دہشت گردی، بنیادی ایجنڈا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعـء 22 فروری 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

لاہور میں معروف ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے 7 سالہ صاحبزادے علی مرتضیٰ کو قتل کردیا گیا۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان نے انکشاف کیا کہ دو مذہبی انتہا پسندوں عثمان کرد اور داؤد بلیدی کو 2008 میں کوئٹہ کنٹونمنٹ جیل سے فرار کرایا گیا۔ عثمان کرد اور داؤد بلیدی کو 2003 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت دی تھی مگر 2008 میں جب اقتدار منتقل ہورہا تھا تو اچانک اس جیل کے گارڈ تبدیل کیے گئے اور دونوں ملزمان فرار ہوگئے۔ کوئٹہ اور اطراف میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ان ملزمان نے بنیادی کردار ادا کیا۔ شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹر علی حیدر کے قتل کے بعد اب عمران خان نے بھی دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔

اس سا ل کے پہلے دو ماہ کے دوران رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت ور مقتدرہ مذہبی انتہاپسندی کو تقویت دے کر دہشت گردی کے واقعات میں تیزی پیدا کرکے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں دہشت گردی بڑھنے کی ذمے داری براہ راست خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی سے منسلک کی گئی۔ میاں نواز شریف کے قریبی معاون خواجہ آصف نے جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی افغانستان کے بارے میں پالیسیوں کو مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس تمام صورتحال کی ذمے داری عسکری اور سول خفیہ ایجنسیوں اور پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ سینیٹ میں کچھ اراکین نے یہ بھی کہا کہ یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔

اس خطے میں دہشت گردی کے محرکات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے کہ پاکستان اور خطے میں ہونے والی دہشت گردی ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف نے ایک دفعہ پھر اس بنیادی حقیقت کی نشاندہی کی کہ جنرل ضیاء الحق کی امریکی سی آئی اے کے افغان پروجیکٹ میں شمولیت کی بنا پر دہشت گردی نے جنم لینا شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی اس پالیسی میں افغانستان کی انقلابی حکومت کے خلاف مذہبی انتہاپسندی سب سے موثر ہتھیار تھی۔ اس پالیسی کے تابع ایک مخصوص فرقے کے افراد کو دنیا بھر سے جمع کیا گیا اور نوجوانوں کو افغان جہاد میں شامل کرنے کے لیے ملک میں مدرسوں کا جال بچھایا گیا، اس کے علاوہ اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں انتہاپسندی پر مبنی موضوعات کو بنیادی ترجیح دی گئی۔ پھر افغان جہاد کے خاتمے کے بعد جنرل حمید گل، جنرل اختر عبدالرحمن، جنرل ضیاء الحق وغیرہ نے نوجوانوں کو کشمیر میں جہادکے لیے بھیجنا شروع کیا۔ 1980 کے بعد پیدا ہونے والی نسلیں انتہاپسندانہ جراثیم لے کر پیدا ہوئیں۔

ایران اور عراق جنگ کی بنا پر عرب ممالک نے پاکستان میں اپنے امدادی پروگراموں کے ذریعے مذہبی انتہاپسند تنظیموں کی سرپرستی شروع کردی۔ اس مجموعی صورتحال سے نہ صرف سول ادارے بلکہ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں بھی متاثر ہوئیں۔ سویلین حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے مذہبی انتہاپسندوں کو استعمال کیا جانے لگا۔ اس صورتحال کا شکار بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے علاوہ میاں نواز شریف کی بھی دونوں حکومتیں ہوئیں۔ مسلم لیگی حکومت ایک دہشت گرد ریاض بسرا کو تلاش کرنے میں ناکام رہی اور جب میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے تو اس گروہ نے رائے ونڈ جانے والے راستے پر بم رکھ دیے۔ اخبارات میں جلی سرخیوں سے یہ خبر بھی شایع ہوئی کہ پولیس کو مطلوب ملزم ریاض بسرا میاں نواز شریف کی کھلی کچہری میں ان سے مل کر بحفاظت اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔

پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد اپنی پالیسی کو تو تبدیل کرلیا مگر اپنی زیر کمان اداروں کی پالیسی کو تبدیل نہ کرسکے۔ اس دہری پالیسی کا فائدہ جنرل مشرف سمیت ان کے قریبی جرنیلوں کو ہوا۔ امریکی اور اتحادی ممالک سے ملنے والی امداد سے کتنے ہی جرنیلوں، سویلین افسروں اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے وارے نیارے ہوگئے۔ اگرچہ یہ معاملہ کبھی منظر عام پر نہیں آسکے گا۔ کابل میں لڑی جانے والی لڑائی پہلے قبائلی علاقوں پھر کوئٹہ اور پشاور سے ہوتی ہوئی اسلام آباد اور لاہور کے راستے اب کراچی تک پہنچ گئی۔ 2008 کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں نے بھی انتہاپسندی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ پنجاب کی حکومت نے جنوبی پنجاب میں قائم انتہاپسندوں کی کمین گاہوں کے خاتمے میں دلچسپی نہیں لی۔ یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ پنجاب میں ہونے والے بعض ضمنی انتخابات میں ایک کالعدم تنظیم کی مدد سے کامیابی حاصل کی گئی تھی۔

پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا نظام صرف کوئٹہ میں ہی نہیں بلکہ کراچی میں بھی معطل ہوا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے 90 افراد کے پوسٹ مارٹم کے دوران برآمد ہونے والی گولیوں کی فرانزک رپورٹ سے ثابت ہوا کہ صرف تین پستولوں سے چلنے والی گولیوں سے یہ 90 افراد قتل ہوئے۔ ان قتل ہونے والے افراد میں ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، پولیس اہلکار اور مذہبی رہنما شامل ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ان تین قاتلوں اور ان کی مدد کرنے والے نیٹ ورک کو تلاش نہیں کرپائے۔ اس تناظر میں انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے جوابی انتہاپسندی کو استعمال کرنے کا معاملہ بھی خطرناک ہوگیا ہے۔ کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے بعد ایم اے جناح روڈ پر دھرنا دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔

گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف پورے ملک میں دھرنے دیے گئے اور اب کوئٹہ میں پھر اس دہشت گردی کے خلاف احتجاج کے لیے دھرنے دیے گئے۔ کراچی میں 20 سے زائد مقامات پر یہ سلسلہ جاری رہا۔ شہر کی آبادی کا بڑا حصہ اپنے گھروں میں مقید ہوکر رہ گیا۔ اس صورتحال سے انتہاپسندوں کو فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کا موقع ملا۔ جب بھی انتہاپسندی کا جواب انتہاپسندی سے دیا جاتا ہے تو فائدہ دونوں طرف کے انتہاپسندوں کا ہی ہوتا ہے۔ کئی بڑے اکابرین نے فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے خاتمے کو فوج کے بلانے سے منسلک کردیا۔ یہ اکابرین انتہاپسندی کے بیج کو تناور درختوں میں تبدیل ہونے کی تاریخ کو فراموش کر چکے۔ وہ سینیٹر رضا ربانی کی اس بات کو بھول گئے کہ آئین کی دفعہ 245 کے تحت جب بھی فوج کو بلایا گیا تو نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں ہی سامنے آیا۔

عمران خان نے بہت دیر بعد انتہاپسند تنظیموں کے نقصانات کو محسوس کیا۔ وہ طالبان کے گرویدہ رہے اور شمالی وزیرستان تک لانگ مارچ کرتے رہے۔ عمران خان جب تک انتہاپسندی کی جڑوں کے خاتمے کے لیے بنیادی اقدامات کی اہمیت کو محسوس نہیں کریں گے، اس اہم مسئلے کے حل کی طرف نہیں جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ ایک اجلاس میں عدالتوں سے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث افراد کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ملزموں کو سزا دیے بغیر حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ اگر واقعی تمام لوگ انتہاپسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو پھر ریاستی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو روشن خیال اور سائنسی اندازِ فکر اپنانے کے لیے نصاب میں تبدیلی لانا ہوگی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تطہیر کرنی ہوگی، جب تک تمام جماعتیں، فوج اور عدلیہ مشترکہ طور پر انتہاپسندی کے خاتمے کو اپنا بنیادی ایجنڈا نہیں بنائیں گے اور منافقت کا رویہ ترک نہیں کریں گے تب تک ملک تباہی کی طرف سفر کرتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔