غم اٹھانے کے لئے ہم تو...

خرم علی راؤ  اتوار 24 ستمبر 2017
محروموں، مظلوموں کا ایک ہجوم، اک انبوہِ کثیر تمھیں حسرت و یاس سے تک رہا ہے، امیدوں کے چراغ جلائے تاریکی ختم ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ فوٹو؛ فائل

محروموں، مظلوموں کا ایک ہجوم، اک انبوہِ کثیر تمھیں حسرت و یاس سے تک رہا ہے، امیدوں کے چراغ جلائے تاریکی ختم ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ فوٹو؛ فائل

ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں، ہم اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں، قوم کو مزید قربانی دینی ہوگی وغیرہ۔ یہ وہ مقبول عام بیانیے ہیں جنہیں سنتے سنتے اور پڑھتے پڑھتے کئی نسلیں پیدا ہوئیں اور مرگئیں۔ چند مزید ملاحظہ کیجیے اور سر دُھنیے: جمہوریت خطرے میں ہے، بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے، جمہوریت بہترین انتقام ہے، آہنی ہاتھوں سے نبٹیں گے، اجازت نہیں دی جائے گی وغیرہ۔

بند کرو یہ مذاق! اب بس کرو، رحم کرو ان غریب اور سادہ لوح لوگوں پر جو رہزنوں کو رہبر اور ٹھگوں کو رہنما سمجھتے ہیں اور ہر بار لٹ جاتے ہیں۔ بس اب جاؤ یہاں سے۔ چھوڑ دو ہمیں ہمارے حال پر۔ ہر قسم کے حالات سے ہم خود ہی نمٹ لیں گے۔ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر آپ کے شاہانہ اخراجات پورے کرتے کرتے اب ہم تھک چکے ہیں۔ اب تو ہم کمزوروں، ذلتوں کے ماروں کو اور نہ مارو۔ تمہاری نسلوں تک کےلیے عالیشان بود و و باش کا انتظام تو ہو ہی گیا ہے۔ اب ہمیں کم از کم نسلی غلام تو نہ بناؤ۔

یہ پیچیدہ ظالمانہ نظاموں میں جکڑا ہو ہجوم اب کچھ بپھرنے سا لگا ہے؛ سوچنے لگا ہے کہ یہ کیسی سیاہ رات ہے جو ختم ہی نہیں ہو رہی۔ یہ کیسی تیرہ بختی ہے جو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ سنا ہے کہ بارہ برس میں تو گھورے (کچرے کے ڈھیر) کے دن بھی پھر جاتے ہیں۔ تم نے تو ہمیں اس سے بھی بدتر بنا دیا ہے کہ دن صرف تمھارے ہی پھرتے ہیں اور ہم وہیں کے وہیں ہانپتے کانپتے نظر أتے ہیں۔

کیا زبردست اداکار ہو تم لوگ! کتنے بڑے جادوگر ہو، سحرِ سامری و جامِ جم تو تمھارے کارناموں کے سامنے بچوں کے کھلونے لگتے ہیں۔ پل بھر میں یوں روپ بدلتے ہو کہ أنکھوں پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آسکر ایوارڈ بھی تمھاری فنکاری و پرکاری کے اعتراف میں کچھ وقعت نہیں رکھتا، اگر دے بھی دیا جائے تو تمھارے فن کےلیے چھوٹا انعام ہوگا۔ علم دشمنی کے تم دلدادہ ہو اور جہالت کا فروغ تمھارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اسی جہالت کی کوکھ سے تعصب، بد عنوانی، لالچ، ہوس کا جنم ہوتا ہے جو تمھارے لئے حکمرانی کرنے کے بہترین اوزار ہیں۔ لیکن اب اپنی یہ ہنرمندی کہیں اور جاکر دکھاؤ کہ بس ہم اب بھر پائے۔

دیکھو یہ نظامِ عالم علت و معلول، عمل اور رد عمل کے قوانینِ قدرت پر چل رہا ہے۔ یہ ابدی اور ناقابلِ تنسیخ ہیں۔ ان سے یقیناً تم بھی واقف ہو گے کیونکہ چالاکیوں اور منفی ذہانت کی جن بلندیوں پر تم فائز ہو اور جن عالی دماغ مشیروں میں تم گھرے رہتے ہو، تو یہ بعید از قیاس ہے کہ تم ان باتوں سے انجان ہوگے۔ اس سے ڈرو کہ کہیں ان کائناتی قوانین کی زد میں نہ آجاؤ، پھر تمھارے لئے کہیں خود اپنا بچاؤ مشکل نہ ہو جائے۔ تمھاری حرص و ہوس تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری اور اسی طرح مزید در مزید منازل حرص و ھوا تم طے کرتے جارہے ہو اور محروموں، مظلوموں، مقہوروں، مجبوروں اور مسکینوں کا ایک ہجوم، اک انبوہِ کثیر تمھیں حسرت و یاس سے تک رہا ہے، امیدوں کے چراغ جلائے تاریکی ختم ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ لیکن تیرگی ہے کہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔

یاد رکھو! جب یہ بھوکے ننگے، یہ کہ جنہیں تم انسان نہیں بلکہ نیم حیوان سمجھتے ہو، تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت میں مبتلا ہوکر اندیشہ سود و زیاں سے بے نیاز ہوکر بپھر جائیں۔ اور جب یہ نکلیں گے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ تمھارے قبیلہ اشرافیہ کے نام نہاد معززین کا کیا انجام ہوگا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔