بند کریں یہ تماشہ

طلعت حسین  جمعـء 22 فروری 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

ذرا اعدادو شمار تو دیکھیے
قو می ا سمبلی
کل تعد اد : 342
جتنے ا راکین نے ٹیکس گو شو ارے جمع کر و ائے:90
جتنے ا را کین نے گو شو ارے جمع نہیں کر و ائے:235
سینیٹ
کل تعد اد:104
جتنے ا راکین نے ٹیکس گو شو ارے جمع کر و ائے:38
جتنے ا را کین نے گو شو ارے جمع نہیں کر و ائے:65
سیا سی جما عتو ں کے ممبر ان کی تعد اد جنہو ں نے گوشو ارے جمع کر و ا ئے ہیں۔

قو می ا سمبلی
پا کستا ن پیپلز پا ر ٹی:35
پا کستا ن مسلم لیگ نو از : 27
پا کستا ن مسلم لیگ کیو :16
ایم کیو ا یم :7
آز اد :2
عو امی نیشنل پا ر ٹی1:

سینیٹ
پا کستا ن پیپلز پا ر ٹی:24
پا کستا ن مسلم لیگ نو از: 8
پا کستا ن مسلم لیگ کیو:2
ایم کیو ا یم:5
عو امی نیشنل پا ر ٹی:3
یہ تو ہوا معاملہ ٹیکس کا، آئیے دیکھتے ہیں جعلی ڈگریوں کا کھاتہ کیا ہے ۔
60 افر اد کی ڈ گر یا ں مشکو ک قر ار۔
26 کے کیسز سیشن اور ڈ سٹر کٹ کو ر ٹس میں ز یر ا لتوا۔
18نے حکم ا متنا عی لیا ہو ا ہے۔

اپنی دہری شہریت چھپانے والوں کے جو نام ابھی تک سامنے آئے ہیں، ان کی بنیاد پر یہ تعداد 212 کل 1100 اراکین میں سے ۔ سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر جن کو نا اہل قرار دیا، وہ 11 ا ر کا ن ہیں، آٹھ مقدمات عدالتوں میں ہیں۔ الیکشن کمیشن کو دہری شہریت کے بارے میں 16 ا را کین قو می اسمبلی نے ابھی تک اپنے حلف نامے جمع نہیں کرائے اور نہ جانے کتنے ہوں گے جو اپنے رنگ برنگے پاسپورٹ بریف کیسوں میں چھپائے پھر رہے ہیں ۔ اس شمار میں ، میں نے ابھی این آر او کے تحت خارج کیے جانے والے اور بعد میں عدالتی فیصلے کے تحت شروع ہونے والے مقدمات شامل نہیں کیے ۔ نہ ہی لوٹ مار کے ان واقعات کا احاطہ کیا ہے جو ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں لیکن کسی فائل کا حصہ نہیں ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے گن بردار دھڑوں کے ہاتھوں ہزاروں افراد کی ہلاکت کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اقربا پروری اور میرٹ کے قتل کے اُس بازار کو بھی شامل تجز یہ نہیں کیا جس کے نتیجے میں ملک کے بڑے بڑے ادارے کا غذ کے نائو کی طرح ڈوب رہے ہیں ۔ جس حیران کن انداز میں ممبران کے رفقاء اور قریبی رشتہ داروں نے اپنے مادی حالات تبدیل کیے ہیں اور اس دنیا میں اپنے لیے جنت تعمیر کی ہے ۔ اُس پر بھی نظر نہیں دوڑائی اور نہ ہی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس جمہوریت کو چلانے کے لیے اس ملک کا بیڑہ غرق کرنا کیوں ضروری تھا ۔ نمایندہ جمہوریت کی ملکی سلامتی کے حوالے سے کارکردگی کیا ہے ۔ آئین میں درج بنیادی حقوق :فرد کی سلا متی،گر فتا ر ی اور نظر بند ی سے تحفظ،غلا می ،بیگا ر و غیر ہ کی مما نعت،نقل و حر کت و غیر ہ کی آز ا دی،ا جتما ع کی آ ز ادی،انجمن سا ز ی کی آزادی،تقریر کی آ ز ادی،تعلیم کا حق،ا طلا عا ت کی فر اہمی۔

ان تمام حقوق کے حصول میں عوام کو کتنی سہو لت ملی ہے۔ کیا ا یساکارنامہ سر انجام دیا ہے جس پر تمام یک آواز ہوکر کہہ سکیں کہ ہمارا ملکی ترقی میں حصہ یہ ہے ۔ قومی نوعیت اور بین الاقوامی معیار کے مطابق کون سا ایک بڑا پراجیکٹ شروع ہوا ہے ۔کو ن سا بڑ ا پر و جیکٹ مکمل ہو ا ہے۔ٹاک شوز پر بیٹھ کر انگلیاں ہلاتے ہوئے قربانی کی باتیں کرنے سے کارکردگی ثابت نہیں ہوتی ۔ ہر روز ایک نیا تماشہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ طاہر القادری کا غلغلہ ختم نہیں ہوا تھا کہ سندھ میں دوبارہ سے لڑائی شرع کرا دی۔ کبھی آرڈیننس پاس کراتے ہیں اور کبھی واپس لے کر، کبھی ذوالفقار مرزا کو صوبہ بدر کر دیتے ہیں اور کبھی اس کو گورنر بنانے کی بات شروع ہو جاتی ہے۔ اسمبلیوں کے باہر ایک دوسرے پر پتھر پھینکتے ہیں اور جب الیکشن کمیشن قوائد و ضوابط کی پابندی کی بات کرتا ہے تو سب مل کر اس کی درگت بناتے ہیں۔ ہم ان تمام سوالوں کو پس منظر میں ڈال کر اگر صرف ان شواہد پر ہی غور کریں جو اعدادو شمار ہم کو بتا رہے ہیں تو بھی ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ منتخب ممبران کیسے منہ پھاڑ کر اس قسم کے بیانات دے سکتے ہیں ۔

’’ ا لیکشن کمیشن کو ا پنی اسنا د نہیں بھجواؤں گا چا ہے، مجھے ناا ہل قر ار د یا جا ئے‘‘
( چو ہد ر ی نثا ر )
’’ الیکشن کمیشن کو ا یسا تضحیک آ میز ر و یہ ا ختیا ر نہیںکرنا چا ہیے‘‘
( فا ر و ق ا یچ نا ئیک)
’’ الیکشن کمیشن کو غیر جا نب د ار ہو نا چا ہیے‘‘
( ر ضا حیا ت ہر اج،ا نو شہ ر حما ن)

ان ممبران کو کون سمجھائے کہ ٹیکس جمع کرانے کے ثبوت کے بغیر ٹیکس دینے والے اور نا دہندہ میں کوئی فرق نہیں ہے ، یہ ایسے ہے کہ موٹر وے پر آپ پولیس والے کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہوں کہ آپ ہیں تو لائسنس یافتہ لیکن لائسنس گھر بھول آئے ہیں، آپ کا چالان ضرور ہوگا۔جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں، ان کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر یقیناً ہوں گے ، اگر نہیں ہیں تو اس کوتاہی کی سزا ضرور ملنی چاہیے اور پھر یہ ٹیکس دیتے ہی کتنا ہیں ۔
راجا پر و یز ا شر ف:142,534
چو ہد ر ی نثا ر علی خا ن:153,940
حنا ر با نی کھر:69,619
سید خو ر شید ا حمد شا ہ:43,333
فا روق اے نا ئیک:85,491
محمد ا سحا ق ڈ ار:32,750
خو ا جہ محمد آ صف:81,374

یہ تو چند ایک مثالیں ہیں ۔ ان کا طرز رہائش دیکھیے تو وہ شاہانہ ہے ۔ گھر نہیں محل ہے ، گاڑیاں نہیں جہاز ہیں، مگر ٹیکس کلرک سے زیادہ بھی نہیں دیتے، اسی طرح جعلی ڈگریاں ایک جرم ہے ۔ سزا کے طور پر جیل ہونی چاہیے ، اسمبلی کی سیٹ وقتی طور پر کھو دینا اور پھر واپس آجانا کیا سزا ہے ؟ریاست کے وسائل کی لوٹ ، اپنے عہدسے بے ایمانی، اپنی ذمے داریوں میں کوتاہی اور سیاسی چپقلش کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا سنگین جرائم ہیں۔ ان پر سزا ملتی ہیں تمغے نہیں دیے جاتے اور پھر یہ دلیل کتنی کمزور ہے کہ اس ملک میں ٹیکس دینے کا رواج نہیں ہے ۔ اگر ملک کے رواج کے مطابق ہی چلنا ہے تو اپنے بچوں کو حکومتی اسکولوں میں کیوں نہیں بھیج دیتے سرکاری اسپتالوں سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کیوں نہیں کرواتے ۔ مقدمات کے لیے کچہریوں میں کیوں نہیں دھکے کھاتے۔ تھانیداروں سے مار کیوں نہیں کھاتے، سب کچھ ویسا کیوں نہیں کرتے جیسا عوام کرتے ہیں اور ویسے عوام کو یہ دیتے ہی کیا ہیں کہ ان سے ٹیکس وصول کریں ۔ 50 فیصد کے قریب لوگ تو غربت کی لکیر سے نیچے ہیں ۔ باقی کماتے ہیں لیکن ٹیکس کی مد میں نہیں آتے۔ اس کے بعد عورتیں ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن معاوضے کے بغیر۔کروڑوں جوان ہیں لیکن نوکری کے بغیر۔ جمع تفریق کر کے دیکھ لیں معلوم ہوجائیے گا کہ عوام ٹیکس کیوں نہیں دیتے ۔ اور ویسے بھی اسمبلیوں میں بیٹھنے والے قانون کی بالا دستی کا معیار ہوتے ہیں ، ان کو اچھی مثال بننا ہوتا ہے بد ترین نہیں ۔ جمہوریت کے نام پر پانچ سال بڑے کھیل کھیلے ہیں ، آنے والے انتخابات میں یہ تماشا بند ہو جانا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔