انسانیت کا پرچم لہرانے والے

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 23 ستمبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہماری نفرتوں، تعصبات اور دشمنیوں سے بھری دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان رنگ، نسل، ذات پات، زبان، قومیت، ملک و ملت، دین دھرم کی دیواریں پھلانگ کر انسانیت کی بالادستی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تازہ مثال بھارت کی صف اول کی اداکارہ پریانکا چوپڑا کی ہے جو شامی پناہ گزین بچوں کی مدد کے لیے اردن پہنچ گئی ہے۔ پریانکا چوپڑا اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی خیر سگالی سفیر ہیں۔

پریانکا چوپڑا نے کہاہے کہ ہمیں اپنی آنکھیں اور دل شام کے ان معصوم بچوں کے لیے کھولنا ہوگا جو شام کی بد ترین خانہ جنگی سے متاثر ہوکر ترک وطن کرکے اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ شام سے ترک وطن کرکے اردن سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے یہ بے گناہ اور معصوم لوگ دین دھرم کے حوالے سے مسلمان ہیں اور پریانکا چوپڑا کا تعلق ہندو دھرم سے ہے۔ پریانکا بھارت کی فلم انڈسٹری کی صف اول کی اداکارہ ہے جو اربوں روپوں کی مالک ہے اور عیش عشرت کی زندگی گزار رہی ہیں لیکن وہ ان ساری آسائشوں کو پس پشت ڈال کر اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں اس لیے پہنچ گئی ہے کہ وہ ان معصوم شامی بچوں کی خدمت اور مدد کرنا چاہتی ہے جو شام کی خون آشام زندگی سے گھبرا کر اردن کی پناہ گزین کیمپوں میں ایک تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ پریانکا نے کہاہے کہ متاثرہ بچوں کو یہ بتانا ہے کہ دنیا ان کی پر الم زندگی سے بے خبر نہیں دنیا بھر میں جو کچھ ہورہاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم انسانوں کے درمیان حائل دیواروں کو توڑ کر محبت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کریں میں یہی جذبہ لے کر اردن پہنچی ہوں۔

شام ایک مسلم ملک ہے جہاں کی خانہ جنگی اور دہشتگردی کی مسلسل وارداتوں نے شامی عوام کو اس حد تک مایوس کردیا ہے کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں ترک وطن کرکے یورپ کے مختلف ملکوں میں پناہ تلاش کررہے ہیں۔ میڈیا میں یہ افسوسناک خبریں مسلسل آتی رہتی ہیں کہ شام پناہ گزین کی کشتیاں اور لوڈنگ کی وجہ سے ڈوب رہی ہیں اور سیکڑوں شامی پناہ گزین راستے ہی میں سمندر برد ہورہے ہیں۔ شام میں ویسے تو خانہ جنگی اور مسلکی دہشتگردی کا بازار گرم ہے لیکن یہاں روس اور امریکا بھی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور ان کے ہوائی جہازوں کی اندھی بمباری سے ہزاروں بیگناہ شامی موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔

روس بشارالاسد حکومت کا حامی ہے اور ہر قیمت پر اسد کی حکومت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور امریکا بشارالاسد حکومت کا مخالف ہے اور ہر قیمت پر اسد حکومت کا خاتمہ چاہتاہے اور دونوں بڑے ملک شام میں اپنے مخالفین پر اندھا دھند بمباری کررہے ہیں جس سے خوف زدہ ہوکر لاکھوں شامی امن کی تلاش میں ان یورپی ملکوں میں پناہ تلاش کررہے ہیں ، جہاں کی بھاری اکثریت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ شام کی خوفناک جنگ نے مذہبی تفریق کو ختم کرکے رکھ دیا ہے اور ایک مسلم ملک کے رہنے والے غیر مسلم ملکوں میں اپنا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے شامی بچے مذہبی حوالے سے مسلمان ہیں اور ایک ہندو اداکارہ ان مسلمان پناہ گزین بچوں کی مدد کرنے کے لیے اردن پہنچی ہے اور انسانی رشتوں کی سربلندی کا پرچم لہرا رہی ہے۔

پاکستان میں بھی ایسی شخصیتیں موجود رہی ہیں جو دین دھرم رنگ نسل ملک و ملت کی دیواریں پھلانگ کر انسانیت کی مدد میں ساری زندگی گزارتی رہیں اور اسی مشق کو پورا کرتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں ان میں عبدالستار ایدھی اور جرمنی کی ڈاکٹر روتھ فاؤ سر فہرست ہیں۔ عبدالستار ایدھی اب ہم میں نہیں رہے لیکن پاکستان ہی نہیں ساری دنیا میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ عبدالستار ایدھی ایک ایسا درویش صفت انسان تھا جو ملک کے اندر اور ملک کے باہر جہاں مظلومیت پکارتی تھی وہ لبیک کہہ کر پہنچ جاتا تھا وہ اپنی خدمات پیش کرنے میں ذات پات رنگ نسل ملک و ملت دین دھرم کو آڑے آنے نہیں دیتا تھا صرف اور صرف انسانیت کا پرچم تھامے رہتا تھا آج اس کی خدمات کے عوض اس کے نام کے سکے جاری ہورہے ہیں اور قومی اداروں کے نام عبدالستار ایدھی کے نام پر رکھے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ جرمنی کی رہنے والی تھیں اور انسانیت کا درد دل میں لے کر بھارت جارہی تھیں لیکن بھارت جاتے ہوئے جب وہ کراچی پہنچی تو اتفاق سے انھیں جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھنے کا موقع ملا اور جذام کے مریضوں کی درد زدہ زندگی سے وہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھوں نے کراچی میں ہی پڑاؤ ڈال دیا اور جذام کے مریضوں کی خدمت میں جت گئیں۔ جذام ایک ایسا کریہہ النظر مرض ہے کہ اس کے مریض کے اعضا گلنے سڑنے لگ جاتے ہیں اور مریض کا چہرہ اس قدر خوفناک ہوجاتا ہے کہ انسان اس سے خوف زدہ ہوجاتا ہے اور مریض کے جسم سے اس قدر سڑاند اٹھتی ہے کہ کوئی مریض کے قریب ایک منٹ گزارنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایسے مریضوں کے ساتھ چوبیس گھنٹے رہنا اور ان کی خدمت کرنا کوئی معمولی بات نہیں یہ بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے، مادام روتھ فاؤ نے ان مریضوں کے ساتھ پوری زندگی گزار دی اور ان ہی کے درمیان رہتے ہوئے زندگی کی سرحدیں عبور کر گئیں۔

روتھ فاؤ کی ان ہی بے مثال انسانی خدمات کا نتیجہ تھا کہ اعلیٰ حکام کے علاوہ پاکستان کے چیف آف اسٹاف جنرل باجوہ نے بھی روتھ فاؤ کے سفر آخرت میں شرکت کی اور فوج نے انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ یہ عزت و عظمت روتھ فاؤ کو اس لیے نصیب ہوئی کہ انھوں نے انسانوں کی تقسیم کے ہر حوالے کو پھلانگ کر انسانیت کا پرچم سربلند کیا اور اسی رشتے کے حوالے سے دکھی انسانوں کی مدد کرتی رہیں۔ میں حیران ہو کہ سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں چوٹی کے سیاست دان رہے ہیں بلند مرتبہ حکمران رہے ہیں مقدس مذہبی رہنما رہے ہیں کسی کو عوام اور دنیانے وہ توقیر نہیں بخشی جو عبدالستار ایدھی اور روتھ فاؤ کو نصیب ہوئی۔ جب میں اس سوال کا جواب تلاش کرتاہوں تو میری نظروں کے سامنے انسانیت کا وہ خوبصورت اور دلربا چہرہ سامنے آجاتا ہے جو انسانوں کی تقسیم سے بلند  ہوتا ہے اور عبدالستار ایدھی اور روتھ فاؤ بن جاتا ہے۔ پریانکا چوپڑا ایک ارب پتی ہندو اداکارہ ہے لیکن وہ شام کے مظلوم و معصوم اردن میں اپنے بھائیوں کی بربریت سے گھبراکر اردن کے پناہ گزین کیمپوں میں آبسے ہیں اور پریانکا چوپڑا ان کی مدد ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اردن پہنچی ہے کیا پریانکا قابل احترام ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔