غربت سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ

زبیر رحمٰن  جمعـء 22 فروری 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

دور وحشت میں جب انسان غول کی شکل میں رہتا تھا اور مل جل کر شکار کرتا، غذا حاصل کرتا اور کھاتا تھا، اس وقت قوم، سرمایہ داری، ریاست اور ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جب سرمایہ داری آئی تو ریاست، ملکیت اور قوم کا تصور آیا۔ سرمایہ داروں نے اپنے زرخرید دانشوروں کے ذریعے یہ تصور پیش کیا کہ بڑھتی ہوئی آبادی غربت کی وجہ ہے نہ کہ سرمایہ داری۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر مال تھیس نے ایک تھیوری پیش کی جس میں کہا گیا کہ ’’آبادی کو موجودہ سطح پر رکھنے کے لیے بچوں کی جتنی تعداد درکار ہے اس کے علاوہ تمام بچوں کو ختم ہوجانا چاہیے، ہمیں تباہی کے تمام طریقوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

غریبوں کے لیے صفائی کے بجائے گندگی کو پروان چڑھانا چاہیے، اپنی آبادیوں میں ہمیں گلیاں تنگ بنانی چاہئیں، کم سے کم گھروں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رکھنا چاہیے اور وبائی امراض کو خوش آمدید کہنا چاہیے، لیکن سب سے بڑھ کر ہمیں موت پھیلانے والی بیماریوں کے علاج کے لیے بنائی جانے والی ادویات کے ساتھ ساتھ ان خیر اندیش لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو غلطی سے ایسی بیماریوں کے علاج کو انسانیت کی خدمت سمجھتے ہیں‘‘۔ آج بھی سماجی علوم کے نصاب میں اس انسان دشمن شخص کو دانشور اور فلسفی کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں پینسلین اور اینٹی بائیوٹک ادویات کی ایجاد سے دنیا کی آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ اگر آبادی کا غربت کے ساتھ کوئی براہ راست تعلق ہے تو آبادی کے لحاظ سے زیادہ کثیف ممالک میں غربت بھی زیادہ ہونی چاہیے لیکن اعداد وشمار اس مفروضے کی نفی کرتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے کثیف ترین نو ممالک میں سے صرف دو کا تعلق (بنگلہ دیش اور روانڈا) تیسری دنیا سے ہے، باقی ممالک ہانگ کانگ، سنگاپور، تائیوان، ہالینڈ اور بحرین جیسے ترقی یافتہ یا نسبتاً ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ ہالینڈ سب سے ترقی یافتہ اور روانڈا پسماندہ ترین ممالک میں جبکہ دونوں ممالک میں آبادی کی کثافت تقریباً برابر ہے، ہالینڈ میں 404 افراد فی مربع کلومیٹر جبکہ روانڈا میں 407 افراد فی مربع کلومیٹر۔

کچھ دہائیوں پہلے کی نسبت آج دنیا میں کئی سو ملین ٹن زیادہ اناج پیدا ہورہا ہے جبکہ زرعی رقبے میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ 1960 سے 2010 تک زرعی رقبے میں 12 فیصد جبکہ زرعی پیداوار میں 150 سے 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق 1976 میں 579 ہیکٹرمین سے 1.9 ملین میٹرک ٹن اناج اگایا جارہا تھا جبکہ 2004 میں 517.9 ہیکٹر زمین سے 3.1 ملین میٹرک ٹن اناج اگایا گیا۔ اس طرح 1800 میں امریکی آبادی کا تقریباً 90فیصد حصہ زراعت سے وابستہ تھا جبکہ موجودہ عہد میں 2 فیصد سے بھی کم امریکی زراعت سے وابستہ ہیں۔ عالمی سطح پر زرعی پیداواری صلاحیت میں آبادی کی نسبت اضافے کے باوجود عالمی سطح پر بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔ یو این او کی ذیلی تنظیم ایف اے او کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 1970 کی نسبت 2009-10 میں 300 ملین زیادہ افراد غذائی قلت کے شکار تھے۔ اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زیادہ افراد شدید غذائی قلت یا بھوک کے شکار ہیں۔

فوڈ فرسٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایرک ہولٹ کا کہنا ہے کہ ’’دنیا کی آبادی 2045 تک 10 ارب تک پہنچے گی جس کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن درحقیقت ہم پہلے ہی 10 ارب انسانوں کی ضروریات جتنا غلہ اور اناج اگا رہے ہیں‘‘۔ ان کے مطابق ’’دنیا میں موجود تمام افراد کی ضروریات سے ڈیڑھ گناہ زیادہ غذا پہلے ہی پیدا کی جارہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر افراد کے پاس خوراک خریدنے کے پیسے نہیں ہیں‘‘۔ دنیا میں قابل کاشت زمین کا بیشتر حصہ بے کار پڑا ہے۔ مثال کے طور پر افریقہ میں موجود ’’گنی سوانا زون‘‘ کا 400 ملین ہیکٹر رقبہ کاشت کاری کے لیے انتہائی موزوں ہے جو بے کار پڑا ہے۔ یہ کہنا کہ دنیا میں لوگ بڑھے ہیں اور زمین کم پڑ چکی ہے یہ قطعی غلط ہے۔ دنیا کی 7 ارب کی آبادی صرف امریکی ریاست ٹیکساس میں سما سکتی ہے۔

ٹیکساس کا کل رقبہ 268,820 مربع میل ہے۔ اس وقت المیہ یہ ہے کہ دنیا کے 1.3 ارب افراد بجلی کی بنیادی سہولت سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ تاہم توانائی کی پیدداوار کے موجودہ طریقے اور ہنر وفن کی صلاحیت سے بھی تمام دنیا کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہے۔ اگر ہنروفن سے کام لیا جائے تو تیل، گیس اور کوئلے وغیرہ جلانے کی ضرورت سرے سے نہیں ہے۔ لاطینی امریکا کا ایک چھوٹا سا ملک’’کوسٹاریکا‘‘ کی مثال ہے جہاں 2021 تک فوسل فیول کا استعمال صفر ہوجائے گا۔ سورج دوپہر کے صرف ایک گھنٹے میں زمین پر سال بھر کی ضروریات سے زیادہ توانائی پھینکتا ہے۔ مثال کے طور پر صرف امریکی ریاست واشنگٹن کے رقبے کے برابر کے شمسی سیل پوری دنیا کو توانائی کی تمام ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ ہوائی توانائی، سمندری لہروں کی توانائی سمیت دوسرے بہت سے ممکنات اس کے علاوہ ہیں۔ سرمایہ داری کے اندرونی تضادات کے زیر اثر معاشرے کی آبادی کے بڑے حصے کا افرادی قوت اور معاشی چکر سے باہر چلے جانا ناگزیر ہے۔

شرح منافع میں اضافے کے لیے افرادی قوت کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ دانشور حد سے زیادہ آبادی کا ڈھنڈورا اس لیے پیٹتے نظر آتے ہیں کہ ان کے سامنے سماج کی موجودہ شکل حتمی ہے۔ اس سماج میں آبادی کا بڑا حصہ پیداواری عمل سے خارج ہے اور انسانی ترقی کے لیے کسی قسم کا تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل بالغ آبادی کا کم ازکم نصف حصہ پیداواری عمل سے مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ مثلاً امریکا، جاپان اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ سمجھے جانے والے ممالک کے لیے یہ اعشاریہ بالترتیب 57,58 اور 55 فیصد ہے۔ جس میں 2008 کے معاشی بحران کے بعد سے مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ دنیا کی آبادی لامتناہی طور پر نہیں بڑھ سکتی۔

اقوام متحدہ کے بعض اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی 2040 تک 9 ارب تک پہنچ جائے گی جس کے بعد آبادی میں کمی متوقع ہے۔ دنیا کی آبادی میں زیادہ سے زیادہ شرح نمو 1963 میں 2.2 فیصد دیکھی گئی جوکہ اب کم ہوکر 1.1 فیصد ہوچکی ہے۔ 2012 میں لگائے گئے ایک اور اندازے کے مطابق 2030 تک دنیا کی آبادی 8.5 ارب تک پہنچنے کے بعد کم ہونا شروع ہوجائے گی۔ آبادی میں کمی کا یہ رجحان شہری آبادی میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ شہروں میں آبادی کی شرح نمو دیہات کی نسبت کم ہوتی ہے۔

پروفیسر جیکوئن کالن کی 1988 میں شائع ہونے والی اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’آبادی کے خلاف جنگ‘‘ میں ثابت کیا تھا کہ دنیا کی آبادی اگر 8 سے22 گنا تک بھی بڑھ جائے تو موجودہ ہنروفن کے زیر اثر ہی اس کی تمام تر ضروریات پوری کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ سرمایہ داری میں ہوسکتا ہے تو ایک غیرطبقاتی، امداد باہمی اور فطری سماج میں کیوں ممکن نہیں؟ بلکہ ایسے معاشرے میں ہمیں 8 گھنٹے کام کرنے کی بھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ 1/2 گھنٹے کام کرنا کافی ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔