پاکستان ہاکی؛ گمشدہ ماضی اور حال

مظہر سلیم حجازی  جمعـء 22 ستمبر 2017
آج پھر ہاکی کی باگ ڈور شاندار ماضی کے حامل اور ہاکی کا درد رکھنے والے سابق ورلڈ چیمپئن کپتان شہباز احمد سینئر اور بریگیڈئیر خالد کھوکھر کے ہاتھوں میں ہے۔ فوٹو: فائل

آج پھر ہاکی کی باگ ڈور شاندار ماضی کے حامل اور ہاکی کا درد رکھنے والے سابق ورلڈ چیمپئن کپتان شہباز احمد سینئر اور بریگیڈئیر خالد کھوکھر کے ہاتھوں میں ہے۔ فوٹو: فائل

ہاکی ہمارا قومی کھیل اور دنیا بھر میں ہماری پہچان ہی نہیں بلکہ اِس کھیل نے قومی وحدت، نوجوان نسل میں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ اور کھیلوں سے لگاؤ کے جذبات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ماضی میں دیکھا جایٔے تو 1986ء کا ورلڈکپ دہلی، 1984ء کا لاس اینجلس اولمپکس اور 1994ء کا سڈنی ورلڈ کپ جن لمحات میں جیتا گیا وہ گھڑیاں ہماری کھیلوں کی تاریخ کے یادگار لمحات کہلائی جاسکتی ہیں اور بجا طور پر قابلِ فخر بھی ہیں۔

یہ وقت وہ تھا جب اختر رسول، منظورالحسن، سلیم شیروانی، جان محمد، منظورجونیئر، حسن سردار، سمیع اللہ، حنیف خان، شاہد علی خان، فرحت حسن، قاضی محب، کلیم اللہ، رشید الحسن، طاہر زمان، شہباز سینیٔراور خالد حمید جیسے عظیم کھلاڑی ہر خاص و عام، طلبہ اور مزدوروں، دفتری بابوؤں اور تاجروں کے ہیرو ہوا کرتے تھے۔

ہر اسکول کی ہاکی ٹیم ہوتی تھی اور ہر شہر میں درجنوں چھوٹے بڑے ہاکی کلب نئے کھلاڑیوں کو تیار کررہے تھے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ہاکی ٹیمیں سالانہ مقابلوں میں مدمقابل ہوتیں تو طلبہ کا جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا۔ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیموں کے سالانہ ٹاکرے کو طلبہ اور شائقین کس طرح بھول سکتے ہیں۔ پاکستانی اولمپک ولیج گوجرہ کے استاد اسلم روڈا اور اقبال بالی کی ہاکی کے فروغ کےلیے کوششیں، دور افتادہ علاقے خوشاب میں بھا ایوب جیسے دیوانے اس کھیل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے تھے جب کہ اسکولوں کے اساتذہ کی وابستگی بھی دیدنی ہوتی تھی۔

اسی طرح محکمہ جاتی ٹیموں کا بھی اپنا ہی ایک رنگ اور جوبن تھا جو ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ یو بی ایل، پی آئی اے، کسٹمز، حبیب بینک، نیشنل بینک، پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان ریلوے، پاکستان آرمی، نیوی اور ٖفضائیہ کی ہاکی ٹیموں نے کتنے ہی ورلڈ کلاس کھلاڑی پیدا کیے۔ منتظمین پر نظر دوڑائیں تو ایئر مارشل نور خان، خواجہ ذکا الدین، بریگیڈئیر منظور حسین عاطف، ایئر وائس مارشل فاروق عمر وہ نابغہ روزگار ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے جملہ تجربات کا نچوڑ ہاکی کے میدانوں کی نذر کردیا اور نوجوان کھلاڑیوں میں جیت کی وہ لگن پیدا کی کہ دنیا کا ہر میدان پاکستان کی فتح کے گیت گانے لگا اور ان منتظمین نے اپنے جذبہ حب الوطنی سے پاکستان ہاکی کو عزت اور عروج کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

اگر پاکستان اسپورٹس بورڈ کی لوح اعزاز (سرکاری ایوارڈ لسٹ) کا مطالعہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ملکی سطح پر سب سے زیادہ اعلیٰ اعزازات ہاکی کے کھلاڑیوں اورمنتظمین کو عطا کیے گئے جو ہاکی سے وابستہ شخصیات کی مقبولیت اور عوامی و حکومتی سطح پر پسندیدگی کی علامت ہے۔ قارئین کی معلومات کے لیے یہ اعداد و شمار وطن عزیز کے ہر دلعزیز کھیل کرکٹ کے تقابل کے ساتھ حاضر خدمت ہیں۔

ہاکی میں 48 تمغہ حسنِ کارکردگی، 1 ہلال امتیاز، 1 ستارہ امتیاز، 9 تمغہ امتیاز، 1 تمغہ قائد اعظم، یعنی مجموعی طور پر 60 سرکاری اعزازات دیئے گئے؛ جب کہ

کرکٹ میں 21 تمغہ حسنِ کارکردگی، 1 ہلال امتیاز، 4 ستارہ امتیاز اور 3 تمغہ امتیاز دیئے گئے اور اس طرح کرکٹ میں اب تک دیئے جانے والے اہم سرکاری اعزازات کی تعداد 29 بنتی ہے۔

آج پھر ہاکی کی باگ ڈور شاندار ماضی کے حامل اور ہاکی کا درد رکھنے والے سابق ورلڈ چیمپئن کپتان شہباز احمد سینئر اور بریگیڈئیر خالد کھوکھر کے ہاتھوں میں ہے۔ اُن کے حالیہ اقدامات، اُن کے مضبوط ارادوں اور پاکستان ہاکی کی نشاۃ الثانیہ کے عزم کے عکاس ہیں۔ امید ہے کہ اِن اقدامات کے نتیجے میں نچلی سطح سے ٹیلنٹ کو ابھرنے اور ملک و قوم کی خدمت کا موقع ملے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مظہر سلیم حجازی

مظہر سلیم حجازی

بلاگر سعودی عرب میں مقیم ہیں اور بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ کالج کی سطح پر ہاکی کے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ آپ کی تحریریں مختلف مطبوعات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔