انتہا پسندی کے شیش ناگ (پہلاحصہ)

رئیس فاطمہ  اتوار 24 ستمبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی مختلف جامعات کے طالب علموں کا مذہبی انتہا پسند تنظیموں اور دہشتگردی میں ملوث ہونا باعث تشویش ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے بعض انتہا پسند تنظیمیں مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان ایک دہشتگرد ریاست کے طور پر پہچانا جائے اور اس میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان کی شناخت بیرونی دنیا میں یہ ہے کہ ’’یہاں ہر دہشتگرد باآسانی پناہ لے سکتا ہے‘‘ گو پاکستان دہشتگردوں کی جنت ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ یہ حقیقت ہے۔

یہ اور بات ہے کہ ’’میں نہ مانوں‘‘ والی ذہنیت والے اس حقیقت سے جان بوجھ کر انکاری ہوں۔ جب کہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ مسجد، مندر اور گرجا ہر جگہ دہشتگردی ہوئی ہے۔ اولیائے کرام کے مزارات تک کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلے بھی مختلف مذہبی جماعتوں کے لوگ دہشتگردی کے حوالے سے سامنے آتے رہے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں کراچی یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں انصار الشریعہ نامی کسی تنظیم کے دہشتگردوں کی موجودگی نہایت تشویشناک ہے۔ کتنے ہی اساتذہ کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا، قتل ہونے والے زیادہ تر اساتذہ انتہا پسندی کے خلاف تھے اور ایک مخصوص سوچ رکھنے والوں کو یہ امن پسند اساتذہ آنکھوں میں کھٹکتے تھے۔

دراصل دہشتگردی کے اس درخت کی جڑ کا پتہ لگانے کے لیے آپ کو ذرا پیچھے جانا پڑے گا، 70ء کی دہائی تک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا یونین ہوتی تھیں۔ ہر تعلیمی ادارے میں غیر نصابی سرگرمیاں سال میں ایک مرتبہ ضرور ہوتی تھیں، مذاکرے، مباحثے، موسیقی کے پروگرام، تقریری مقابلے، کھیلوں کے مقابلے، قرأت اور نعت خوانی کے مقابلے وغیرہ وغیرہ۔ طلبا و طالبات نصاب سے ہٹ کر ان پروگراموں میں حصہ لے کر اپنی فطری صلاحیتوں کو نکھارتے تھے۔ مضمون نویسی، افسانہ نگاری اور کالم نویسی کے بین الکلیاتی مقابلے طلبا کے ذہنوں کو روشن کرتے تھے، ان کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے تھے۔

آج لکھنے والوں میں زیادہ تر تعداد انھی طلبا و طالبات کی ہے جنھوں نے کالج کے زمانے میں نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ ملکی سطح پر بھی اپنے کالج اور یونیورسٹی کا نام روشن کیا، انعامات حاصل کیے۔ اس وقت بھی ایک انتہا پسند مذہبی جماعت کے لاڈلے اپنا کام کرتے تھے۔ لیکن ڈنڈا، گولی اور پستول سے نہیں بلکہ صرف زبانی کلامی یا خفیہ نیٹ ورک کے ذریعے۔ اس وقت بھی کچھ اساتذہ ان کے نہ صرف ہم خیال تھے بلکہ وہ ان کی پس پردہ مدد بھی کیا کرتے تھے۔ خاص کر امتحانات میں پوزیشن کے حوالے سے۔ پھر یہی لابی اپنے طالب علموں کو باآسانی امریکا بھجوا دیتی تھی۔ لیکن وہ اساتذہ کھلے عام یہ سب کچھ نہیں کرتے تھے۔ طلبا و طالبات کو معلوم ہوتا تھا کہ کون کس طرف دیکھتا ہے اور اس کا قبلہ کعبہ کدھر ہے۔

لیکن اب معاملہ دگر ہے۔ ضیا الحق نے طلبا یونین پہ پابندی لگا کر گویا بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ وہ فوجی تھے اس لیے ان کا دماغ اس حقیقت کو نہ سمجھ سکا کہ پانی کے بہاؤ کو کوئی روک نہیں سکتا، وہ کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ بنالیتا ہے۔ طلبا یونین پر پابندی لگ گئی لیکن طلبا سیاست دانوں کے آلہ کار بن گئے۔ بھٹو نے طلبا کو خوب ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا۔ دوسری جماعتیں بھی پیچھے نہ رہیں۔ خاص کر مذہبی جماعتیں جو پہلے ہی سرگرم تھیں اب کھل کر میدان میں آگئیں اور تعلیمی نظام تلپٹ ہوکر رہ گیا۔ بھٹو کی تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن نے تعلیم کا بیڑا غرق کردیا۔ اساتذہ بھی سیاسی جماعتوں کے پے رول پہ کام کرنے لگے۔ تہذیب و شرافت رخصت ہوئی، استاد کا احترام کچرے میں پھینک دیا گیا، پستول، کلاشنکوف اور شعلے اگلتی بندوقیں آمنے سامنے آگئیں۔ استاد کی بے عزتی کرنا، اسے تھپڑ مار دینا اور گریبان سے پکڑ کر کھڑا کرنے کے واقعات ان گناہگار آنکھوں نے بھی دیکھے ہیں۔

طلبا یونین ختم ہونے سے سارا اقتدار پرنسپل کے پاس آگیا اور پرنسپل وہ کرتا جو ڈنڈا بردار طالب علم چاہتے۔ اگر ان کی بات نہیں مانی تو کالج میں تدریس بند کروادی گئی۔ اور اگر پرنسپل نے ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تو شانتی ہی شانتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اساتذہ نے صورتحال دیکھ کر خاموشی اختیار کرلی۔ کوئی استاد کسی طالب علم کو ڈانٹ نہیں سکتا تھا، کسی بات پہ روک ٹوک نہیں کرسکتا تھا۔ اگر کوئی جی دار اور ذمے دار استاد طلبا سے باز پرس کرتا تو اسے کہا جاتا کہ وہ سرکارکے نوکر ہیں اس لیے 45 منٹ کے پیریڈ میں اپنی حاضری لگائیے اور جایئے تنخواہ وصول کیجیے۔ کلاسیں خالی رہنے لگیں اساتذہ حاضری کے رجسٹر پہ دستخط کرکے چائے کافی پی کر گھروں کو سدھارتے۔ اب کالج میں حاضری لگا کر کوچنگ سینٹروں کا رخ کرتے ہیں۔ بعض اساتذہ اپنے مخصوص کوچنگ سینٹر میں پڑھنے والوں کو A+ کی یقین دہانی بھی کرواتے ہیں۔

لیکن مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے گزشتہ دس بارہ سال سے صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں ضیا الحق کی سوچ کو پروان چڑھانے والے نوجوانوں کو بحیثیت استاد مقرر کیا جا رہا ہے۔ پھر یہ اساتذہ اپنے ہم خیال طالب علموں پر مشتمل گروپ تشکیل دیتے ہیں۔ انتہا پسند ذہن ہر ادارے میں پہنچا دیے گئے ہیں اور اب وہ تناور درخت بن چکے ہیں۔ خواہ فوج کا ادارہ ہو یا عدلیہ کا، انجینئرنگ یا سوشل سائنسز کا یا ادب کا۔ ہر جگہ یہ دیمک موجود ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دیمک کس طرح اندر ہی اندر لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ یہ دہشتگرد جنھوں نے خود پر ’’مسلمان‘‘ کا ٹھپہ لگا رکھا ہے دیمک ہی تو ہیں۔ ملک کو جو خطرات لاحق ہیں ان میں سب سے بڑا خطرہ مذہبی شدت پسند ہے۔ اساتذہ نے اپنے اپنے مذہبی عقائد پر مبنی طلبا کے گروپ بنا لیے ہیں۔ غیر مسلموں سے ان کا رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اتنا کہ بعض غیر مسلم اس ناانصافی اور جان کو خطرات لاحق ہونے کی وجہ سے مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہو رہے ہیں۔ یہ رونے کا مقام ہے کہ کوئی اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت اور بقا کی خاطر اپنا مذہب تبدیل کردے۔ حکومت کو خصوصاً جامعات کے وائس چانسلروں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔