تانیہ خاصخیلی

جاوید قاضی  جمعرات 21 ستمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

تانیہ نے ابھی ابھی زندگی کو جینا سیکھا تھا صرف انیسویں سال میں قدم رکھا تھا، کیا خواب ہوں گے اس کے، ڈھیر سارے خواب زندگی کے لیے۔ یہ نام روس میں بہت ساری لڑکیوں پر رکھا جاتا ہے۔ جھنگارا بجارا کے غریب خاصخیلی کیسے رکھتے ہیں اپنی بیٹی کا یہ نام؟ یہ نام ان کی ثقافت کے اعتبار سے بہت ہی غیر روایتی ہے مگر جو تانیہ کے ساتھ ہوا وہ روایتی تھا۔ یہاں پر روز ایک تانیہ کا قتل ہوتا ہے۔ آج جب تانیہ خاصخیلی کو بیدردی سے قتل کیا گیا تو مجھے وہ تمام سندھ کی بیٹیاں یاد آگئیں۔ غربت کے مارے سندھ کے لوگ، غربت زدہ کہانیاں اور قصے، نہ کوئی داد نہ کوئی فریاد۔ نہ ایک تانیہ نامی مظلوم مقتول ہے اور نہ ہی خانو نوحانی جیسا ظالم قاتل، یہ ایک قاتل سماج ہے جو خود قاتل بھی ہے اور مقتول بھی ہے۔

سیہون کے نواح میں جھنگارا بجارا قصبے کے یہ لوگ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ووٹرز ہیں اور گزشتہ پچاس سال  سے یہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ اس علاقے کے دوسرے بڑے زمیندار جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ بھی ہیں۔ مگر اس حلقے میں تعینات پولیس آفیسرز مراد علی شاہ کے ہیں کیونکہ سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے۔ جھنگارا بجارا ایک نہیں بلکہ پورا سندھ ہے، گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ جھنگارا کی مانند ہے اور جھنگارا کا ایس ایچ او محمد علی خاصخیلی بھی ایک نہیں بلکہ سندھ کے تمام تھانوں میں ایسے ہی ایس ایچ اوز کا راج ہے۔

تانیہ خاصخیلی کو قتل کیا گیا اور جھنگارا کا ایس ایچ او محمد علی خاصخیلی ایف آئی آر کاٹنے کو تیار نہیں۔ تانیہ کے والد نے نہ صرف ایس ایچ او کی منت سماجت کی بلکہ گاؤں کے معززین سے التجائیں کیں، کوئی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوا۔ قتل سے پہلے بھی تانیہ کے والد نے پولیس میں بارہا شکایتیں درج کیں خانو نوحانی کے خلاف مگر اس کی ایک نہ سنی گئی۔ 7 ستمبر 2017ء کو تانیہ کو قتل کیا جاتا ہے اور جھنگارا کا ایس ایچ او نہ صرف خانو نوحانی کو فرار کا راستہ دیتا ہے بلکہ اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کرتا۔ میں نے کہا نا یہ سسٹم ہے، غلام قادر کی بیٹی تانیہ قتل بھی ہو اور داد فریاد بھی نہ ہو تو ایس ایچ او اپنی مونچھوں کو اور تاؤ دیتا اور خانو نوحانی کی وحشت لوگوں پر اور طاری ہو۔ اشرف نوحانی نامی شخص مفرور ہے جوکہ پولیس کو مطلوب ہے اور اس کے سر پر پانچ لاکھ کا انعام بھی ہے۔ وہ خانو نوحانی کا بھائی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ جھنگارا کے ایس ایچ او کے علم میں یہ بات نہ ہو۔ اب بات کی اس گہرائی میں جاتے ہیں کہ جھنگارا ایس ایچ او کی پوسٹنگ کتنے عرصے سے اور کس کی مرضی سے ہوئی؟

سوشل میڈیا نے ان غریبوں کی دادرسی کا ایک دروازہ کھول دیا ہے اور یوں یہ جرم سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا اور یہ خبر سندھ کے چیف جسٹس تک پہنچی اور انھوں نے سوموٹو ایکشن لیا۔ ڈی آئی جی جامشورو نے ایس ایچ او کو معطل کیا۔ ایس ایس پی جامشورو نے قاتل کو گرفتار کیا اور آئی جی نے ایک لاکھ انعام ایس ایس پی کے نام کیا۔

تانیہ کے قتل نے اس بات سے پردہ اٹھایا کہ مراد علی شاہ کے حلقے کے لوگ کس کسمپرسی کا شکار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سوٹڈ بوٹڈ اور ہینڈسم سندھ کا وزیر اعلیٰ سندھ کے سید گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ جن کی لوگ دیوتاؤں کی طرح پوجا کرتے ہیں۔ میں نے اکثر مراد علی شاہ کی فوٹوز سوشل میڈیا پر دیکھیں جس میں خود وہ صوفے پر بیٹھے ہیں اور لوگ ان کے قدموں میں نیچے زمین پر بیٹھے ہیں۔ تانیہ کے قتل کے بعد مراد علی شاہ جب تانیہ کے گھر پہنچے تو اس کی ماں بین کرتی ہوئی، انصاف کی التجا کرتی ہوئی، مراد علی شاہ کے پیروں میں گرتی ہے۔ یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اس ویڈیو کو دیکھتے ہی فیضؔ کی چند سطریں مجھے یاد آگئیں:

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

یہ وہی سسٹم ہے جس نے آئی جی کو اپنے عہدے سے برطرف صرف اس وجہ سے کیا کہ وہ پولیس کی بھرتی میرٹ پر کرنا چاہتے تھے۔ وہ تھانوں میں ہر ایس ایچ او کی پوسٹنگ میرٹ پر کرنا چاہتے تھے۔ جس طرح فوج کی ذمے داری سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اسی طرح پولیس کی ذمے داری لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں فاٹا کے روایتی قانون کا ذکر کیا بالکل اسی طرح دیہی سندھ بھی ایک غیر روایتی سسٹم کے تحت چل رہا ہے۔ روایتی طور پر فاٹا میں پاکستان کے قانون کی مداخلت نہیں لیکن سندھ پاکستان کے آئین و قانون کے تحت ہے مگر غیر روایتی طور پر نہیں۔ ایک امید کی کرن نظر آئی ہے کہ سندھ کے اندر قانون و آئین بحال ہوتا نظر آرہا ہے جس کی مثال آئی جی کا واپس اپنے عہدے پر بحال ہونا ہے اور ان کے تمام اختیارات کا بحال ہونا ہے۔

چند ماہ پہلے کندھ کوٹ کی بارہ سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کے سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموٹو نوٹس لیا۔ مگر پھر بھی وہاں کے وڈیروں نے اس لڑکی کا فیصلہ اپنے روایتی جرگے کے اندر کیا اور ایس ایس پی نے اس جرگے کے سرپنچ کو گرفتار بھی کیا۔ اسی طرح کے کئی کیسز ملتان کے اندر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ وہی سسٹم ہے جو انگریزوں نے ہم پر تھوپا تھا اور آج تک جاری ہے۔ اس سسٹم کی زیادتیوں پر ریاست مجرمانہ طور پر خاموش ہے۔ تانیہ کی ماں جن پیروں پر گر کر انصاف کا تقاضا کر رہی تھی، شاید اس مسکین عورت کو یہ علم ہی نہیں کہ یہ وہ پیر اور بازو ہیں جو اس سسٹم کے پاسدار ہیں۔ اس سسٹم کے پاسدار ہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان اور خصوصاً سندھ کے آگے بڑھنے کی راہوں کو مقفل کرتے ہیں۔ اس وقت سندھ کے اندر بڑھتی ہوئی لاقانونیت کو روکنے کے لیے سندھ پولیس ریفارمز کی اشد ضرورت ہے، بالکل اسی طرح جس طرح فاٹا میں ریفارمز لانے کے لیے بل پیش کیا جا رہا ہے۔ سندھ کی پولیس کو وڈیروں کی اب اجارہ داری سے آزاد کرایا جائے۔ تانیہ خاصخیلی ایک کم عمر لڑکی تھی۔

پاکستان کی پچاس فیصد آبادی بیس سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان کے لیے نہ اسکول ہیں نہ اسپتال نہ صاف پانی، نہ ہنر ہے نہ روزگار۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ پڑھنا چاہتی تھی۔ کچھ کرنا چاہتی تھی۔ غربت ایک سرطان کی طرح ان کے آنگن میں چمٹ گئی تھی۔ تانیہ دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے گھر میں کپڑوں پر کشیدہ کاری کرتی تھی۔تانیہ جیسی ہی بھرپور عورتیں تھیں جو شاہ لطیف کی شاعری کی سورمائیں تھیں۔ تانیہ کے روپ میں سندھ کی ماروی، سسئی، سوہنی نے دوبارہ جنم لیا تھا۔ ہماری قیادت کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ سندھ دھرتی کے روحانی بادشاہ شاہ لطیف ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں انھی کی عظمت کو گایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔