’’میں کیوں ناکام ہوا‘‘

نصرت جاوید  جمعـء 22 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

رحمن ملک صاحب بھی بادشاہ آدمی ہیں ۔جوکام انھیں اور ان کی جماعت کو برسرِ اقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی کرلینا چاہیے تھا، وہ پورے پانچ سال گزارنے کے بعد بھی کرنہ پائے ۔اب ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے کھڑے ہوکر پنجاب حکومت کو مطلع کررہے ہیں کہ لشکرِ جھنگوی کے مراکز اس کے صوبے میں کام کررہے ہیں۔شہباز شریف نے ان کے خلاف کارروائی نہ کی تو وہ خود کرگزریں گے۔ کیسے؟ FIAکی ٹیم بھیج کر ۔جی ہاں وہی FIAجس کے افسران کی تقریباََ ہر روز سپریم کورٹ کے روبروپیشیاںہوتی ہیں۔جو ابھی تک اوگرا کے سابق چیئرمین توقیر صادق کو پاکستان کے آئین،قانون اور اعلیٰ ترین عدالت کے فراہم کردہ تمام تراختیارات کے باوجود ایک’’برادر ملک‘‘ سے گرفتار کرکے پاکستان نہیں لاسکے ہیں۔

میں کسی تقریب میں رحمن ملک صاحب کی نظروں کے سامنے آجائوں تو بڑی گرم جوشی اور احترام سے ملتے ہیں ۔تین سال پہلے تک چاند رات کو ان کی طرف سے کیک بھی ملاکرتے تھے اور پہلی مرتبہ تو اس کیک کے ساتھ ایک بڑے شوخ رنگ والی ٹائی بھی تھی جسے میں ابھی تک پہننے کی جرأت نہیں کرپایا ۔ڈرتا ہوں لال لگام والا معاملہ ہوجائے گا ۔بہرحال ملک صاحب کو خداخوش رکھے جب بھی مجھے کہیں اچانک ملتے ہیں تو اِردگرد کھڑے لوگوں کو بلند آواز میں بڑی انکساری سے بتاتے ہیں کہ میں نے 1993ء میں ان سے ایک ملاقات کے درمیان اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ آنے والے دنوں میں دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔

وہ بڑے خلوص سے پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ میری بات کو انھوں نے پلے باندھ لیا اور دہشت گردی کے معاملے پر PHDکرڈالی۔ان کی اس موضوع پر ’’مہارت‘‘ کا ایک بہت بڑا سبب میں بھی ہوں۔وہ جب بھی یہ باتیں کررہے ہوتے ہیں تو میرے ذہن میں ن۔م۔راشد کا ’’خداحشر میں ہو مددگار میرا‘‘والا مصرعہ گونجنے لگتا ہے ۔جذبات کی شدت کو چونکادینے والے مصرعوں کے ساتھ بیان کرنے کی قدرت رکھنے والے راشد نے یہ لائن تو مسزسالامانکا کی آنکھیں دیکھنے کے بعد لکھی تھی جن کے اُفق جنوبی سمندر کے ساحل سے کہیں دور تک پھیلے ہوئے تھے ۔اس مصرعہ کا رحمن ملک صاحب کے منہ سے اپنی تعریف سنتے ہوئے میرے ذہن میں گونج اُٹھنا مجھے ہمیشہ عجیب لگتا ہے ۔

رحمن ملک صاحب نے کسی مسز سالامانکا کی آنکھیں تو کیا دیکھی ہوں ۔نظر آبھی جائیں تو شاید وہ راشد کی طرح خدائی امداد کو پکارنے کے لیے تڑپ اُٹھنے کی سکت نہیں رکھتے ۔مگر انھوں نے دہشت گردی کے موضوع پر PHDکررکھی ہے ۔لیکن مجھے شک ہے کہ ڈاکٹریٹ کرلینے کے بعد انھوں نے مزید کتابیں پڑھنا چھوڑ دی ہیں ۔ورنہ ایک نہیں درجنوں کتابیں بازار میں آچکی ہیں جو بڑی تفصیل سے بیان کرتی ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکی ریاست اور اس کے قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں نے دہشت گردی کے معاملے کو کس طرح سمجھ کر اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ایک بنیادی سبق جو ان سب کتابوں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں سے نمٹنا صوبائی حکومتوں کے بس کی بات نہیں ہواکرتی خواہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا جیسے ملک کی ہوں۔

اس مسئلہ سے صرف مرکزی حکومت ہی اعلیٰ ترین سطح پر نبردآزما ہواکرتی ہے ۔امریکا میں سی آئی اے بھی ہے اور ایف بی آئی بھی ۔وہاں آسمانوں میں پھرتے جہازوں سے میرے اور آپ کے ٹیلی فون سننے والی NASAبھی ہے اور ہماری ملٹری انٹیلی جنس کی طرح ایکDIFبھی ۔ان تمام اداروں کی اپنی اپنی TURFSہیں اور ان سب کے درمیان شدید پیشہ وارانہ مخاصمت بھی جاری رہتی ہے ۔ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے بھی نائن الیون کے بعد پہلا فیصلہ صدر بش نے یہ کیا کہ وائٹ ہائوس کے براہِ راست ماتحت ایک ہوم لینڈ سیکیورٹی والا ادارہ ہوگا ۔امریکا کے تمام جاسوسی ادارے اپنی معلومات اس ادارے کو فی الفور پہنچایا کریں گے ۔

امریکی صدر اپنی ہر صبح کا آغاز اس ادارے کے سربراہ سے اکیلے میں ملاقات سے کرتا ہے اور اپنے دفتر پہنچنے سے پہلے اسے اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ اس نے کون سے دفاعی یا جاسوسی ادارے کو اس دن کیا حکم دینا ہے۔رحمن ملک صاحب نے وزیر داخلہ بننے کے چند دن بعد ہی آئی ایس آئی کو اپنے ماتحت کرنے کی ٹھان لی۔یوسف رضا گیلانی نے امریکا کا پہلا دورہ کرنے سے پہلے اس کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔موصوف ابھی جہاز ہی میں تھے کہ وہ نوٹیفیکیشن واپس لینے کا اعلان کردیا گیا۔بے چارے گیلانی جب بش سے ملنے گئے تو امریکی صدر کو پتہ چل گیا تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ۔اسی لیے تو وہ گیلانی صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنے قریبی صحافیوں کو طنزیہ انداز میں دیکھ کر آنکھیں مارتا رہا۔

گیلانی صاحب کی ’’اوقات‘‘ امریکی صدر اور دیگر حکام کے سامنے پوری طرح کھل گئی تو آصف علی زرداری صاحب نے اسلام آباد میں مقیم امریکی سفارتکاروں کو تواتر کے ساتھ بتانا شروع کردیا کہ جب تک جنرل مشرف ایوان صدر میں موجود رہیں گے، ان کی حکومت Deliverنہ کر پائے گی۔بات واشنگٹن تک پہنچی تو وہاں ان دنوں متعین سفیر جنرل درانی کو یہ پیغام دے کر مشرف کے پاس بھیجا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں ۔جنرل مشرف تھوڑی بہت اڑی کرنے کے بعد مان گئے اور زرداری صاحب ایوانِ صدر پہنچ گئے ۔

دہشت گردی کے معاملے میں Deliverپر بھی کچھ نہ ہوسکا۔بالآخر اوبامہ نے طے کرلیا کہ پاکستان کی حکومت سے Do Moreوالی باتوں میں وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ ڈرون بھیج کر وزیرستان میں موجود القاعدہ والوں کو مارواور اسامہ بن لادن کو سی آئی اے کے ذریعے تلاش کرو۔اس کا مکان ایبٹ آباد میں ملا تو 2مئی 2011ء کو جدید ترین طیاروں کے ذریعے دیوانوں کی طرح Trainکیے کمانڈوز کے ذریعے اپنے Most Wantedبندے کو مروادیا گیا ۔رحمن ملک صاحب اس دن کے بعد سے بس آنیاں جانیاں کے لیے رہ گئے ہیں ۔اب تو اڑھائی تین ہفتوں میں وہ فارغ بھی ہوجائیں گے ۔مجھے خبر نہیں کہ میں ان سے آیندہ چند دنوں میں مل پائوں گا یا نہیں لہذا لکھ کر مشورہ دے رہا ہوں کہ حکومت سے فارغ ہونے کے بعد ایک کتاب لکھ ڈالیں ۔’’میں کیوں ناکام ہوا؟‘‘ اس کا عنوان ہونا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔