راشد منہاس

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 21 ستمبر 2017

پائلٹ آفیسر راشد منہاس نے 29 اکتوبر 1959ء کو جب وہ پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں پڑھ رہے تھے، اپنے چھوٹے بھائی راحت اور انجم کو ایک خط لکھا۔ خط کیا تھا ان کی سوچ اور جذبات کی عکاسی تھی۔ انھوں نے لکھا ’’تم اس دنیا میں آنے کا کوئی نہ کوئی مقصد رکھتے ہو۔ تمہارے یہاں ہونے کی وجہ ہے اور اس کی تکمیل کرنا تمہارا کام ہے۔ تم خود فیصلہ کرو کہ اس دنیا کی دیو ہیکل مشینری میں تم کہاں فٹ ہوتے ہو۔ بہت جلد لوگوں کی نظر انتخاب تمہاری جانب ہوگی۔ ہوسکتا ہے قوم کی رہنمائی کے لیے۔ ان کی توقعات پر پانی نہ پھیر دینا۔ یہ تمہارے ذمے ایک اُدھار ہے۔ تمہارے گھرانے کا، تمہارے وطن کا، دنیا کا کہ تم کچھ بنو اور اپنے آپ کو اس کااہل ثابت کرو، یہ تمہاری ذات کا حق بھی ہے۔ عظیم آدمی پیدا نہیں ہوتے۔ وہ اپنے آپ کو عظیم بناتے ہیں۔ ایک ایسا انسان بنوکہ لوگ تم پر فخرکریں۔‘‘

ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ راشد منہاس نے اپنے وطن اور اپنی فوج کی جس سے ان کا تعلق تھا آبرو کی خاطر جان دے کر دکھادیا کہ وہ انسان کیسے ہوتے ہیں جو عظیم ہوتے ہیں اور جن پر فخر کیا جاتا ہے۔

خرم علی شفیق نے اس شہید وطن پائلٹ کی کہانی اپنی کتاب ’’راشد منہاس‘‘ میں بیان کی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جس کا پیش لفظ راشد منہاس خود لکھ گئے تھے۔ راشد منہاس کے والد کا نام عبدالمجید تھا۔ وہ راجپوتوں کے قبیلے ’’منہاس‘‘ سے تعلق رکھتے۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ سول انجینئر کی حیثیت سے برٹش آرمی میں شامل ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ انھوں نے عراق اور ایران میں گزارا، برما اور آسام کے محاذوں پر بھی خدمات انجام دیں، دہلی میں پوسٹنگ تھی۔ پاکستان وجود میں آیا تو اپنی بیوی رشیدہ بیگم کے ساتھ کراچی آچکے تھے۔

ان کی تین ننھی سی بیٹیاں تھیں۔ پہلا بیٹا 1951ء میں پیدا ہوا۔ یہ راشد تھے۔راشد بڑے ہوئے اسکول جانے لگے۔ مجید صاحب کے تبادلے ہوتے رہے، بہاولپور، لاہور پھر راولپنڈی اور کراچی ان کے اسکول کالج بھی بدلتے رہے۔ خرم علی شفیق نے راشد کی کہانی بڑی کاوش سے لکھی ہے۔ دوستوں کی مدد لی، گھر والوں سے پوچھا، پھر خود راشد کے خطوط اور ان سے بڑھ کر ان کی ڈائریوں سے ان راہوں کو تلاش کیا جن پر چلتے ہوئے راشد منہاس اس منزل پر پہنچے جہاں پہنچ کر انسان زندہ جاوید ہوجاتا ہے۔

خرم علی کہتے ہیں ’’راشد نے اپنے خالہ زاد بھائی سے ایک دن ڈائری کی فرمائش کی ان کے پاس پی آئی اے کی ایک ڈائری بیکار پڑی تھی وہ انھوں نے ان کے حوالے کردی۔ چند دن بعد راشد نے وہ ڈائری انھیں دکھائی تو اس میں بڑی شخصیتوں کے اقوال درج تھے جن کا موضوع زیادہ تر حب الوطنی تھا۔ ‘‘

کہتے ہیں آنے والے واقعات اپنا سایہ پہلے ڈال دیتے ہیں۔ اپنی پندرہویں سالگرہ کے دو دن بعد راشد نے اپنی ڈائری میں جو وہ زیادہ تر انگریزی میں لکھتا تھا، لکھا۔

ہم ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتے

ہمیں ایک دفعہ تو مرنا ہے

تو پھر کیوں نہ دے دیں اپنے وطن کو اپنی جان

جو ہم با آسانی دے سکتے ہیں

کراچی میں راشد کو سینٹ پیٹرک اسکول کے کیمبرج سیکشن میں داخلہ مل گیا تھا۔ خرم علی شفیق بتاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ نصاب سے زیادہ توجہ دوسری کتابوں پر دیتا تھا ۔ جنگی ناول، مہماتی کہانیاں، تاریخی کتابیں اور انگریزی شاعری ان دنوں اس کی دلچسپی کے موضوعات تھے۔ شفیق راشد کی ڈائری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگست 1947ء کی ایک رات اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ فضائیہ میں بھرتی ہونے کی کوشش کرے گا اور اگر ناکام ہوا تو ہوا بازی کے دیرینہ شوق کو خیر باد کہہ کر بری یا بحری فوج میں چلا جائے گا۔

خرم علی شفیق لکھتے ہیں کہ یہاں سے راشد منہاس کی زندگی کا ایک نیا موڑ آتا ہے۔ کون جانتا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری موڑ ثابت ہوگا۔ وہ ایک دن ایئر فورس سلیکشن اینڈ انفارمیشن سینٹر پہنچ گیا۔ معلوم ہوا تھا کہ درخواستوں کی وصولیابی کا سلسلہ جاری ہے۔ گھر آکر اپنی امی سے ذکر کیا۔ ماں باپ دونوں کو راشد کے شوق پرواز کا علم تھا انھوں نے اجازت دے دی۔ راشد نے درخواست داخل کردی۔ ساتھ ہی سائنس کالج میں بھی داخلہ لے لیا کہ وقت ضایع نہ ہو۔ مگر جلد ہی ایئر فورس کی طرف سے انٹرویو کال آگئی۔

انٹرویو ہوا اور ساتھ ہی انٹیلی جنس ٹیسٹ اور میڈیکل بھی ہوگیا۔ پھرکوہاٹ میں انٹرسروسز سلیکشن بورڈ میں پیشی اور کراچی میں ماری پور بیس پر طبی معائنے کے مرحلے بھی کامیابی سے طے ہوگئے۔خرم علی شفیق منہاس کے سفر حیات کی کہانی جاری رکھتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ فضائیہ میں تربیت کے پانچ مرحلے تھے۔ پہلے دو جسمانی تربیت کے اور آخری تین ہوابازی کی تربیت کے۔ کامیاب ہونے والوں کو پی اے ایف اکیڈمی رسالپور آنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ راشد منہاس کو یہ دعوت بھی مل گئی اور وہ رسالپور پہنچ گئے۔

خرم علی شفیق بتاتے ہیں کہ فلائنگ اتنی آسان ثابت نہیں ہوئی جتنا کہ سمجھا جاتا تھا۔ ابتدا میں جب طیارہ تیزی سے ٹیک آف کرتا تو چکر سا آجاتا۔ کبھی قے ہوجاتی بہر حال وہ دن راشد کی زندگی میں خاص اہمیت کا حامل تھا جب اس نے پہلی بار تنہا پرواز کی۔ ابتدا میں راشد کو صرف سات منٹ فضا میں رہنے کی اجازت ملی، پھر انھیں پورے ایئر بیس کا چکر لگانے کا موقع دیا گیا۔ ہوا بازی کے مختلف کرتب سیکھنا بھی ان کی تربیت کا حصہ تھا۔

1970ء کے آخری مہینوں میں ملک میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ الیکشن ہوئے، بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں بڑی کامیابی حاصل کی، مشرقی پاکستان کی تقریباً سب ہی نشستیں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ لے گئی۔ سیاسی تعطل پیدا ہوا اور مشرقی پاکستان میں آزادی کے نعروں نے جوش پکڑلیا۔راشد منہاس کے لیے انجانے طور پر وہ لمحہ قریب آنے لگا جس کے لیے قدرت اسے تیار کررہی تھی۔ 1971ء شروع ہوچکا تھا۔ راشد اور ان کے ساتھی تربیت مکمل کرچکے تھے۔ انھیں بی ایس سی کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے ملی تھی۔ 13 مارچ کو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی اس موقعے پر کیڈٹس کے والدین آئے۔ راشد کے والدین مجید صاحب، رشیدہ بیگم اور دو بہنوں نے آکر راشد کی خوشیوں میں اضافہ کردیا۔

راشد منہاس کی کتاب حیات کا آخری باب خرم علی شفیق ایئرفورس کے ایک بنگالی فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن کے ذکر سے شروع کرتے ہیں۔ اس نے جون 1963ء میں کمیشن حاصل کیا۔کراچی میں مسرور بیس میں جہاں پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی پوسٹنگ تھی وہ ڈپٹی سیکیورٹی آفیسر تھا کیونکہ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونے کے بعد فضائیہ کے بنگالی افسروں کو فضائی خدمات سے ہٹاکر زمینی ذمے داریوں تک محدود کردیا گیا تھا۔ وہ بنگلہ دیش کا حامی تھا اور پاکستان سے فرار ہوکر مکتی باہنی میں شامل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

اس کی نگاہ انتخاب راشد منہاس پر پڑی کیونکہ وہ دبلا پتلا تھا۔خرم علی لکھتے ہیں۔’’20 اگست کی صبح تھی راشد اپنی تیسری سولو فلائٹ کے لیے تیار ہوا وہ ٹارمک پر پہنچا اور اپنے طیارے پر بیٹھ گیا، عین اسی وقت دورکونے پرکھڑا مطیع الرحمن وہ نمبر نوٹ کررہا تھا، جو طیارے کے ناک اور دم پر لکھا تھا نمبر نوٹ کرنے کے بعد مطیع الرحمن اپنی کار میں بیٹھا اور ٹارمک کے ساتھ والی سڑک پر ٹیکسی انگ ٹریک کی طرف چل دیا اور وہاں پہنچ کر رک گیا۔ گیارہ بج کر چھبیس منٹ پر راشد کے طیارے کوکلیئرنس کال ملی اور اس نے آہستہ آہستہ حرکت شروع کی۔ اس روز اس کے طیارے کی کال سائن ون سکس سکس (166) تھی وہ ٹارمک سے نکل کر ٹیکسی انگ کی طرف بڑھا اور دائیں جانب مڑکر ٹیکسی انگ ٹریک پر نمودار ہوگیا، سامنے مطیع الرحمن کی کار کھڑی تھی۔

11 بج کر 29 منٹ پر اچانک کنٹرول ٹاور کو وائرلیس پر پیغام ملا ’’ون سکس سکس ہائی جیکڈ‘‘ یہ آواز راشد منہاس کی تھی وہ کاک پٹ کے اندر مطیع الرحمن سے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا۔ طیارہ کبھی اٹھتا کبھی نیچے آتا، کبھی ادھر ادھر ہچکولے کھاتا۔ پھر وہ آخری مرتبہ جھکا اور تیزی سے زمین سے ٹکراکر تباہ ہوگیا۔ دو روز بعد حکومت اعلانیہ شایع ہوا ’’مطیع الرحمن نے زبردستی راشد کے طیارے کے کاک پٹ میں گھس کر طیارے پر قبضہ کیا اور ٹیک آف کرکے طیارے کا رخ بھارت کی طرف موڑ دیا۔ سرحد 32 میل دور تھی۔ راشد منہاس کے طیارے کو بھارت میں داخل ہونے سے روکنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا جو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس نے اختیار کیا اور پاکستان اور اس فوج کی جس سے اس کا تعلق تھا آبرو کی خاطر اپنی جان کی عظیم قربانی پیش کردی۔ فرض کی پکار سے بڑھ کر شجاعت کے اس کارنامے پر صدر پاکستان راشد منہاس کو نشان حیدر پیش کرتے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔