خبر، اخبار، چولہے جلتے رہیں

سید نور اظہر جعفری  جمعـء 22 ستمبر 2017

مسائل پر لکھنے سے پہلے بہتر یہ ہے کہ مسائل کے پیدا ہونے کے اسباب اور ان کے ممکنہ سدباب یا حل پر لکھا جائے مگر جب اخباروں میں ساس، سسر کے قدرتی وفات پا جانے کو خبر اور تعزیتی بیانات میں ان واقعات فطری کو افسوسناک قرار دیا جائے تو کیا کریں، اﷲ تعالیٰ بندوں کو واپس بلانا بند کر دیں؟ دنیا میں جو بچ جاتے ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ ابھی موجود ہیں وہی چین سے نہیں رہ پا رہے تو اگر یہ سلسلہ اﷲ تعالیٰ ترک کردیں تو سوچیے ہوگا کیا؟

ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تعزیت میں دکھ میں شرکت اوردرجات میں بلندی تک بات درست ہے۔ میرے ماموں یا خالہ یا میری والدہ  اوروالد بزرگوارکے انتقال فرماجانے سے پاکستان کے حالات پرکوئی اثر نہیں ہوا، کافی نوٹ کیا میں نے اب تک سوچ رہا ہوں تو یہ ہے اخبار، حادثہ ہو خبر! انتقال ہو خبر! ملک کی کاغذی ترقی، خبریں ہی خبریں بجلی کے بحران کا خاتمہ خبر ، طویل لوڈ شیڈنگ، مرضی کی شادی خبر، دونوں کو مار ڈالا گیا خبر، نا اہل خبر، متبادل خبر، گٹر کا ڈھکن چوری خبر، ڈھکن لگادیا گیا خبر، پھر چوری خبر پھر لگادیا گیا خبر۔

یہ سلسلہ کیونکہ زرخیزذہن کی وجہ سے رکنے والا نہیں ہے لہٰذا اس کو بریک لگاتے ہیں۔ اصلی والے تجزیے، کالم، مضامین، انشایے،  سب خبروں سے جنم لیتے ہیں ان میں وہ خبریں بھی ہوتی ہیں جو اخبار میں یا میڈیا پر چلتی ہیں بلکہ دوڑتی ہیں۔ ’’ٹِکر‘‘  کی صورت اورگھریلو خاندانی اخبارات اور معاشرے کے اخبار یعنی لوگوں سے بھی اشتراک کے سبب یہ قلمی حادثے ہوتے ہیں۔

دراصل خبر انسان کی بنیاد میں ہے، ان دنیاوی خبروں سے قطع نظر ہمارے اصل اور بنیادی رہنماؤں کو جنھیں ہم نبی رسول کہتے ہیں اور ان پر ایمان واثق رکھتے ہیں خبر دینے والا ’’خوشخبری دینے والا‘‘ کہا گیا ہے۔

یہ بات یہاں مکمل محض حوالہ دیا گیا ہے فطرت انسانی میں خبر کے جاننے والے کے طور پر ہم اس دور تک آتے آتے وہ نہیں رہے جو ان شخصیات کے ساتھ لوگ تھے ہم اس کے برعکس ہوگئے۔ بد قسمتی ہے جو ہم نے خود بہت محنت کرکے حاصل کی ہے اور نازاں ہیں کہ ’’ہم بھی انسان ہیں‘‘ اس کے جواب میں اپنے آپ کو وہ کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے جو قابل تحریر نہیں ہے اور ایڈیٹر صاحب چھاپیںگے بھی نہیں۔

معیارات بدل چکے ہیں جب یہ جملہ لکھتے ہیں تو ایک بات یاد آتی ہے کہ کوئی مجھ جیسا سردی کے موسم میں ٹھنڈی سانس بھر کر بولا ’’اُف بڑھاپا‘‘ پھر ادھر ادھر دیکھ کر خود سے بولا ’’جوانی میں تم نے کون سے تیر مارلیے تھے سردی تو وہی ہے‘‘

تو وہ بھی ہر دور میں رہے’’اشرافیہ‘‘ سے ’’ارذلیہ‘‘ تک یہ سب کچھ اس طرح ہی رہا ہے سارے زمانوں میں ’’حقوق‘‘ اگر دیے گئے تو وہ اشرافیہ کا رحم کہلایا چاہے بادشاہ اور لکڑہارے کا معاملہ ہو یا حال ہی میں ’’زرداری‘‘ نواز سپاہی‘‘ حکومتیں اورعوام ٹرمپ اور غالباً ان کی بیگم نے حالیہ طوفان زدگان کے لیے ایک خطیر رقم کا اعلان کیا ہے (جو پاکستان میں نہیں آیا) مگر خاص بات یہ ہے کہ یہ رقم وہ اپنی جیب سے دے رہے ہیں۔

ٹرمپ  نے دنیا کا کاروبار کیا مگر بے کار! ہمارے حکمرانوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ سرکاری پروٹوکول ختم ہوا تو ’’ٹائی‘‘ تک نہیں رہی بے چاروں کے پاس، ابھی چار دن پہلے تک جلسوں میں اعلان کرتے رہے آپ نے بہت محبت دی ہے جاؤ میں نے اتنے ارب دیے آپ کو، آپ کے علاقے کے لیے اور کہیں کہیں تویہ بھی کہ فلاں نے کچھ نہیں مانگا ہے مگر میں نے دیے اتنے ارب یہ ساری رقم جس سے یہ حضرات شوق فرماتے رہے خزانہ سرکار یعنی میرا آپ کا ٹیکس تھا  موجودہ وزیراعظم صاحب نے اب تک ایسی کوئی غلطی بظاہر نہیں کی ہے مگر کب تک؟ یہ سب کچھ ہم ’’خبر‘‘ کے ضمن میں لکھ رہے ہیں۔ یہ بہت پرانی بات ہے اور پڑھائی جاتی ہے کہ اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں ہے۔ انسان کتے کو کاٹ لے تو خبر ہے۔

تجزیہ بہت عجیب ہے مگر ہم کر نہیں سکتے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ میرے ابو کو کیوں نکالا کو خبر کے کس حصے میں فٹ کریں اور کیوں نکالا تو سلوگن ہے اب حالانکہ آسان جواب ہے کہ کینسر تشخیص ہوجائے تو آپریشن لازمی ہے۔ اب آپریشن کے بعد یہ چلاتے رہیں کہ کینسر کیوں نکالا تو ڈاکٹر بے چارہ کیا کرے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ کینسر پاکستان کے جسم میں تھا اس لیے نکالا اور ہر کینسر کی علامت جو اس جسم میں پائی جائے گی نکالی جائے گی چاہے دہشت گردی ہو یا معاشی دہشت گردی۔

ایک بات ضرور کہیں گے جو سچ ہے کہ اب پاکستان میں وزیراعظم ہے کارکردگی کا سوال  بعد میں ہے اور نظر آتا ہے کاروبار تو ان کے بھی ہوںگے مگر ملک کا کاروبار ٹھیک چلاتے نظر آرہے ہیں مگر ایک ٹیلی ویژن پروگرام کا ڈائیلاگ ہے جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔ یہ ایک وکیل صاحب کے نظر آتے ہیں پروگرام میں ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

خبر ہے بس خبر بڑے لوگوں کے بیٹوں کو جرائم کی ہو تو ایک روزہ ہوتی ہے غریب کا بیٹا بھی مجرم ہوسکتا ہے بلکہ اس معاشرے میں وہی ہوتا ہے تو اس کا فالو اپ چلتا رہتا ہے دیکھ دیکھ کر پڑھ پڑھ کر تھک جاتے ہیں آخر میں اوپر کی لائن پڑھ کر دوسری خبریں پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک صاحب نے حیرت سے مجھ سے کہا آپ کے گھر اب بھی اخبار آتا ہے میں نے کہا جی کہنے لگے حیرت ہے یہ بھی ایک خبر ہے میری بیٹی کہتی ہے کہ جب اخبار کے گھر میں گرنے کی آواز آتی ہے تو آپ کو اسے پڑھتے دیکھتی ہوں اور جب لینڈ لائن فون کا بل آتا ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ پاگل ہے یہ لڑکی لینڈ لائن کے بل میں فکسڈ لائن رینٹ اور اسے استعمال نہ کرنے پر جی ایس ٹی کے علاوہ ہوتا کیا ہے مگر یہ اس کے لیے خبر ہے اور وہ میں اس خبر کے ساتھ خوش اور زندہ ہیں۔

شہر گندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور حکمران عیش و عشرت میں اپنا اپنا مقدر ہے ہم آپ تو یہی کہیںگے یہی خبر ہے اگر مقدر کو بدلنے کی ذرا بھی کوشش کی تو ہمارا انجام بارش میں بھیگے اخبار جیسا ہی ہوگا اور کوئی ہمیں اور کنارے کردے گا۔

اخبار کو روز رزق چاہیے اور اس کا رزق خبر ہے جو ہر صفحے پر فراہم کیا جاتا ہے گھروں کے چولہے خبر سے چلتے ہیں، انسان پلتے ہیں خبر سے ہاکر سے لے کر مشین مین تک مجھے مزدوروں سے محنت کشوں سے پیار ہے بالائی سے کیا غرض پانی دودھ بہت ہے چولہے جلتے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔