بھارت میں شور کی آڑ میں مساجد کے لاؤڈ اسپیکر بند کرنے کی سازش

ویب ڈیسک  جمعرات 21 ستمبر 2017
ماحولیاتی تحفظ اور شور کی آلودگی کا بہانہ بناکر دہلی کی مساجد سے اذان کی آواز بند کروانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ماحولیاتی تحفظ اور شور کی آلودگی کا بہانہ بناکر دہلی کی مساجد سے اذان کی آواز بند کروانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ (فوٹو: فائل)

نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے لیکن اس شہر کو آلودگی سے پاک کرنے کےلیے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے مودی سرکار کی ایما پر ایک نیا نادرشاہی حکم جاری کردیا گیا ہے جس کے تحت دہلی میں مساجد کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ اذان کے وقت ان سے بلند ہونے والے ’’شور‘‘ کا محفوظ حدود سے کم یا زیادہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ اور اگر سرکاری حکام کو مسجدوں سے ’’اذان کا شور‘‘ زیادہ محسوس ہوا تو پھر دہلی کی مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتار لیے جائیں گے یا ان کی تعداد بہت کم کردی جائے گی۔

یہ حکم نامہ بھارتی حکومت کے ماتحت ماحولیاتی عدالت ’’نیشنل گرین ٹریبیونل‘‘ (این جی ٹی) نے جاری کیا ہے جس میں دہلی کی شہری حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ مشرقی دہلی میں مسجدوں سے اذان کے وقت ہونے والے ’’شور‘‘ کا جائزہ لے کیونکہ وہاں رہنے والوں کی بڑی تعداد نے اس کی شکایت کی ہے۔

این جی ٹی نے یہ حکم ’’اکھنڈ بھارت مورچہ‘‘ نامی شدت پسند ہندو تنظیم کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ مشرقی دہلی میں مساجد سے اذان کے وقت بہت زیادہ شور ہوتا ہے جس سے وہاں رہنے والوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکھنڈ بھارت مورچہ ان لوگوں کی شکایات لے کر ماحولیاتی تحفظ کی عدالت میں پیش ہوئی تھی۔

اس درخواست کے جواب میں بدھ کے روز مختلف مساجد کی جانب سے وکیلوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ اذان کےلیے لاؤڈ اسپیکر ضرور استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان کی آواز محفوظ حدود کے اندر ہی رہتی ہے اور ان کا ارادہ لوگوں کو پریشان کرنا یا شور کی آلودگی پھیلانا ہر گز نہیں ہوتا۔

ماحولیاتی تفتیش کے دوران اگر کوئی مسجد زیادہ شور کی مرتکب پائی گئی تو بھارت میں 1986 کے ماحولیاتی قانون اور 2000 میں شور کی آلودگی اور اس پر کنٹرول سے متعلق منظور شدہ قوانین کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی جس میں لاؤڈ اسپیکر ہٹانے سے لے کر مسجد انتظامیہ پر جرمانے اور دیگر سزائیں بھی شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔