سماجی تبدیلی کب آئے گی؟

ایم اسلم کھوکھر  جمعـء 22 ستمبر 2017

جہاں تک جغرافیائی تبدیلی کا ذکر ہے تو یہ تبدیلی گویا 1947 میں لے آئے تھے یقین تھا اس وقت کے لوگوں کو کہ اب سماجی تبدیلی بھی جلد ممکن ہوجائے گی مگر آج جغرافیائی تبدیلی یعنی برصغیر کی تقسیم و قیام پاکستان کو 70 برس ہوچکے ہیں۔ اس ملک میں سماجی تبدیلی نہ لاسکے۔ مطلب یہ کہ آج بھی ہمارے سماج میں غربت ہے، جہالت ہے، بے روزگاری ہے، لاقانونیت ہے، توانائی کا بحران ہے۔ پاکستان کا معاشی ہب کراچی اس وقت کچراچی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ جن مسائل کا ہم نے ذکر کیا ہے ان مسائل کا پورے ملک کو سامنا ہے۔

اگر تھوڑا تفصیل میں جائیں تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ ہمارے سماج میں غربت کی شرح 90 فیصد ہوچکی ہے اور ہر آنے والا دن غربت میں اضافے کی نوید لے کر آتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ و دیگر ممالک میں بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں اور تیسری دنیا کے ممالک میں غربت کے معیار میں واضح فرق ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں اکثریت ایسے شہریوں کی ہے جوکہ قلیل ترین آمدنی سے اپنا گھر چلاتے ہیں، یعنی گھریلو اخراجات پورے کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس قدر قلیل آمدنی میں یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کوئی شہری فقط اپنے اخراجات بھی پورے نہیں کرپائے گا، اس کے خاندان کے دیگر افراد کے اخراجات تو دور کی بات ہے اگر حصول تعلیم کا ذکر کریں تو ہمارے سماج میں حصول تعلیم مشکل ترین عمل بن چکا ہے، اب تو یہ تصور عام ہوتا جا رہا ہے کہ تعلیم حاصل کرکے کیا کرنا ہے اس سے بہتر ہے کوئی ہنر بچے کو سکھایا جائے۔

یوں عام آدمی کا بچہ بڑی ہمت کرے گا تو آٹھ سے دس درجے تک ہی تعلیم حاصل کر پائے گا۔ دیہی علاقوں میں اکثر اسکول گاؤں کے وڈیرے کی اوطاق کے طور پر ہی استعمال ہوتے ہیں اور اسکول کا عملہ وڈیرے کا ذاتی عملہ ہی شمار ہوتا ہے۔ میں نے خود دیکھا کہ اسکول کی دیوار پر سندھی زبان میں لکھا تھا کہ ہر بار اسکول جے اندر، مطلب یہ کہ تمام بچے حصول تعلیم کے لیے اسکول کے اندر ہوں گے مگر اسکول کے اندر کا منظر یہ تھا کہ اسکول کے اندر مال مویشی بندھے ہوئے تھے، بلاشبہ وہ مال مویشی کسی وڈیرے کی ملکیت ہوں گے بصورت دیگر اسکول کا مطلب تو بچوں کے لیے حصول تعلیم کا ذریعہ ہی ہوتا ہے ناکہ مال مویشی باندھنے کا یا پالنے کا۔ اب ان حالات میں تعلیمی معیار ہمارا خطے میں تمام ممالک سے جن میں بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، بھارت و مالدیپ سے بھی پست ہے تو اس میں حیرت کیا ہے؟

پھر بے روزگاری سنگین مسئلہ الگ ہے یہ وہ مسئلہ ہے جس کے باعث ہمارا نوجوان طبقہ مکمل مایوسی کا شکار ہے یوں بھی کسی بھی سماج کی تباہی کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ اس سماج کے نوجوان مایوسی کا شکار ہوجائیں یا کردیے جائیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے ملک کے 70 سے 80 لاکھ لوگ اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر حصول روزگار کے لیے دیگر ممالک میں منتقل ہوچکے ہیں۔ ان دوسرے ممالک میں منتقل ہونے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے یہی نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ہمارا یہ سرمایہ دیگر ممالک میں سرعت سے منتقل ہو رہا ہے یہ عمل ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ علاج کی سہولیات کا تو ذکر ہی کیا ۔

لاقانونیت کا تو یہ عالم ہے کہ اپنے روز مرہ معاملات سے عہدہ برآ ہونے کے بعد اگر کوئی عام شہری خیریت و عافیت شام کو گھر واپس آجائے تو یہ لمحہ گویا باعث مسرت ہے بصورت دیگر یہ عام شہری دن بھر کی سخت مشقت کے بعد حاصل ہونے والی اجرت و موبائل فون سے ہوگیا محروم، اگر مزاحمت کی تو سامنا کرو گولی کا، جس کے باعث جان سے بھی گئے، یوں بھی کسی غمی یا مسرت کے موقع پر آپ ہوائی فائرنگ یا غل غپاڑا کرتے ہوئے کسی بھی عام شاہراہ پر آجائیں اور کوئی بھی عام شہری آپ کی ہوائی فائرنگ کی زد میں آکر اپنی قیمتی جان سے محروم ہوجائے یقین رکھیں کوئی بھی قانون آپ کا بال بیکا نہیں کرپائے گا، کیونکہ قانون محتاج ہوتا ہے ثبوت کا۔ تو کس کی مجال ہے جو آپ کے خلاف تھانے یا کچہری میں گواہی دے، بس آپ کا بااثر ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کے خاندان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی ہے تو سونے پہ سہاگا۔ لاہور میں بیوہ ماں کا واحد معصوم بیٹا و سہارا ایک مثال ہے۔

جس کا قتل بازار میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے ہوا اور 13 گواہان سامنے آئے جوکہ بعدازاں سب منحرف ہوگئے یوں بااثر سیاسی خاندان کا چشم و چراغ سزا سے بچ گیا۔ ذکر اگر توانائی بحران کا آئے تو یوں تو پورا ملک اس بحران کی گزشتہ 12 برسوں سے زد میں ہے مگر لوڈشیڈنگ کا حقیقی مزہ لینا ہے یا یہ معلوم کرنا کہ لوڈشیڈنگ کا حقیقی مزہ کیا ہے، یہ راز کراچی ہی کے شہری بتا سکتے ہیں جوکہ فقط 60 گز کے گھر میں چار چار خاندانوں کی شکل میں اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں جوکہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیے کے دوران گلیوں میں بھی نہیں آسکتے کہ گلیوں میں نکاسی آب کا نظام تباہ و برباد ہونے کے باعث گٹروں کے گندے پانی کا راج ہے۔

یوں بھی معذرت کے ساتھ عرض کرتا چلوں کہ پاکستان کا معاشی ہب، روشنیوں کا شہر، منی پاکستان، عروس البلاد، کراچی اس وقت کچرا بن چکا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کراچی کے تمام باسیوں نے بلاامتیاز رنگ و نسل و زبان و تمدن فقط اپنے حقوق کی بات کی ہے، اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض کی نہیں۔ خوش نصیب ہے ہمارا حکمران طبقہ کہ ہمارے سماج کے لوگ تمام تر مصائب کو قسمت کا لکھا گردانتے ہیں، البتہ جس روز ہمارے سماج کے لوگوں کو یہ ادراک ہوگیا کہ ان کے مسائل کا حقیقی سبب کیا ہے؟ تو جان لو اسی روز سماجی تبدیلی کا عمل بھی شروع ہوجائے گا۔

پھر یہ لوگ یہ سوال ضرور کریں گے کہ اس ملک میں اس ملک کی بانی جماعت کے 17 وزرائے اعظم آئے۔ دوسری نامور سیاسی جماعت کے پانچ وزرائے اعظم آئے و پانچ نگران وزیراعظم آئے اور 12 صدور آئے پھر بھی سماجی تبدیلی کیوں نہ آسکی؟ پھر البتہ ہمارا حکمران طبقہ اس سوال کا جواب نہ دے پائے گا کیونکہ غربت، جہالت، بے روزگاری، لاقانونیت، توانائی کا بحران و کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والے تو یہ حکمران خود ہیں جن کا مقصد فقط اقتدار کا حصول ہے نا کہ عوامی مسائل حل کرنے کا آخر میں فقط اتنا ہی عرض کروں گا کہ میرے سماج کے لوگوں اپنے سماج میں سماجی تبدیلی تم لوگوں کو خود لانا ہوگی اپنی سیاسی قیادت لانا ہوگی ایسی قیادت جسے عوامی مسائل کا ادراک بھی ہوگا اور ایسی قیادت عوامی مسائل حل بھی کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔