کرغیز خانہ بدوش

محمد زبیر نیازی  اتوار 24 فروری 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 یہاں سڑک نہیں ہے، اس کے والد، جو کبھی اس گائوں کے خان ہوا کرتے تھے، اُنھوں نے بھی اپنی پوری زندگی یہاں سڑک بنانے کی جدوجہد میں صرف کی تھی۔

اُس کا کہنا ہے کہ اِس سڑک کے ذریعے ڈاکٹروں اور ادویات تک بہ آسانی رسائی ممکن ہوسکے گی اور بہت سے لوگوں کو مرنے سے بچایا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ اس سڑک کی بدولت اساتذہ اور تاجر بھی اُن تک پہنچ سکیں گے اور ممکن ہے کہ یہ سڑک افغانستان کے اس دور دراز علاقے میں رہنے والے کرغیز خانہ بدوشوں کی ترقی کا ذریعہ بن جائے۔ یہ سڑک ’’خان‘‘ کو بنوانی ہے اور گاڑی اُس کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے۔

میں نے پوچھا کس طرح کی کار تمہیں چاہیے؟جس قسم کی آپ دینا چاہیں، اس نے کہا اور پھر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

نہ اس وقت ہمارے پاس کوئی کار تھی اور نہ ہی کوئی سڑک۔ ایک بھینسا تھا، جس کی رسی خان نے تھام رکھی تھی اور اس کے ساتھ دوسرے بھینسے روانگی کے لیے تیار کھڑے تھے۔ ہمیں آج روانہ ہونا تھا۔ خان نے سفر کا ضروری سامان بھینسے کی کمر پر لاد دیا، جس میں درجن بھر کیتلیاں، انگیٹھیاں، کار کی بیٹری، دو شمسی پینل، خیمہ اور 43کمبل شامل تھے۔

افغانستان کے کرغیز خانہ بدوش اس طرح کا قافلہ سال میں تین سے چار مرتبہ تیار کر تے ہیں۔ اس کا انحصار موسم کی صورت حال اور جانوروں کے چارے پر ہوتا ہے۔ کرغیز خانہ بدوشوں نے اپنے علاقے کو ’’بام دنیا‘‘ کا نام دے رکھا ہے، جس کا مطلب ہے ’’دنیا کی چھت۔‘‘ کرغیز خانہ بدوشوں کے اس علاقے کو ’’یامیر‘‘ کہا جاتا ہے، جو جنوبی ایشیا کی بلندبالا پہاڑیوں کے بیچ گھرا ہوا ہے۔ ان وادیوں میں سے اکثر کی بلندی 14000 فٹ ہے۔ شدید ہواؤں کے تھپیڑے، فصلوں کا اُگنا ناممکن اور یہاں کا درجۂ حرارت سال کے گیارہ مہینے نقطہ انجماد پر رہتا ہے۔ کئی کرغیز ایسے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا۔

یہ وادیاں افغانستان کے شمال مشرقی سرحد پر واقع ہیں اور اس پٹی کو عموماً ’’واخان کوریڈور‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ 19ویں صدی کی نام نہاد گریٹ گیم کے نتیجے میں وجود میں آیا، جس میں برطانوی اور روسی سلطنتیں جنوبی ایشیا پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے دست بہ گریباں ہوئیں۔ دونوں طاقتیں کئی معاہدوں کے بعد اس علاقے کو بفر زون بنانے پر متفق ہوئیں، جہاں کے ذریعے ماضی کے روس اور برٹش انڈیا ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔ اس سے قبل یہ علاقہ شاہراہ ریشم کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اسے فوجی، سیاح اور مبلغین گزرگاہ کے طور پر استعمال کر تے تھے۔ معروف سیاح مارکوپولو بھی 1200ء میں یہاں سے گزرا تھا۔

روس میں 1917ء اور چین میں 1949ء میں آنے والے کمیونسٹ انقلاب نے بالآخر اس سرحد کو بند کردیا اور یہ اُس پائپ کی مانند بن گیا، جس کا ایک سرا بند ہو۔ لیکن آج نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد، اس راہداری کی سرحد شمال سے تاجکستان، جنوب میں پاکستان اور مشرق میں چین کے ساتھ ملتی ہے، جب کہ افغانستان اس کے مغرب میں واقع ہے۔ راہداری کی لمبائی 200 میل ہے اور یہاں سے افغانستان بہت دور نظر آتا ہے۔

قریب ترین واقع سڑک تک پہنچنے کے لیے تین دن اونچے نیچے پہاڑوں پر سفر کرنا پڑتا ہے، جہاں گرنے کا مطلب موت ہے۔ اس کے علاوہ وہ قصبہ جہاں دکانیں اور اسپتال ہیں، وہاں تک پہنچنے کے لیے اضافی سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس سنگین صورت حال کے باعث کرغیزیوں میں شرح اموات تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں نہ کوئی ڈاکٹر ہے اور نہ ہی کوئی دواخانہ، اگر کسی کو درد سر بھی ہوجائے تو یہ بیماری اُس کی جان لے سکتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کرغیز خانہ بدوشوں کے بچوں میں شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ ہے، کیوں کہ یہاں نصف سے بھی کم بچے بہ مشکل اپنی زندگی کے پانچ سال پورے کر پاتے ہیں۔ یہاں کے والدین کے لیے پانچ چھ یا سات بچے گنوانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ دورانِ ولادت خواتین میں اموات کی شرح بھی انتہائی سطح پر ہے۔

ہم ایک جوڑے سے ملے، بیوی کا نام ہلچہ خان اور شوہر کا نام عبدالمطلب تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان کے گیارہ بچے تھے، ہر سال ایک بچے کا انتقال ہوتا تھا۔ اکثر ایسی بیماری کا شکار ہوئے جس کا علاج بہ آسانی ممکن تھا۔ ان سب کو کفن میں لپیٹ کر قریبی قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ مطلب کا کہنا تھا کہ بچوں کی اموات نے اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے اور اب وہ دونوں میاں بیوی اس درد کو مٹانے کے لیے افیون کا سہارا لیتے ہیں۔ منشیات کی آزادانہ فراہمی کے باعث اکثر کرغیز نشے میں مبتلا ہیں۔ مطلب کا کہنا تھا کہ اُس کا صرف ایک ہی بچہ پانچ برس کی عمر تک پہنچ پایا تھا، لیکن پھر وہ بھی فوت ہوگیا۔ خان کی خواہش ہے کہ کسی طرح سے اس سڑک کو کرغیزیوں کے علاقے تک پہنچایا جائے تاکہ لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت اور دیگر سہولتیں بروقت فراہم کی جاسکیں۔

خان بیرونی دنیا کے بارے میں بھی جانتا ہے۔ اس نے دو مرتبہ ’’واخان‘‘ سے ملحقہ علاقوں کا سفر کیا ہے اور اُن تاجروں کے ساتھ اُس کی گفتگو بھی ہوئی ہے جن سے وہ اپنے جانوروں کے بدلے ضروریات زندگی مثلاً کپڑے، زیورات، افیون، گھوڑوں کی زین، قالین اور موبائل فون خریدتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ موبائل فون استعمال کے لیے نہیں بلکہ موسیقی سننے اور تصویریں کھینچنے کے لیے ہیں۔ خان کا خیال ہے کہ دنیا دن بدن ان کے لوگوں کو پیچھے چھوڑتی جارہی ہے۔ کرغیز خانہ بدوش، جن کی کل آبادی گیارہ سو نفوس پر مشتمل ہے، کے ہاں تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ خان خود بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتا، لیکن وہ یہ جانتا ہے کہ دنیا کاروں اور کمپیوٹر کے ذریعے اسی طرح جُڑگئی ہے کہ ہر شخص کو صحت کی سہولت بہ آسانی حاصل ہے اور بچے اس طرح نہیں مرتے جیسے یہاں مرتے ہیں۔

اُس کا پورا نام حاجی روشن خان ہے اور اس کی عمر32 سال ہے۔ اس کی چار بیٹیاں ہیں۔ کرغیز سُنی مسلم ہیں۔ روشن خان کو 2008ء میں اس کا والد عبدالرشید خان سعودی عرب لے گیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس نے واخان کا علاقہ چھوڑا تھا۔ دوسری مرتبہ گذشتہ برس موسم بہار میں اس نے کابل کا سفر کیا، جہاں اس نے مختلف وزراء کے علاوہ صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی اور اُن سے اپنے علاقے میں اسپتال، اسکول اور سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔

عبدالرشید خان کا 2009ء میں انتقال ہو گیا تھا ۔ وہ بھی اپنے علاقے کا خان تھا، لیکن یہاں قبائلی سردار کا عہدہ موروثی نہیں ہوتا۔ خان بننے کے لیے ضروری ہے کہ قبیلے کے تمام زعماء اُس شخص پر متفق ہوں۔ جس سال عبدالرشید خان کا انتقال ہوا، اُسی سال موسم بہار میں ایک معتبر راہ نما، ’’ایئر علی بے‘‘ نے نئے خان کے انتخاب کے لیے اعلیٰ مرتبے کے کرغیزیوں کو اپنے ہجرے میں جمع کیا۔ کرغیزیوں کی زندگیوں میں اس ہجرے یا کیمپ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ 3 سے 10خاندانوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو اکٹھے سفر کرتے ہیں۔

کرغیز غریب نہیں ہوتے، اگرچہ یہاں کاغذ کے نوٹ موجود نہیں، لیکن اکثر لوگوں کے پاس سیکڑوں قیمتی جانور ہیں، جن میں گھوڑے اور گدھے بھی شامل ہیں، جنہیں وہ سفر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کرغیزیوں کی بنیادی کرنسی ان کی بھیڑیں ہوتی ہیں۔ ایک موبائل فون کی قیمت ایک بھیڑ ہے۔ ایک بھینسا دس بھیڑوں کے برابر ہے، جب کہ ایک بہترین نسلی گھوڑے کی قیمت 50 بھیڑیں ہیں۔ موجودہ دور میں ایک دلہن کی قیمت 100بھیڑیں چل رہی ہے۔ اونٹ عموماً دولت مند افراد کے پاس ہوتے ہیں، جنہیں وہ اپنی شان سمجھتے ہیں۔

ایئر علی بے کے پاس 6 اونٹ ہیں۔ اُس کی عمر57 برس ہے اور وہ دھات کی بنی ہوئی لاٹھی کی مدد سے لنگڑا کر چلتا ہے۔ اسے اپنے واکی ٹاکی پر بات کرنا بہت پسند ہے۔ دو طرفہ بات چیت کا ذریعہ حال ہی میں یہاں آنے والے تاجروں نے متعارف کروایا ہے۔ اس کے ذریعے مختلف کیمپ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ایئرعلی بے اس علاقے کا واحد شخص ہے، جس کے پاس ایک مرغی ہے اور وہ بھی ایک ٹانگ سے لنگڑی ہے۔

تقریباً 40 افراد ایئرعلی بے کے کیمپ میں جمع ہوئے۔ وہ کیمپ کے باہر گول دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ بھیڑ اور بکریاں ذبح کی گئیں۔ یہ کسی بھی تقریب کو شروع کرنے کا روایتی طریقہ ہے۔ تقریباً 8گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں یہ طے پایا کہ حاجی روشن خان ان کا آئندہ ’’خان‘‘ ہوگا۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا اس پر اختلاف بھی تھا، لیکن اب وہی ان کا خان ہے۔ ہجرت کے دن خان کے لیے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آیا سفری سامان سے لادے ہوئے تمام بھینسے سمر کیمپ پہنچ چکے ہیں۔ جون کا مہینہ ختم ہو رہا تھا، لیکن اب بھی برف گر رہی تھی، لیکن خان مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔

خان اور اس کا خاندان موسم سرما میں مٹی سے بنی ہوئی موٹی دیواروں والی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور باقی عرصہ خیمے میں گزارتے ہیں۔ میں نے خان کا ایک سُدھایا ہوا بھینسا سفر کے لیے منتخب کیا اور قافلے میں شامل ہو گیا۔ آپ جہاں بھی نظر دوڑائیں، آپ کو بلندیاں ہی بلندیاں نظر آئیں گی۔ بڑا ہی دل کش منظر ہے۔ دنیا کی اس چھت کے ساتھ ایشیا کی بلند ترین چوٹیاں بھی ملتی ہیں، جن میں ہندو کش، قراقرم بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں واخان کوریڈور، مشرق اور مغرب میں بہنے والے دریائوں کی جنم بھونی بھی ہے، جن میں ’’دریائے آمو‘‘ بھی شامل ہے۔

کرغیز شور شرابے سے دور رہنے والے لوگ ہیں۔ یہ زیادہ ہنستے بھی نہیں ہیں۔ ان کے پاس نہ کتابیں ہیں، نہ پلے کارڈز، نہ کوئی گیم ۔ ان کا ایک رقص ہے جس میں وہ رومال کو لہراتے ہیں۔ میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جسے آرٹ میں دل چسپی ہو ۔ میں نے جس شادی میں شرکت کی وہ بھی بالکل روکھی سی تھی، اُس میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس پر خوش ہوا جاسکے سوائے ایک رسم جسے ’’بزکشی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کھیل پولو کی طرز پر گھوڑوں پر سوار ہر کر کھیلا جاتا ہے، جس میں مردہ بکری کے دھڑ کو گیند کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

کرغیزیوں کے طور طریقوں کو کچھ اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ محفل سے بلامعذرت اُٹھ کر چلے جانا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ایک شخص نے کئی مرتبہ بغیر پوچھے میری جیب میں ہاتھ ڈالا، یہ جاننے کے لیے کہ اس میں کیا ہے۔ کبھی وہ میرا چشمہ اُتار کر اُسے غور سے دیکھتا۔ کرغیز گوشت کی بڑی بڑی بوٹیاں بنا کر کھاتے ہیں اور جو بچ جاتا ہے اُسے اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ یہاں گانے کا کوئی خاص رواج نہیں، جو قابل فہم ہے، کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں کے بارے میں خان کہتا ہے کہ ’’یہاں آپ جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں۔‘‘ پھر جہاں آپ کے گیارہ بچے آپ کے سامنے انتقال کر جائیں تو وہاں کیسے گایا جاسکتا ہے۔

کرغیز خانہ بدوشوں کا حُجرہ بھی کسی حیرت کدے سے کم نہیں ہے۔ آپ جوں ہی اندر داخل ہوتے ہیں ایک نئی دنیا آپ کا استقبال کر رہی ہو تی ہے۔ کمبل، قالینین، دیواروں پر لٹکی اشیاء، ہر چیز منفرد انداز سے سجائی گئی ہیں۔ ہجرے کے بیچ میں یا تو انگیٹھی رکھی جاتی ہے یا پھر ویسے ہی آگ جلائی جاتی ہے۔ یہاں لکڑی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ آگ جلانے کے لیے جانوروں کے گوبر کے اوپلے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چائے کرغیزیوں کی سب سے بڑی سوغات ہے جسے یہ بھینس کے دودھ سے تیار کر تے ہیں اور اس میں شکر کی جگہ نمک استعمال کر تے ہیں۔ ایئر علی بے نے بتایا کہ وہ دن میں 120کپ چائے پیتا ہے۔ دودھ سے بنی اشیا ء مثلاً دہی وغیرہ خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور اس کے ساتھ خمیر کی روٹی کھائی جاتی ہے، جب کہ گوشت خصوصی مواقع پر پکایا جاتا ہے۔

ایک اور دل چسپ چیز جو ہمیں کرغیزیوں کے حجرے میں نظر آئی، وہ یہاں کی خواتین ہیں۔ مرد عموماً ایسا لباس پہنتے ہیں جیسے وہ کسی کے جنازے میں جارہے ہوں، اس کے برعکس خواتین کے ملبوسات فن کا خوب صورت نمونہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے سر پر اسکارف اوڑھا ہوتا ہے۔ شادی شدہ کے لیے سفید اور غیر شادی شدہ کے لیے سرخ اسکارف ہوتا ہے۔ ان کا لباس عموماً سرخ ہوتا ہے، جس پر خوب صورت کڑھائی کی گئی ہوتی ہے۔ انہوں نے بہت ساری چوڑیاں پہن رکھی ہوتی ہیں۔ ان کی درمیان والی انگلی کو چھوڑ کر باقی تمام انگلیوں میں انگوٹھیاں ہو تی ہیں۔

عموماً ایک گھڑی پہننا کافی ہوتا ہے، لیکن یہاں کی خواتین تین تین گھڑیاں پہنی ہوتی ہیں۔ میں نے ایک خاتون کو دیکھا، اُنہوں نے چھے گھڑیاں پہن رکھی تھیں۔ مرد ان کے آس پاس ہوں تو یہ شاید ہی بات کر تی ہیں۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ خاتون سے یہ پوچھ سکوں کہ آخر اُس نے اتنی ساری گھڑیاں کیوں پہن رکھی ہیں؟ اگرچہ میں ایک ہفتہ خان کے گھر میں رہا لیکن میں اُس کی بیوی سے بات نہیں کر سکا۔ اکثر خواتین جن سے میری ملاقات ہوئی، اُنہوں نے اپنی زندگی میں چند میل سے زیادہ سفر نہیں کیا تھا۔

ان کی زندگی کا سب سے بڑا سفر ان کا سسرال ہوتا ہے، جہاں وہ شادی کے بعد جاتی ہیں۔ کرغیزیوں کی شادی والدین کی مرضی سے اور بہت کم عمر میں ہوجاتی ہے۔ خان اور اُس کی بیوی دونوں 15برس کے تھے جب اُن کی شادی ہوئی تھی۔ ایک 70سالہ بیوہ سے میں میری تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اُس کے 5 بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، لیکن وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر خواتین نہ ہوتیں تو یہ مرد ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔

کرغیزخانہ بدوش پوری تاریخ میں کبھی کسی حکومت یا بادشاہ کے ماتحت نہیں رہے۔ ان کی تاریخ دھندلی ہے۔ ان کا ذکر سب سے پہلے دوسری صدی عیسوی کی ایک چینی دستاویز میں ملتا ہے، جس میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ آلٹی کی پہاڑیوں سے آئے ہیں، جو اس وقت سائبیریا اور منگولیا کہلاتا ہے۔

کرغیز خانہ بدوش بعض اوقات رات کے وقت گرم ہجروں میں چائے کی چُکسیاں لگاتے ہیں۔ ان میں اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے،’’کیا جس جگہ وہ رہتے ہیں اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں؟ بعض کا خیال ہے کہ انہیں سابق سوویت ریاست کرغیزستان جانا چاہیے، جہاں ان ہی کی زبان بولی جاتی ہے۔ خان بھی ان خیالات کی نفی نہیں کرتا۔

سمر کیمپ کے دوسرے روز خان کے پاس ایک اہم خبر آئی۔ حکومت کی طرف سے دو انجینئر کابل سے سڑک کا جائزہ لینے آئے تھے۔ خان کی بیوی اپنے ہجرے سے باہر آئی۔ اُس نے خوب صورت اونی لباس پہن رکھا تھا۔ اُس کے چہرے پھیلی خوشی دیدنی تھی۔ شاید ہمارے لوگوں کی قسمت بدلنے والی ہے ’’ہر کوئی خوش ہو گا‘‘ خان نے کہا۔ میں نے وادی پر نظر ڈالی۔ مجھے اُس کا اعتماد حقیقت کے برعکس نظر آرہا تھا۔ ایک ایسا ملک جو خود ہی غربت کا مارا ہوا ہو، وہ چند سو لوگوں کے لیے اتنی بڑی سرمایہ کاری کیوں کرے گا۔

’’کوئی سڑک وڑک نہیں بن رہی۔‘‘ خان نے مجھ سے اتفاق کیا۔ ایئر علی بے نے کہا کہ اس کے والد کے دور میں بھی کچھ انجیئر آئے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ وہ اس سڑک کا سروے کرنے آئے ہیں، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اُس نے کہا کہ سڑک کا بننا خود اُن کے لیے پریشانیوں کا باعث بنے گا۔ اگرچہ اس کے ذریعے اسپتال تک پہنچے میں آسانی ہوگی، لیکن پھر یہاں سیاح بھی آئیں گے اور فوج بھی آئے گی۔ ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کار کی سواری کرنے سے اُنہیں خوشی ملے گی، لیکن یہ جگہ بہت خوب صورت ہے۔ ہم یہاں پیارمحبت سے اور اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے پرامن جگہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔