ہندوستان میں لوگوں نے مان لیا ہے کہ تقسیم کا عمل اب اُلٹ نہیں سکتا

محمود الحسن  اتوار 24 فروری 2013
1857ء میں انگریزوں سے لڑائی کو جنگ کہہ سکتے ہیں، جنگِ آزادی نہیں۔ فوٹو : فائل

1857ء میں انگریزوں سے لڑائی کو جنگ کہہ سکتے ہیں، جنگِ آزادی نہیں۔ فوٹو : فائل

پسِ منظر

گیان پرکاش کا شمار ہندوستان کے نامور تاریخ دانوں میں ہوتا ہے۔

ماڈرن انڈیا کی تاریخ پران کی گہری نظرہے ۔ان کا کام علمی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ان کی پہلی کتاب”Bonded Histories: Genealogies of Labour Servitude in Colonial India” جنوبی بہار میں بندھوا مزدوری (Bonded Labour) سے متعلق تھی، جس میں وہ اس مکروہ نظام کے بارے میں بڑے چشم کشا حقائق سامنے لائے۔اپنی دوسری کتاب”Another Reason” میں انھوں نے انگریز دور میں سائنس کی برتری اور اس کے زیر اثر برصغیرکے باسیوں میں جس ذہنی غلامی نے جنم لیا، اس بابت لکھا ۔ بمبئی کے بارے میں ان کی تصنیف”Mumbai Fables” کی بھی خوب پذیرائی ہوئی۔دو اہم علمی کتابوں کے وہ ایڈیٹربھی رہے۔

ہندوستان میںعام آدمی کے زاویہ نگاہ سے تاریخ دیکھنے کے لیے ممتاز تاریخ دان رنجیت گوہا نے سبالٹرن اسٹڈیز (Subaltern Studies) کو قائم کیا، جس کوتاریخ نویسی میں اہم سنگ میل قرار دیا جاتاہے۔ گیان پرکاش کی علمی مساعی سے متاثر ہوکررنجیت گوہانے انھیں سبالٹرن اسٹڈیز گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی،تو وہ 1992ء میں اس سے جڑگئے ۔ 2003 سے 2008تک شیلبی کولم ڈیوس سینٹر فار ہسٹاریکل اسٹڈیزکے ڈائریکٹر رہے۔ گیان پرکاش نے دہلی یونیورسٹی سے تاریخ میں بی اے آنرز اورجواہر لال نہرویونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا۔

ممتاز تاریخ دان رومیلا تھاپڑ ،عرفان حبیب اور رام سرن شرماسے انھیں پڑھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹریٹ کے لیے یونیورسٹی آف پنسلوینیا کا انتخاب کیا۔ وہ اس وقت پرنسٹن یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ ان کے مضامین ممتاز علمی رسائل وجرائد میں تواتر سے چھپتے رہتے ہیں۔انھوں نے ’’بامبے ویلوٹ‘‘ کے نام سے ہندی فلم بھی لکھی ہے،جو رواں سال ریلیز ہوگی۔ گیان پرکاش گذشتہ دنوں معروف تعلیمی ادارے ’’لمز’’ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے توان سے بات چیت رہی، جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

قسمت کا پھیر گیان پرکاش کو تاریخ دان بنا گیا،وگرنہ انھیں، زمانے کے رواج سے، دوسرے مڈل کلاس گھرانوں کے بچوں کی طرح ڈاکٹریا انجینئر بننے کا لپکاتھا، لیکن ان کے وکیل والد نے جان لیاکہ ہونہاربرواکا اصل میدان آرٹس اور ہیومینٹیزکا شعبہ ہے۔ ادھر بیٹا بضد ،کہ وہ سائنس پڑھے گا۔اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ رہی کہ’’ہمارے سارے دوست سائنس پڑھ رہے تھے، میں نے سوچا اگر میں نہیں کروں گاتوسب یہی کہیں گے،میں بیوقوف ہوں۔‘‘انٹرمیڈیٹ کے بعد انھوں نے سائنس کالج میں اپلائی کیا تو ان کا نام داخلے کے لیے جاری فہرست میں آگیا، جس کو بڑی بہن نے دیکھااور گھرآکر والد کو بتلایا کہ گیان کا نام آگیا ہے، اس پر والد نے بیٹی سے کہا کہ گیان کواصل بات کے بجائے یہ بتایا جائے کہ اس کا نام نہیں آیا۔

باپ کی بات پر بیٹی نے عمل کیا۔اس صورت حال میںگیان پرکاش نے سوچا کہ چلوسائنس نہ سہی آرٹس میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ہم نے ان سے پوچھا’’ والد اس نتیجے پرکس طرح پہنچے کہ بیٹے کا فطری میلان آرٹس یا ہیومینٹز کی طرف ہے۔‘‘اس پر ان کا بتانا تھا’’میری بڑی بہن سیاسیات میں ایم اے کررہی تھیں،اور میں ان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتاتھا، اس سے انھیں اندازہ ہوگیاکہ میرا فطری رجحان کس طرف ہے۔‘‘گیان پرکاش کی بہن کے ساتھ مل کران کے والد نے جو سازش کی، اس کے بارے میں انھیں اس وقت معلوم پڑا،جب وہ ایم اے کررہے تھے، بہن نے بتایا کہ تمھارا نام آگیا تھا لیکن بابوجی کے کہنے پرنہیں بتایا۔’’اس پرمجھے غصہ تو آیا پھر سوچا، اچھا ہی ہوا سائنس میں جاتا تو ڈاکٹر بننے کی کوشش کرتا۔‘‘

آرٹس میں تووہ چلے گئے لیکن تاریخ کی طرف کیوں گئے، اس کی وجہ ان کے خیال میں یہ رہی ’’ جو بہن سیاسیاست میں ایم اے کررہی تھیں، ان کی کتابوں میں جنگ عظیم اول ودوم کے بارے میں کتاب تھی، جس کو دل چسپی سے پڑھا، اس رو میں ایک اور کتاب جو میرے زیر مطالعہ رہی ، وہ کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ سے متعلق تھی،تو اس سے تاریخ میں تھوڑی بہت دل چسپی پیدا ہوگئی۔ دوسرے میں اکنامکس میں جاسکتا تھا لیکن بی اے میں تاریخ کے استاد، امتیاز حسین نے تاریخ کے مضمون میں دلچسپی بڑھانے میں بڑا بنیادی کردار ادا کیا۔وہ خود لندن سے پی ایچ ڈی تھے۔نئی نئی کتابیں پڑھنے کو دیں۔ڈسکشن کراتے تھے۔ہر مہینے ان کے گھر پارٹی ہوتی ،جس میں بڑے بڑے تاریخ دانوں کے علاوہ اور بھی بڑے پڑھے لکھے لوگ آتے، تو ان محفلوں میں بھی جانا رہتا۔دنیا بھر سے ان کے ہاں رسائل وجرائد آتے تھے، مثلاً ٹائم لٹریری سپلیمنٹ میں نے پہلی بار انہی کے ہاں دیکھا۔‘‘

گیان پرکاش نے بمبئی ایسے منفرد شہر پرکتاب لکھی، منٹوکی شہری زندگی سے متعلق کہانیوں کے وہ بڑے معترف ہیں ، اسی طرح شہری زندگی کی عکاس دیوآنندکی فلموں کے بھی دیوانے رہے ، ان سب باتوں کی روشنی میں ہم نے ان سے جاننا چاہا کہ آخر شہری زندگی میں میں ایسی کیا خاص بات ہے، جو انھیں اپنی طرف کھینچتی رہی ہے؟ ان کے بقول’’ شہری زندگی سے مجھے ہمیشہ بڑی دل چسپی رہی ہے۔شہرمیں مختلف طرح کے لوگوں سے ملا جلا کرمعاشرہ بنتاہے۔گائوں میں سب کو ایک دوسرے کا پتا ہوتا ہے۔ گائوں میں تعلق اور دوستی ، خاندان اور ذات برادری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

شہر میں آپ کا کسی سے ذات کا ناتا نہیں،مذہب کا ناتا نہیں، خاندان کا ناتا نہیں لیکن آپ شہر میں کس سے مل لئے اور دوستی ہوگئی۔اس لیے مجھی ہمیشہ شہر میں بڑے امکانات نظر آئے۔شہر میں لوگ روایت کے قیدی نہیں، خاندانی تاریخ کے قیدی نہیں۔یہاں اپنی زندگی نئے طرح سے بنانے کی آزادی ہوتی ہے۔شہر میں تخلیقی کام کی بہت گنجائش ہے، اس لیے مجھے اس طرح کا ادب اور فلم زیادہ پسند رہا، جس میں شہری زندگی نظر آتی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹوان کے پسندیدہ لکھاریوں میں شامل ہیں، ان کا ذکر ہوا تو وہ بتانے لگے ’’ لوگ منٹو کو زیادہ تر تقسیم کے بارے میں اس کی کہانیوں کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن مجھے منٹو کاجو کام اچھا لگاوہ اس کی شہری زندگی سے متعلق کہانیاں ہیں۔ شہر کے بڑے کام کرداروں کے بارے میں لکھتے تھے، جیسے جیب کترہ ہے،دلال ہے، طوائف ہے۔شہر میں ہمیشہ بدلاؤ ہوتا رہتا ہے، اور بہت تیزی سے ہوتا ہے۔اس سارے کے بارے میں میرے خیال میں منٹو سے بہتر کسی نے نہیں لکھا۔‘‘

٭ہندی میں بھی نہیں؟
’’میرے خیال میں ہندی میں بھی ایسا کوئی لکھاری نہیں، جس نے شہر کے بارے میں اس طریقے سے لکھا ہو۔پچاس اور ساٹھ کی دہائی میںان ہندی لکھنے والوںنے شہر کے بارے میں لکھا جو کسی چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں پہنچ گئے،یعنی دلی سے لکھ رہے ہیں لکھنؤ ، الٰہ آباد اور آگرہ کے بارے میں،یعنی وہ اس شہر کے بارے میں لکھ رہے ، جو انھوں نے چھوڑ دیا، یعنی ناسٹلجیاہے ان کا اس شہرکے بارے میں۔لوگ کہتے بھی تھے کہ دہلی کے تو کھاتے تھے لیکن اس کے بارے میں لکھتے نہیں تھے، اور ایسا تھا بھی کہ دہلی میں رہنا اور بنارس کے بارے میں لکھنا۔منٹو کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ شہر میں جتنی طرح کے لوگ تھے، ہندو، مسلم، سکھ اور یہودی سبھی آتے ہیں۔ ایک شہرکا جو تنوع ہوتا ہے،وہ منٹو کی کہانیوں میں آتا ہے۔تین چار صفحوں میں وہ کافی کچھ کہہ دیتا ہے۔ہندوستان میں 1992ء میں جو فسادات ہوئے، اس کے بعد منٹو کی مقبولیت بڑھی، کیوں کہ منٹو لوگوں کو ایسا مصنف لگا جو نیشنل ازم اور مذہبی تعصب کے خلاف بات کرتا ہے۔ ‘‘

٭ 1857ء میں انگریزوں سے ہندوستانیوں کا جو معرکہ ہوا، اس کے بارے میں مختلف نظریات رہے ہیں، کوئی اسے غدر تو کوئی جنگ آزادی قرار دیتا ہے، اس بارے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
’’1857ء میں جو ہواوہ ردعمل میں تھا۔مختلف قوتیں اپنے اپنے مقصد کے ساتھ انگریزوں سے لڑیں۔دہلی میں بہادر شاہ ظفرتھے، جو نیم دلی سے اس لڑائی میں شامل ہوئے ، اس لیے آپ اگر دیکھیں تو اعظم گڑھ ڈیکلریشن جو ہے، اس کی زبان زیادہ سخت نہیں اور بڑے گول مول انداز میں لکھا گیاہے۔لکھنؤ میں حضرت محل، کان پور میں نانا صاحب تھے، اس طرح اورراجا مہاراجہ، زمیندار اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے لڑ رہے تھے،ان کا مقصد آزادی تھی تاکہ وہ پہلے کی طرح سے اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں، لیکن کوئی نیشن اسٹیٹ قائم کرنے کی خواہش ان کے ہاںنہیں تھی۔ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے زمیندارلڑ رہے تھے، کسانوں کا غصہ تھا۔ان سب میں مشترک یہ تھا کہ انگریزوں کو اقتدار سے نکالناہے۔ان کی اپنی اپنی خواہش تھی،طرح طرح کے لوگوں کی خواہش تھی، اس لیے یہ جنگ تو تھی، جنگ آزادی نہیں تھی۔ انگریزوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ مسلمانوں کی بغاوت تھی کیوں کہ انھوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا اور مغل کو ہٹایا تھا۔لیکن نیشنلسٹ نظریہ تھا کہ ہندوستانیوں کی جنگ ہے، جس میں ہندو اور مسلمان دونوں نے حصہ لیا۔سب سے پہلے جنگ آزادی کی اصطلاح دمودرساواکر نے اپنی کتاب میں استعمال کی جنھوں نے ہندتوا کا تصور دیا۔تاریخ دانوں نے یہی کہا کہ یہ نیشنلسٹ بغاوت تھی،پھر سبالٹرن اسٹڈی والوں نے آکر کہا کہ یہ بغاوت تو تھی، لیکن کسانوں، زمینداروں ، راجوں ، مہاراجوں کی بغاوت بھی تھی۔ ‘‘
٭تقسیم کے موضوع پرادیبوں اور تاریخ دانوں دونوں نے بہت کچھ لکھا ، لیکن عام تاثر یہی ہے کہ اس واقعہ کو سمجھنا ہے تو تاریخ سے زیادہ ادب کارآمد رہے گا۔ کیا تاریخ دان اس موضوع سے انصاف کرنے میں ناکام رہے ہیں، جوایسی بات کہی جاتی ہے؟

’’تقسیم پر زیادہ تر کام برطانوی اور بھارتی تاریخ دانوں نے کیا ہے، ان کی زیادہ تر توجہ اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ ٹاپ لیول پر کیا بات چیت ہورہی ہے۔مائونٹ بیٹن نے کیا کہا، جناح نے کیا کہا، نہرو نے کیا کہا،بات کیسے بگڑی۔لیکن لوگوں کے ذہنوں میں کیا چل رہا ہے یا جو فساد ات کا تجزیہ ہے، اس پرکسی نے خاص بات نہیں کی۔لوگوں کے جذبات اورفساد کے بارے میں جتنی بات تھی، وہ پہلے لوگ زیادہ تر ادب سے ہی جانتے تھے لیکن پچھلے دس سالوں میں کچھ بدلائو آیا ہے اور وہ اب بجائے اس کے کہ کس نے کیا کہا اس سے الگ ہٹ کر دیکھ رہے ہیں کہ تقسیم میں لوگوں کے ساتھ اصل میں کیا ہوا۔تاریخ دانوں میںوہ کچھ ایسے ضرور موجود ہیں، جن کا کام متاثر کن لگا،ان میں ڈیوڈ گلمارٹین ، عائشہ جلال اور گیان پانڈے شامل ہیں۔ ‘‘

٭ ہندوستانی تاریخ دان نے تقسیم کو کس نظر سے دیکھا؟
’’ ہندوستانی تاریخ دان جب لکھتے ہیں تو تقسیم کے لیے وہ جسم کے حصے بخرے ہونے کا استعارہ استعمال کرتے ہیں۔ہم نے ایک سے سوال بھی کیا کہ اگرآپ یہ استعارہ استعمال کریں گے تو کیا پاکستانی تاریخ دان اس طرح کا استعارہ استعمال کریں گے؟وہ تو جسم کے جدا ہونے کے بجائے یہی کہیں گے کہ تقسیم سے تو انھیں آزادی ملی، جسم کا ایک حصہ بکھرنے کا تو وہ نہیں سوچیں گے۔ ہندوستان میں لوگوں نے مان لیا ہے کہ تقسیم ایسی چیز ہے، جس کو آپ الٹ نہیں سکتے لیکن تب بھی لگتا ہے شاید کہیں احساس ہے کہ کہیں کچھ غلطی ہوگئی، اس لیے جب کچھ برس قبل ایڈوانی نے اپنی کتاب میں جناح کو سیکولر سیاستدان کہا تو بی جے پی نے خاصا برامانا۔‘‘

ہم نے ہندوستان میں خالص ہندی زبان کے رجحان کے بارے میں استفسار کیا تو وہ کہنے لگے۔ ’’ ایک تو ہوتا ہے کہ ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ ہماری بھاشا بالکل خالص ہے۔دانشورانہ ہے تو آپ تھوڑا سنسکرت ڈھنگ میں بولتے ہیں۔47ء کے بعد حکومت کی کوشش رہی ہے کہ ہندی کو ایک دم اردو سے الگ زبان کیا جائے تو اس میں سنسکرت وغیرہ اور بڑھ جائے، یہاں شاید اردو میں فارسی زیادہ آگئی ہے۔اردو ادب پہلے سے یعنی انیسویں صدی میں قائم ہوچکا تھا، ہندی ادب بعد میں آیا ، جس سے اسے ہمیشہ یہ اضطراب رہا کہ ہم اپنے ادب کو کیسے قائم کریں۔ہندی والوں کا کہنا تھا کہ ہندی کو جتنا آپ خالص رکھیں گے، وہ اتنی ہی زیادہ مضبوط ہوگی، تواس کا بھی اثر ہے۔ جیسے فلم میں جس زمانے میں اردو کے بڑے بڑے ادیب فلم میں جارہے تھے کہ ان کے لیے یہ روایتی اردو ادب سے ہٹ کر چیز تھی، جبکہ ہندی ادب اس سمے خود کو قائم کرنے کی کوشش کررہا تھا اور وہ خالص پن چاہ رہے تھے ، اور سینما ان کے لیے اچھبیلی چیز تھی، اس لیے سینما کی طرف وہ نہیں گئے۔اردو لکھاریوں کے لیے یہ اور میڈیم تھا، اور اردو ادب پہلے سے قائم ہوچکا تھا جبکہ ہندی میں ایسی صورت حال نہیں تھی۔‘‘

٭ یہ جو اب اکثرتاریخ سے متعلق کتابوں کے سرورق پر لکھا ہوتا ہے،اس کتاب کو ناول اور تھرلر کی طرح پڑھیں، تو کیا تاریخ کامضمون خود کوئی خشک مضمون ہے، جو ایسے لکھا جاتا ہے، دوسرے ولیم ڈیل رمپل جیسے تاریخ دان ہیں،جو جن لوگوں کے بارے میں لکھ رہے ہیں، ان کی زبان ہی نہیں جانتے تو وہ کس طرح سے ان کی معاشرت اور تاریخ کو بیان کرسکتے ہیں؟
’’ بہت سی ایسی کتابیں بھی دلچسپ ہوتی ہیں، جس میں کوئی کہانی نہیں،مثلاً کارل مارکس کو پڑھتا ہوں تو اس میں کہانی نہیں لیکن بہت دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔آپ کو لگتاہے جیسے آپ کچھ سیکھ رہے ہیں۔اکیڈمک رائٹنگ میں لکھنے والے دکھانا چاہتے ہیں کہ انھیں اس اس بات کی سمجھ ہے اور وہ بہت سے لکھنے والوں سے واقف ہیں، ایسے لوگ بہت زیادہ فٹ نوٹ بھی لکھتے ہیں، جس سے لوگ تھوڑا تنگ آجاتے ہیں۔یہ جو ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ کہا ، انھوں نے یہ کہا ، تو اس میں لکھنے والا دوسروں کا سہارا لے رہا ہوتا ہے، بات یہ ہے کہ بھئی!آپ کیا کہہ رہے ہیں،اس طرح کا انداز تحریر مجھے پسند نہیں۔مارکس مجھے بہت پسند ہیں۔گرامچی ہیں۔ایرک ہابس مین ہیں۔رنجیت گوہا، پارتھا چیٹر جی، دبیش چکربتی اور شاہد امین کا کام بھی پسند ہے۔ولیم ڈیل رمپل کی ’’دی لاسٹ مغل‘‘ اچھی لگی، ہم نے اس پر لکھا بھی، دلی میں بغاوت کے بارے میں ان کی طرح سے کسی نے نہیں لکھا۔ مقامی زبان نہ جاننے کا انھیں ڈس ایڈوانٹیج ہے لیکن وہ مترجم کی مدد سے ماخذ دیکھ لیتے ہیں، جیسے ’’لاسٹ مغل‘‘ کے معاملے میں محمود فاروقی نے ان کی مدد کی۔افغان وار پر ان کی کتاب کی تعریف سنی ہے، ابھی پڑھی نہیں، تو اس میں بھی ماخذات پشتو کے ہوں گے ، جو وہ نہیں جانتے۔میرے لیے پڑھتے وقت سب سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ میں کوئی نئی چیز سیکھ رہا ہوں یا نہیں۔‘‘

٭تاریخ نویسی خالصتاً علمی نوعیت کا سروکارہے، اب آپ نے فلم لکھ ڈالی ہے ، جو بالکل مختلف کام ہے،اس حوالے سے آپ کی شہرت ہوگی تو وہ جو اصل حیثیت ہے، وہ پیچھے نہیں چلی جائے گی، دوسرے علمی کاموں سے توجہ بھی منتشر نہیں ہوگی؟
’’ فلم جو ہے وہ تاریخ سے بالکل مختلف چیز ہے۔بہت سے جاننے والے مذاق میں کہتے ہیں کہ اچھا فلم بن رہی ہے، اس میں میرا رول کیا ہوگا۔بمبئی پر کتاب شائع ہوئی تو ادھر بہت سے صحافیوں نے انٹرویو لیا تو کتاب کے بارے میں تھوڑا بہت پوچھا مگر زیادہ وہ جاننا چاہتے تھے ، فلم کے بارے میں، مثلاً کیسے لکھی، کون کون ہوگا فلم میں ،تو اس سے میں تھوڑا چڑا بھی کہ بھئی!میں نے کتاب لکھی ہے تو اس کے بارے میں بات کیجیے۔مجھے کبھی یہ نہیں لگا کہ کتاب لکھنے اور فلم لکھنے میں اسٹیٹس کا کوئی فرق ہے۔ایسی شہرت ابھی تک تو ہوئی نہیں، جس سے پریشانی ہو، ویسے بھی بمبے میں فلم کے بارے میں جب بھی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں ، ایکٹر کون ہیں، ڈائریکٹر کون ہیں، جس نے لکھا ہو، اس کی طرف کم ہی توجہ جاتی ہے۔‘‘

٭فلم کے بارے میں کچھ بتائیں؟
’’بمبئے ویلوٹ‘‘ ساٹھ کی دہائی کے بارے میں ہے،اور اس بمبئی کی کہانی ہے، جو تبدیل ہورہا ہے۔وہ باتیں ، جو کتاب میں نہیں آسکتی تھیں، ان کو فلم میں کرسکتا تھا اور اس میں آزادی بھی ہے کہ آپ تھوڑا فکشن بھی ملاسکتے ہیں۔رنبیر کپور ،انوشکا شرما اور نصیرالدین شاہ اس فلم میں ہیں، اور اس کے ڈائریکٹر انوراگ کشیپ ہیں، جنھوں نے ’’گینگز آف واسع پور‘‘کو بھی ڈائریکٹ کیا ہے۔فلم اس سال کے آخرتک ریلیز ہوجائے گی۔‘‘

٭ تاریخ سے متعلق کس موضوع پرآیندہ کام کا ارادہ ہے؟
’’ مستقبل میں اندرا گاندھی کے دور میں نافذ کردہ ایمرجنسی پر کام کرنے کا ارادہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ 47ء سے جوجمہوریت کی تاریخ ہندوستان میں چلی آرہی تھی، ایمرجنسی بس اس سے انحراف تھی، میں اس طرح نہیں سمجھتا، اور میرے خیال میں ایمرجنسی سے ایک بنیادی ٹرانسفارمیشن ہوا،اور سیاست کا جو نقشہ بعد میں بنا، اس کو آپ ایمرجنسی کے بنا سمجھ نہیں سکتے۔‘‘

بمبئی کے بارے میں کچھ باتیں

بمبئی ایسا شہرہے، جس کی کوئی پرانی تاریخ نہیں، مثلاً دہلی کی تاریخ کی بات کرتے ہیں تو لوگ مغل دور کی بات کرتے ہیں یا پھر اس سے بھی پہلے کی۔بمبئی کی انگریزوں سے پہلے کوئی خاص تاریخ نہیں تھی، اس لیے یہاں ہرچیز میں نیاپن تھا،لوگ نئی نئی چیزوں کے لیے آگے رہتے ،اس سے میں بڑا متاثر تھا اور اس شہر سے مجھے بچپن سے عشق تھا۔ بمبئی پر کام شروع کیا تو کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ اس شہر کے نہیں ہو تو اس شہر پر کام کیوں کررہے ہو۔بمبئی والوں کو یہ اعتماد تھا کہ بھئی!اگر آپ نے کسی شہرپر کام کرنا ہے تو وہ بمبئی ہی تو ہے اور کون سا دوسرا ایسا شہر ہوسکتا ہے، جس پر آپ کام کریں گے۔

شیوسینا نے شہرپرقبضہ کیسے جمایا؟
کتاب لکھنے کا خیال یوں آیا کہ ایک بار بمبئی گیا تو چاروں طرف شیوسینا کے جھنڈے لہرا رہے تھے، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک زمانے میں ادھر لال جھنڈے لگے ہوتے تھے، تو میں نے سوچا کہ شیوسینا کے جھنڈے نے کیمونسٹوں کے سرخ جھنڈے کی جگہ کیسے لی۔سمجھنے کی بات ہے، جس جگہ پر ٹریڈ یونین اور کیمونسٹوں کا اثرتھا، ادھر شیو سینا نے اپنا رسوخ کیسے بڑھایا اور اب یہ حال ہے کہ وہ جب چاہے شہر مفلوج کر سکتی ہے۔ اب میں نے تحقیق شروع کی اور انجمن ترقی پسند مصنفین پر پہنچ گیا۔اور میں نے جانا کہ جس زمانے میں یہ تحریک عروج پر تھی تو صرف ادیب نہیں، جتنے بھی ایکٹوسٹ تھے، وہ ادب میں رہے ہوں، سیاست میں ، آرٹ میں، اداکاری میں ، سبھی بمبئی کا رخ کرتے تھے، کیوں کہ ادھر جوامکانات تھے، وہ چھوٹے شہروں یا گاؤں میں نہیں تھے۔

کیمونسٹ مزدوروں کو منظم کرنا چاہتے تھے، اس لیے وہ بمبئی پہنچے۔کلچرل کام کے لیے کافی لوگ آئے، جیسے مراٹھی میں جو تھیٹر اور تماشا ہوتاتھا، اس کو وہ گائوں سے شہر لے آئے، جیسے امرشیخ تھے، وہ ٹریڈ یونین میں تھے، ان کو ہم نے تماشا کرتے دیکھا بھی ہے۔ٹریڈ یونین کا بمبئی میں اثر ہم نے بھی دیکھا ہے۔یہ اثر فیکٹری کے علاوہ روزمرہ زندگی میں بھی آگیا تھا۔تو اس سمے سے ہم شیوسینا کے اثر تک کیسے پہنچے ، اس کی وجوہات کی کھوج مجھے رہی۔صورت حال میں تبدیلی میرے خیال میں ستر کی دھائی میں آنا شروع ہوئی،اس زمانے میں ایک تو مل ختم ہوگئے، اور پاور لومز انڈسٹری آگئی،ادھر اس طرح لوگ نہیں ہوتے جیسے مل میں ہوتے ہیں، تو اب ٹریڈ یونین ختم ہونا شروع ہوئی۔

پاور لومز انڈسٹری بمبئی کے قریب گونڈی میں شروع ہوئی، مل والے اس کا مقابلہ نہیں کرپاتے تھے، جس کے ردعمل میں1982ء میں ہڑتال ہوئی، جو officially ابھی تک ختم نہیں ہوئی، اور اس کو دنیا کی سب سے طویل ہڑتال کہا جاتا ہے۔مل مالکان نے کچھ منافع تو فیکٹری میں لگایا اور باقی سارا دوسری جگہوں پر جیسے ریئل اسٹیٹ وغیرہ میں ۔دوسرے کیمونسٹوں کی نظر ہمیشہ دلی کی طرف رہی۔وہ جو عوام کی روز کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا۔انقلاب کا ایک روزمرہ معنی بھی ہوتا ہے۔

اس میں روزمرہ زندگی کی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ہم کہاں پر رہتے ہیں؟ ہمارے گھر کہاں ہیں؟انٹرٹینمنٹ کیا ہے؟بچے اسکول جاتے ہیں؟کلچر کیا ہونا چاہیے؟ ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔کیمونسٹ سیاست میں بھی کچھ ہی حد تک کامیاب رہے اور اب تو بنگال میں بھی ان کا اقتدار ختم ہوگیا ہے۔مل ختم ہوئی تو ٹریڈ یونین بھی دم توڑ گئی، پھر شیوسینا آگئی، جس نے زبان کی بنیاد پر ورکروں کو منظم کیااور کہا کہ کلاس سے بڑھ کر زبان کی اہمیت ہے، مل میں زیادہ تعداد مراٹھی مزدوروں کی تھی، اس کا بھی انھیں فائدہ ہوا۔

کرشنا ڈیسائی کی موت ۔۔۔۔۔ ٹریڈ یونین کے لیے بڑا دھچکا
کرشنا ڈیسائی ٹریڈ یونین میں بہت مقبول لیڈر تھے،خود بھی مل ایریا میں رہتے تھے۔مہاراشٹرا سے ایم ایل اے بھی بنے۔ ہم نے ان کا گھر دیکھاہے۔جھونپڑی ٹائپ تھا۔بیوی بچوں کے ساتھ اسی میں رہتے تھے۔اس قسم کے لیڈر تھے، یہ نہیں ہوا کہ ایم ایل اے بن کر وہ بنگلے میں چلے گئے۔کچھ دادا ٹائپ کے بھی تھے‘ تو شیوسینا کو ان سے بہت ڈر تھا۔ 70ء میں ان کا انھوں نے قتل کردیا۔جتنے لوگ اس قتل میں پکڑے گئے وہ شیو سینا کے لوگ تھے۔یہ کوئی ثابت نہیں کرپایا کہ بال ٹھاکرے یا شیو سینا کی لیڈر شپ نے انھیں قتل کرنے کاآرڈر دیا تھا لیکن یہ تاثر رہا کہ شیوسینا اس قتل کے پیچھے ہے۔اس کے بعد جو ضمنی الیکشن ہوا تو اس میں کرشنا ڈیسائی کی بیوی ہار گئی ، اس کے بعد کیمونسٹ کمزور ہوئے اور شیوسینا زیادہ متحرک ہوئی۔

شہر کی شکل کب بدلنا شروع ہوئی؟
بمبئی شہر کی تاریخ عام طور پرعروج وزوال قسم کی لکھی جاتی کہ ایک سمے وہ تھا، جب شہر عروج پرتھااور اب سب کچھ ختم ہوگیا۔میں نے اس شہر کی تاریخ کو اس زاویہ نگاہ سے بیان نہیں کیا۔ٹھیک ہے بمبئی شہر میں بہت تبدیلی آئی ہے لیکن اب اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ سب کچھ ختم ہوگیاہے تو وہ بات بھی درست نہیں۔ابھی بھی لوگ بمبئی آتے ہیں۔کیوں آتے ہیں، ٹھیک ہے روزی روٹی کے لیے آتے ہیں لیکن جب آتے ہیں تو بمبئی ایک طرح سے ان کا گھربن جاتاہے۔میں جب بمبئی پر تحقیق کررہا تھا تو ایک ٹیکسی ڈرائیورکے ساتھ تین چار دن رہا، اس سے میں نے پوچھاکہ اس کا گھرکہاں ہے تو کہنے لگا،اعظم گڑھ میں ہے، میں نے کہا کہ اچھا تو تم واپس جائو گے۔اس پر وہ بولا،نہیں واپس کیسے جائوں گا، بیوی بچے سب بمبئی میں ہیں۔تو پھر اعظم گڑھ میں گھر کا مطلب؟کہنے لگا کہ ادھر گھر اس لیے ہے کہ ایک یقین رہتا ہے کہ اگر یہاں کچھ نہیں ہوا اور کہیں جانا پڑ گیا تو اعظم گڑھ تو ہے۔اس لیے بمبئی میں ایک طرح سے عدم تحفظ بھی ہے مگر اس کے باوجود لوگ ادھر رہنا چاہتے ہیں اور اس میں صرف پیسے کا معاملہ نہیں۔

اس ٹیکسی ڈرائیور سے ہم نے پوچھاکہ دن بھر ٹیکسی چلا کر گھر لوٹ جاتے ہوگے تو کہنے لگا کہ نہیں صاحب ٹیکسی میں رہنے کا بھی اپنا ایک مزا ہے۔کبھی ایک سواری سے بات کی اور کبھی دوسری سواری سے۔کبھی دریا کے پاس گیا تو کبھی پہاڑ کے پاس۔روزانہ گھر جائوںگا تو وہی نمک تیل کی بات ہوگئی۔80ء کی دہائی میں بمبئی کی شکل بدلنا شروع ہوئی، جب انڈر ورلڈ ، بلڈرز اور سیاست دانوں کا گٹھ جوڑ ہوا۔مل انڈسٹری کا ٹوٹنا اس کے پیچھے بہت بڑی وجہ ہے۔مل مالک پہلے مل میں پیسے ڈالتے تھے، بعد میں انھوں نے پیسے ریئل اسٹیٹ میں لگانا شروع کردیے۔ انڈر ورلڈ پہلے تو شراب اور سونے کی اسمگلنگ کرتے تھے،ایسا کرنا ممکن نہ رہا تو انھوں نےextortionشروع کیا۔پیسوں کے لیے اغوا کرنے لگے۔اس زمانے میں ریئل اسٹیٹ انڈسٹری بن رہی تھی، جس میں بلڈرز تھے، وہ لائسنس کے لیے سیاست دانوں کے پاس آئے اور یوں دونوں کا گٹھ جوڑ ہوگیا ، تو انڈر ورلڈ والے آگئے کہ اگر آپ بلڈنگ بنائیں گے تو ہمیں کیا حصہ دیں گے۔

80ء کی دہائی میں ان کا بہت زیادہ بول بالا ہوگیا۔اب انڈر ورلڈ والے تو اس کام میں اتنے نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے بہت تو خود بزنس مین بن گئے ہیں لیکن وہ جو زمین کا گھٹالا ہے وہ چلتا رہتا ہے۔ مثلاًآدرش ہائوسنگ اسکیم بنی تو ان فوجیوں کے لیے تھی جو ملک کے لیے قربانی دیتے ہیں لیکن ان کے علاوہ اور بھی جن جن کی پہنچ تھی، انھوں نے زمین حاصل کی۔اب ہماری کتاب میں ذکر ہے،Nariman Pointکا، وہ جس زمین پر بنا وہ دریا کی زمین تھی، چند بلڈرز کو privately اس کا کنٹریکٹ دے دیا گیا۔اخبارمیں جب یہ چھپا کہ پبلک آکشن کے بغیر بلڈرز کو دے دیا گیا ہے تو بہت بڑا گھٹالا ہوا۔ یہ سب سامنے اس لیے آیا کہ ایک افسرجس کو یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا اس نے معاملے کی تفصیلات اخبار کو دے دی،اس پر خبر چلی ، انکوائری ہوئی، مقدمہ ہوا، عدالت نے کہا کہ آپ زمین privately نہیں دے سکتے لیکن اس وقت تک زمین دی جاچکی تھی، جس زمین پر وہ بلڈنگ بنی اس کو ری کلیم کیا گیا، جبکہ اصل میں ایسا نہیں تھا۔

سرکاری دفتر میں کام کرانا ہے تو بمبئی نہیںممبئی بولیے
شیوسینا کی جب تحریک شروع ہوئی تو پہلے انھوں نے کہا کہ بمبئی مہاراشٹرا کا حصہ بنے گا۔پھرکہنے لگے کہ بمبئی مراٹھی لوگوں کی ہے، اس کا نام بھی مراٹھی میں ہونا چاہیے۔گجراتی اور مراٹھی میں لوگ پہلے بھی ممبئی کہتے تھے۔اب اگر آپ جائیں اور ٹیکسی ڈرائیور سے بات کریں تو وہ اگربہار یا یوپی سے ہوگا تو وہ بمبئی بولے گا۔ہندی، انگریزی میں بمبئی ہی چلے گا۔روزمرہ کی سطح پربمبئی بھی چلے گا اور ممبئی بھی چلے گا۔یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بولنے والا کس زبان کا ہے۔میرے بہت سے دوست مراٹھی ہیں لیکن وہ ممبئی نہیں بولتے کہ یہ ایک پالیٹکل کمنٹ ہوجاتا ہے ۔سرکاری دفتر میں اگر آپ کام کرانا چاہتے ہیں تو پھربمبئی نہیں، ممبئی ہی کہنا پڑے گا۔اس میں کچھ تو یہ ہے کہ سرکاری دفترہے، دوسرے شیوسینا کا اثربھی کچھ نہ کچھ تو پھیلا ہے۔

کچھ متفرق خیالات
بمبئی پر کام کررہا تھا تو ہندی کامک ’’ڈوگا‘‘ مل گئی، وہ پڑھنی شروع کی جو خاص طور سے نوجوانوں میں کافی مقبول تھی۔اوربمبئی کے کچھ علاقوں میں زیادہ مشہور تھی۔ یہ 92ء سے شروع ہوتی ہے، اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس میں بمبئی میں جو کچھ ہورہا ہوتا اس کے آس پاس کہانی چلتی ہے۔جیسے بمبئی میں 1992-93 میں بمبئی میں فساد ہواتو اس سے متعلق بھی ’’ڈوگا‘‘ کی دو تین کہانیاں تھیں،جو مجھے سیاست دان اور پولیس کے بیچ گٹھ جوڑکے بارے میں لگیں،’’ڈوگا‘‘کے ذریعے شہر میں جو ہورہاہے، اس کا بھی ایک نقشہ ذہن میں آتاہے ، تو اس کا پتا چلا تو ’’ڈوگا‘‘ کو پڑھا تو اس میں بھی کچھ سمے لگ گیا۔

کتاب میں ایک باب بمبئی اور ٹبلائیڈپر ہے، جس میں 1959ء میں کے ایم ناناوتی کیس پر بھی لکھا ہے جو بہت مشہور ہوا تھا، جس میں نانا وتی پر اپنی بیوی کے محبوب کو قتل کرنے کے معاملے پر کیس چلا اور اس کا میڈیا بھی بہت زیادہ چرچا رہا۔کتاب میں بمبئی اور فلم انڈسٹری کا جو تعلق ہے ، اس کا تفصیل سے بیان ہے،تین ایسے بھائیوں کے بارے میں لکھاہے، جنھوں نے اپنے ہیرو دیوآنند کا رنگ ڈھنگ اختیار کررکھا تھا ۔ انھیں دیوآنند برادرز کہا جاتا تھا۔ ہمارے ایک چچا تھے، جووالد سے عمر سے کافی چھوٹے تھے تو والد نے ان کو پالا پوسا، میرے بچپن میں جب وہ فرسٹ ائیر میں تھے تو وہ بمبئی بھاگ گئے تھے،مجھے یہ یاد رہا، اور جب میں یہ کتاب لکھ رہا تھا تو ایک مضمون میں لکھا کہ ہمارے چچا بمبئی بھاگ گئے تھے، میں نے ان کو مضمون دکھایا توکہنے لگے کہ میں بمبئی نہیں ، کلکتہ بھاگا تھا تومیرے دماغ میں کبھی جما نہیں کہ وہ کلکتہ بھاگے تھے۔کلکتہ بہاری جاتے تھے نوکری کی لیے، لیکن اگر کسی کے کچھ خواب ہوتے تووہ کلکتہ نہیں بمبئی جاتا تھا۔برصغیر میں بمبئی جیسا اور کوئی شہر نہیں، باہر نیویارک کو آپ اس طرح کا شہر کہہ سکتے ہیں۔ بمبئی والوں کا اپنا ایک انداز ہے، میں اپنے بمبئی کے دوستوں کو دلی میں ملتا ہوں تو وہ مجھے اجنبی سے لگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔