ چپہ چھان مارا جب کہ وہ ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل میں بے خوف و خطر بحیثیت مہمان ٹھہرا ہوا تھا۔ امریکی میڈیا میں اس حوالے سے جو قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں ان میں فاروق لغاری پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ایمل کانسی کو اپنے زیرِ اثر علاقے میں انھوں نے ہی پناہ دی تھی اور جب سودے بازی کے نتیجے میں انھیں منہ مانگی قیمت ادا کر دی گئی تو انھوں نے اپنے مہمان کو امریکا کے حوالے کردیا۔

ایک بھارت نواز امریکی رکن کانگریس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی حوالے کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ بعد میں فاروق لغاری اور اْن کا دور تو قصہ پارینہ بن گئے، لیکن جب نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی آمر، جنرل پرویز مشرف نے گنجے آرمٹیج کی ٹیلیفونک دھمکی پر امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکے تو اْس رکن کانگریس کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہوگئی اور ڈرپوک جنرل نے چند ڈالروں کے عوض قوم کی بہادر بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سفاک امریکیوں کے حوالے کردیا، جوگزشتہ 15 برس سے ان کی قید میں ہیں اور خود پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم و ستم جرات و استقامت سے سہہ رہی ہیں۔ عزم و ہمت کی پیکر پاکستان کی اس مظلوم بیٹی کی داد رسی کے لیے اب تک قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بہت کچھ لکھا، کہا، دیکھا اور سنا جاچکا ہے لیکن اس سے اب تک ان کی رہائی اور وطن واپسی کے ضمن میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوسکی۔

اس ناکامی کی ذمے دار اس دوران پاکستان میں یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی حکومتیں اور ان کے سربراہ ہیں جن کی غلامانہ ذہنیت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ٹیکساس کی کارزویل جیل میں ناکردہ گناہ کی پاداش میں سنائی گئی 86 سالہ سزا کاٹنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ یوں ستمبر 2017ء میں منائی گئی عیدِ قرباں، 30 ویں عید تھی جوانھوں نے امریکی قید میں گزاری۔عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کی راہ تکنے والی اْن کی عمر رسیدہ و ناتواں مگر با ہمت ماں عصمت صدیقی اور ماں کی جدائی میں بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کرنے والے اْن کے بچے مریم اور احمد کے جذبات و احساسات کچھ وہی سمجھ سکتے ہیں جو نہ صرف خود صاحبِ اولاد ہوں بلکہ پہلو میں حساس دل بھی رکھتے ہوں۔

عید سے کچھ روز قبل جب مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی وہ ای میل موصول ہوئی جس میں انھوں نے مریم کے اپنی پاکٹ منی سے اپنی امی کی طرف سے قربانی کرنے کے ارادے کے بارے میں بتایا تھا، تو یقین کیجیے مجھ پر سکتہ سا طاری ہوگیا اور شدتِ جذبات سے میرا ذہن ماؤف اور جسم بے جان ہوگیا۔ اللہ کسی صاحب اولاد کو یہ دن نہ دکھائے، واقعی مریم اور احمد جس طرح اپنی امی کو یاد کرتے اور ان کی کمی محسوس کرتے ہوں گے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

ڈاکٹر عافیہ کے اغوا اور بعد ازاں ان کی پہلے افغانستان اور پھر امریکا منتقلی سے لے کر امریکی عدالت میں ان پر چلائے جانے مقدمے کی کارروائی اور اس کے نتیجے میں سنائی جانے والی غیرمعمولی دراز انسانی عمر سے بھی زیادہ مدت کی سزا تک جو ڈراما رچایا گیا اس پر دنیا بھر میں کہیں بھی کسی نے یقین نہیں کیا اور تو اور خود امریکا میں بھی ایسی صدائیں بلند ہوتی سنائی دیں کہ عافیہ مظلوم اور بے گناہ ہے۔ اس کی گواہی دینے والوں میں امریکا کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک، معروف امریکی دانشور اور انسانی حقوق کیلیے کام کرنے والے موری سلاخن، امریکی قانون دان ٹینا فوسٹر، کیتھی مینلے، اسٹیون ڈاؤنز، کانگریس کی خاتون رکن سنتھیا مکینی، امریکی مصنفہ سارہ فلونڈرس اور کئی ایک دوسری اہم برطانوی شخصیات شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے بہت سے مواقعے ضایع کر دیے۔

اْن کی تمام تر نالائقیوں کے باوجود قدرت نے انھیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قیدِ ناحق سے چھڑانے کا ایک اور موقع عطا کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات اور دھمکیاں بے وجہ نہیں ہیں، سب جانتے ہیں کہ امریکا اپنے پٹھو ڈاکٹر شکیل آفریدی کو آزاد کرانا چاہتا ہے جس کے معاملات طے کرنے کیلیے عالمی ذرایع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم کے مشیر طارق فاطمی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار امریکا کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔

16 مارچ 2011ء کو پاکستانی حکمرانوں نے جس طرح ریمنڈ ڈیوس کو عدالتی فیصلے کی آڑ میں ملک سے فرار کرایا وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔6 سال بعد حال ہی میں اس کی کتاب ’’دی کنٹریکٹر‘‘ منظرعام پر آئی ہے جس میں اس نے اپنی رہائی میں کردار ادا کرنے والی پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے کردار پر سے پردہ اٹھایا ہے جس کی تفصیلات پڑھ کر ہر باضمیر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس ریمنڈ ڈیوس کے عوض ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروانے اور وطن واپس لانے کا سنہری موقع تھا جو ان عاقبت نااندیشوں نے ضایع کر دیا۔

اگر وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تو ریمنڈ ڈیوس کے پاس کتاب لکھنے کا کوئی جواز بھی باقی نہ رہتا۔ 2016ء میں امریکی انتظامیہ اور خود صدر باراک اوباما، ڈاکٹر عافیہ کو با عزت طور پر پاکستان کے حوالے کرنے پر آمادہ تھے، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول بس ذرا سی اخلاقی جرات اور سیاسی بصیرت کی ضرورت تھی۔ عافیہ کے امریکی وکلاء اسٹیون ڈاؤنز اور کیتھی مینلے سے امریکی انتظامیہ نے خود رابطہ کرکے صدارتی معافی کے سلسلے میں پاکستان کے صدر یا وزیراعظم کی جانب سے ایک خط کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے باراک اوباما حکومت پاکستان کی باضابطہ درخواست کے بغیر عافیہ کو رہا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ یہی وہ موقعہ تھا جب پاکستانی حکام نے عافیہ کے خاندان کو یقین دلایا کہ وہ شکیل آفریدی کی رہائی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کو آزاد کرانے کیلیے امریکا سے معاملات طے کر رہے ہیں، بس وہ تھوڑا اور صبروتحمل کا مظاہرہ کریں اور انتظار کریں۔

امریکا کے مطالبے اور دباؤ پر شکیل آفریدی کی رہائی کے معاملات اب بیک ڈور چینل پر طے کیے جا رہے ہیں جس کا امریکی حکام بلا جھجک اظہار بھی کرتے ہیں جب کہ ہمارے حکمران اس معاملے میں شرمناک رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح شکیل آفریدی کے بدلے بھی ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلانے میں ناکام رہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی پٹھوکی یکطرفہ رہائی اقوامِ عالم میں ملک اور قوم کیلیے انتہائی ذلت و رسوائی کا باعث بنے گی، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ اور بحیثیت مجموعی پوری پاکستانی قوم اس حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہے اور شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کہیں ایک بار پھر ڈالروں کے بدلے قومی وقارکا سودا تو نہیں کیا جا رہا؟ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ڈالروں کے عوض عافیہ کو امریکا کے حوالے کرکے مسلمانوں کی تاریخ میں بیٹی فروشی کی جو پہلی مثال قائم کی تھی، اور جس کا اْس نے برملا اعتراف بھی کیا تھا، وہ حکومت کے چہرے پر ذلت و رسوائی کا بد نما داغ ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ اْس کے جانشین اس داغ کو دھو پاتے یا نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔