بھارتی عدلیہ کے ظلم کا نشانہ بنی ہادیہ

سید عاصم محمود  اتوار 24 ستمبر 2017
کیرالہ ہائی کورٹ کے ہندو ججوں نے ایک نومسلم لڑکی پہ ظلم کی انتہا کر دی…سنسنی خیز داستان

کیرالہ ہائی کورٹ کے ہندو ججوں نے ایک نومسلم لڑکی پہ ظلم کی انتہا کر دی…سنسنی خیز داستان

بھارتی ریاست کیرالہ کے گاؤں ،ٹی وی پورم میں ہندو آباد ہیں یا عیسائی۔1993ء میں وہیں ایک ہندو گھرانے میں اکھیلا اشکون نامی ایک لڑکی نے جنم لیا۔وہ والدین کی اکلوتی اولاد ثابت ہوئی۔اس کو بچپن سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔چناں چہ 2011ء میں اٹھارہ سالہ اکھیلا گھر سے چار سو کلومیٹر دور واقع شہر،سلیم (تامل ناڈو)پہنچ گئی۔وہ وہاں واقع سوراج ہومیو پیتھک کالج سے گریجویشن کرنا چاہتی تھی۔

گاؤں کی خالص فضا میں پلی اکھیلا شہری بودوباش سے ہم آہنگ نہ ہو سکی۔کالج کے ہاسٹل میں پکا کھانا کھا کر وہ اکثر بیمار رہتی۔بیماری کے باعث ہی وہ پہلے سال فیل ہو گئی۔اگلے سال وہ چار سہیلیوں کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہنے لگی۔اس کی دو ہم جماعتیں،جسینہ اور فسینہ بہنیں اور مسلمان تھیں۔اکھیلا کو ان کی پاکیزگی،عبادت گذاری،نفیس عادات و اطوار اور خلوص بہت پسند آیا اور وہ دین اسلام میں دلچسپی لینے لگی۔

قران پاک اور اسلامی کتب کے مطالعے نے اکھیلا کا دل روشن کر دیا۔بہنوں نے بھی اسے اسلام کے متعلق بہت کچھ بتایا۔آخر جنوری2016ء میں اکھیلا کیرالہ میں تبلیغ اسلام میں مصروف ایک تنظیم،تربیت الاسلام سبھا کے دفتر پہنچ گئی۔وہاں اس نے اسلام قبول کر لیا۔اس کا اسلامی نام ہادیہ رکھا گیا۔وہ مسلم خواتین کے مانند حجاب لینے لگی۔جب ہادیہ کے والدین کو یہ خبر ملی کہ ان کی اکلوتی لڑکی اسلام لے آئی ہے تو ان پہ جیسے بجلی گر پڑی۔وہ کٹر ہندو تھے اور انھیں محسوس ہوا کہ بیٹی نے برادری میں ان کی ناک کٹوا دی ہے۔

اکھیلا کا باپ،اشکون کٹر ہندو تھا۔ اس نے قسم کھائی کہ وہ بیٹی کو دوبارہ ہندو بناکر ہی دم لے گا۔اس نے فوراً جسینہ اور فسینہ کے والد،ابوبکر کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی اور الزام لگایا کہ اس نے اکھیلا کو اغوا کیا ہے۔پولیس نے بیچارے ابوبکر کو گرفتار کر لیااور دو دن جیل میں رکھاحالانکہ وہ بالکل بے گناہ تھا۔آخر ہادیہ نے عدالت میں پیش ہو کر گواہی دی کہ وہ خواتین کی ایک اسلامی تنظیم،مرکز الہادیہ کے ہوسٹل میں اپنی مرضی سے رہائش پذیر ہے ۔تب ابوبکر کو رہا کر دیا گیا۔ہادیہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ وہ والدین کے پاس جانے کو تیار نہیں۔مگر اس کے کٹر ہندو والدین نے اپنی بیٹی کے قبول اسلام کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا۔اشکون نے سر توڑ کوشش کی کہ بیٹی دوبارہ ہندو بن کر گھر واپس آ جائے۔ مگر ہادیہ نے دوبارہ ہندو بننے سے انکار کردیا۔

اس کا کہنا تھا ’’اب میں مسلمان بن کر ہی ساری زندگی گزاروں گی۔‘‘بیٹی کی مستقل مزاجی دیکھ کر باپ کوچی میں انتہا پسند ہندو تنظیم،آر ایس ایس(راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے لیڈروں سے ملا اور مدد کا طلب گار ہوا۔ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ہر قیمت پر بیٹی کو پھر ہندو بنا کر ہی دم لے گا۔یوں ایک ایسے زبردست ڈرامے نے جنم لیا جو آشکارا کرتا ہے کہ بھارت میں قانون وانصاف بھی ہندو قوم پرستی کے غلام بن چکے…اور خاص طور پر بھارتی مسلمانوں کو ہرگز یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ کسی عدالت سے انھیں انصاف ملے گا۔

٭٭

اوائل ستمبر میں چین میں پانچ برکس ممالک ،چین، روس، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ کے سربراہوں کی میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں پہلی بار ایشیا میں مصروف کار جنگجو تنظیموں کو خطرے کی علامت قرار دیا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ یہ سبھی معتوب تنظیمیں دنیائے اسلام سے تعلق رکھتی ہیں۔ گویا عالمی طاقتیں مسلسل اسلامی دنیا سے ناانصافی کررہی ہیں۔ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر وہ اصل اور بڑے مجرموں کو نظر انداز کردیتی ہیں۔

مثال کے طور پر بھارت ہی کو لیجیے۔ جب سے نریندرمودی برسراقتدار آئے ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیمیں، آر ایس ایس،بجرنگ دل،وشوا ہندو پریشد وغیرہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا جینا حرام کرچکیں۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف حکومتی دہشت گردی کرنے میں مصروف ہے، تو انتہا پسند اور قوم پسند ہندو جماعتوں کے کارکن پورے بھارت میں مسلم اقلیت پر ظلم و ستم کررہے ہیں۔ لیکن برکس اعلامیہ میں بھارتی حکومت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔

وجہ یہی کہ بقیہ چار برکس ممالک سوا ارب آبادی کی بہت بڑی بھارتی منڈی سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔پروفیسر ہوشیس ہینگ چینی دارالحکومت بیجنگ میں واقع تھنک ٹینک، انسٹی ٹیوٹ آف کنٹمپرری انٹرنیشنل ریلیشنز کے سربراہ ہیں۔ یہ ایک نیم سرکاری ادارہ ہے کیونکہ اسے چینی حکومت کی جانب سے امداد ملتی ہے۔ پروفیسر ہونے برکس اعلامیے میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی صف میں رکھنے پر اظہار تشویش کیا اور اپنی حکومت پر اچھی خاصی تنقید کر ڈالی۔ممتاز چینی دانشور کا کہنا ہے کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج سے نبرد آزما ہیں۔ چین کوشش کررہا ہے کہ ان قوتوں کے مابین امن مذاکرات کرائے جائیں۔ لیکن طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دے کر چینی حکومت نے گویا اپنی پیروں میں خود کلہاڑی مارلی۔ اب وہ کیونکر فریقین کے مابین امن مذاکرات کرواسکے گی؟

برکس اعلامیے کی رو سے پاکستان میں سرگرم عمل لشکر طیبہ اور جیش محمد کو بھی دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا گیا۔ اس پر بھارتی میڈیا میں خوشی و مسّرت کا اظہار کیاگیا۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستانی حکومت بہت عرصہ پہلے درج بالا تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندی لگاچکی۔ پاکستان تو خود ایسی تنظیموں کی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔بہرحال یہ نہایت افسوس ناک امر ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے والی مودی حکومت کی سمت برکس کی بقیہ چار قوتوں نے انگلی تک نہیں اٹھائی۔ یہ جانب دارانہ اور مفاد پرستانہ رویّہ تو مودی حکومت کو ہلاشیری دے کر مزید ظالم اور متعصب بنادے گا۔

بھارت میں مسلم دشمنی کا اب یہ عالم ہوچکا کہ عدالتیں تک مسلمانوں سے ناانصافی کررہی ہیں۔ جس ملک میں انصاف دینے والے ادارے ہی ظلم کرنے لگیں، وہاں کسی مظلوم کے آنسو کیسے خشک ہوسکتے ہیں؟ پچھلے دنوں بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے تین طلاقوں پر پابندی لگادی۔ یہ ایک اسلامی مسئلہ تھا اور مناسب یہی تھا کہ علمائے کرام کو افہام و تفہیم سے اسے حل کرنے دیا جاتا۔ لیکن مودی حکومت کے شدید دباؤ پر بھارتی سپریم کورٹ نے اس کی پسند کا فیصلہ دے دیا۔ یوں مودی حکومت نے دنیا والوں پر آشکار کردیا کہ وہ اسلام ہی نہیں تمام مذاہب کے مذہبی اصول و قوانین بھی تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔بھارت میں سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتیں قوم پرست اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کے سامنے سر نگوں ہوچکیں۔ یہی وجہ ہے، وہ اب دن دیہاڑے انسانی حقوق کا قتل عام کرنے میں مصروف ہیں۔

مگر عالمی طاقتوں کو بھارتی مقتدر حلقوں کا ظلم دکھائی نہیں دیتا یا وہ اپنے مفادات کی خاطر اس سے چشم پوشی کر جاتی ہیں۔ نومسلم ہادیہ کا معاملہ بھارت میں جنم لینے والی عدالتی دہشت گردی کی بہترین مثال ہے۔ بھارت میں قوم پرست ہندو جماعتوں اور تنظیموں نے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی خاطر پچھلے تین عشرے سے یہ حکمت عملی اپنا رکھی ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین کوئی تنازع جنم لے، تو وہ اسے خوب ہوا دیتی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ عام ہندوؤں کے مذہبی، نسلی و لسانی جذبات بھڑک جائیں۔ یوں ہیجان انگیز ہندو مسلمانوں کے مخالف بن کر قوم پرست جماعتوں کے پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتے ہیں۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی ان ریاستوں میں بھی پر پھیلا رہی ہیں جہاں اسے فی الوقت مقبولیت حاصل نہیں۔ ان ریاستوں میں مغربی بنگال، بہار، آندھرا پردیش، تامل ناڈو اور کیرالہ نمایاں ہیں۔ بی جے پی کا خاص ہدف مغربی بنگال، بہار اور کیرالہ ہیں جہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔

مغربی بنگال، بہار اور کیرالہ… ان تینوں صوبوں میں اترپردیش، راجھستان، ہریانہ وغیرہ کے مانند ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شدید دشمنی موجود نہیں۔ دونوں قومیتوں کے مابین اختلافات ہیں مگر نوبت یہاں تک نہیں پہنچی کہ گوشت کھانے یا اسلامی لباس پہننے پر ہندو ہجوم مسلمانوں پر حملے کرنے لگے۔ مگر ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کے رہنما اور کارکن سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ہندوؤں اور مسلمانوں کو باہم لڑا دیا جائے۔ فساد کرانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل وزیراعلیٰ بہار، نتیش کمار نے مقامی لیڈر، لالو پرشاد یادو سے سیاسی اتحاد توڑ کر بی جے پی سے ناتا جوڑ لیا۔ نتیش کمار کی اس سیاسی قلابازی نے سبھی کو حیران کردیا کیونکہ سمجھا جاتا تھا کہ اگلے سال کے الیکشن میں وہی نریندر مودی کا مقابلہ کریں گے۔ مگر نتیش کمار نے اپنی حکومت خطرے میں دیکھی، تو اقتدار بچانے کے لیے مودی کی جھولی میں جاگرے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ اقتدار کا بھوکا سیاست داں سرعام اپنی عزت بھی نیلام کرنے سے دریغ نہیںکرتا۔

خاص بات یہ کہ جیسے ہی نتیش کمار اور نریندر مودی کا اتحاد ہوا، ریاست بہار میں گؤرکھشک یعنی گائے کی حفاظت کرنے والے ہندو سرگرم ہوگئے۔ ان بہاری مسلمانوں کو سرعام مارا پیٹا جانے لگا جو گائے لے جارہے ہوتے۔ گؤ رکھشکوں کی غنڈہ گردی کے باعث اب بہار میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین کشیدگی بڑھ رہی ہے اور کسی بھی وقت بڑا فساد ہوسکتا ہے۔ بی جے پی یہی تو چاہتی ہے تاکہ سبھی ہندو اسی کے جھنڈے تلے جمع ہوکے مسلمانوں کا مقابلہ کرسکیں۔ واضح رہے، ریاست بہار کی ساڑھے دس کروڑ آبادی میں تقریباً پونے دو کروڑ مسلمان ہیں۔اسی طرح ماہ جولائی میں مغربی بنگال کے شہر بدوریہ میں ایک ہندو لڑکے نے دانستہ یا نادانستہ اپنی فیس بک وال پر رحمت للعالمینﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے قابل اعتراض تصاویر لگادیںجنہوں نے مقامی مسلمانوں کو مشتعل کردیا۔ انہوں نے نہ صرف لڑکے کا مکان جلایا بلکہ ہندوؤں کی بھی دکانیں جلادیں۔

یہ محدود پیمانے پر مسلمانوں کا چھوٹا سا احتجاج تھا، مگر بی جے پی کے لیڈروں نے پورے بھارت میں طوفان برپا کردیا۔ مسلمانوں کو غنڈہ اور دہشت گرد قرار دے کر اسلام کے خلاف زوردار پروپیگنڈا کیا جانے لگا۔ حتیٰ کہ اکثر ہندو رہنماؤں نے قتل و غارت گری پر مبنی فلمی مناظر یہ کہہ کر سوشل میڈیا میں پھیلا دیئے کہ مسلمان ہجوم نہتے ہندوؤں پر حملہ کررہا ہے۔ اس ساری زہریلی مہم کا مقصد یہی تھا کہ عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا جائے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ اب بھارتی عدلیہ بھی کھلم کھلا متعصب ہوچکی اور قانون و انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے قوم پرست ہندو جماعتوں کی حمایت کررہی ہے۔ جب سے نریندر مودی اقتدار میں آیا ہے، بھارتی عدالتیں ان تمام قوم پرست ہندوؤں کو رہا کرچکی جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف بم دھماکے کرائے تھے اور جن کو پچھلی کانگریسی حکومت نے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ بھارتی عدلیہ کی انصاف کشی کا حالیہ واقعہ کیرالہ میں بیچاری ہادیہ کے ساتھ پیش آیا ۔ یہ واقعہ کئی لحاظ سے انتہائی حیران کن ہے۔

ہوا یہ کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈر ہادیہ سے ملے اور اسے بتایا کہ والدین اس کو یاد کرتے ہیں اور رو رو کر ہلکان ہوچکے۔ یوں وہ ہادیہ کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنا چاہتے تھے۔ جب ہادیہ نے دیکھا کہ ساری ہندو برادری مل کر اسے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کررہی ہے، تو اس نے کسی مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اسے یقین تھا کہ شادی کے بعد والدین اس کا پیچھا چھوڑ دیں گے۔ ہادیہ نے پھر اپنی سہیلیوں اور مرکز الہادیہ کے ذمے داران سے بات چیت کی۔یوں اس کے لیے موزوں لڑکے کی تلاش شروع ہو گئی۔

آر ایس ایس کے لیڈروں کی ایما پر اگست 2016ء میں اشکون نے کیرالہ ہائی کورٹ کو یہ درخواست دی کہ مرکز الہادیہ نے اس کی بیٹی کو محبوس رکھا ہوا ہے۔مسلمان اسے داعش کے پاس عراق بھیجنا چاہتے ہیں۔ایک بار پھر ہادیہ نے عدالت پہنچ کر گواہی دی کہ وہ اپنی مرضی سے اسلامی تنظیم کے ہاسٹل میں قیام پذیر ہے۔اور یہ کہ اسے والدین کی طرف سے خطرہ ہے۔اب پانی سر سے گذر چکا تھا۔چناں چہ سہارے کی کھوج میں محو ہادیہ نے دسمبر2016ء میں ایک مسلمان نوجوان، شفیع جہاں سے شادی کرلی۔ ہادیہ کا ہندو باپ پھر کیرالہ ہائی کورٹ پہنچ گیا۔

اس نے دعویٰ کیا کہ شفیع جہاں داعش کا رکن ہے۔ اس نے ’’لوجہاد‘‘ کے ذریعے اکھیلا کو پھانسا ہے تاکہ بھارت میں مسلم آبادی میں اضافہ کرسکے۔یہ ایک لغو اور جھوٹا الزام تھا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ کیرالہ ہائی کورٹ کے ہندو ججوں نے آر ایس ایس کے دباؤ پہ اس الزام کو سچ قرار دے ڈالا۔ اسی الزام کی بنیاد پر انہوں نے شفیع اور ہادیہ کی شادی غیر قانونی قرار دی اور نو مسلم لڑکی کو والدین کے حوالے کردیا۔یوں ہندو ججوں نے واضح طور پر قانون و انصاف کا گلا گھونٹ ڈالا۔

آج ہادیہ اپنے والدین کے گھر قید ہے۔باہر سپاہیوں کا پہرا لگا ہے۔ ہادیہ کو گھر سے نکلنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیمیں ہندو ججوں کے فیصلے کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی آئین ہر بالغ مرد اور عورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرلی۔ مگر کیرالہ ہائی کورٹ کے ہندو ججوں نے ایک بے بنیاد الزام پر اس اصول کا خون کر ڈالا۔ اپنی بیگم کی رہائی کے لیے شفیع جہاں نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دے رکھی ہے۔ مگر بھارت کی عدالتوں میں چیونٹی کی رفتار سے کام ہوتا ہے لہٰذا شفیع اور ہادیہ کو انصاف ملتے نجانے کتنے ماہ لگ جائیں۔آج بھارتی عدلیہ بھی ہندو قوم پرستی کا شکار ہوچکی… بعید نہیں کہ ہادیہ اور شفیع سپریم کورٹ سے بھی انصاف نہ پاسکیں۔عدل وانصاف کا یہ دن دیہاڑے قتل بھارتی حکمران طبقے کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔