چلو مر جاتے ہیں!!!

شیریں حیدر  اتوار 24 ستمبر 2017
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

آپ مجھے نہیں جانتے… آپ کے لیے میں محض اخبار کی ایک خبر ہوں، ٹیلی وژن پر آنے والی ایک بریکنگ نیوز یا شاید کسی اور بریکنگ نیوز کے دوران ٹیلی وژن اسکرین کے نچلے حصے میں چلنے والی ایک غیر اہم خبر۔ آپ مجھے کوئی اہمیت نہیں دیں گے نہ توجہ کے قابل سمجھیں گے، کیونکہ میری خبر میں کوئی چارم ہے نہ گلیمر۔ میں ایک عام سی لڑکی ہوں، میں پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے میںایک ایسے جوڑے کے ہاں پیدا ہوئی جسے بیٹا چاہیے تھا کہ ان کی نظر میں بیٹی انسان بھی نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کو اللہ بھی بیٹا دینے کے بجائے بیٹیوں پر بیٹیاں دے کر آزماتا ہے اور وہ بھی اللہ سے نعوذ باللہ ضد لگا بیٹھتے ہیں کہ انھیں بیٹا بہر حال چاہیے۔

میں اپنے ماں باپ کے اس کچے اور غربت سے لتھڑے ہوئے آنگن میں اترنے والی اللہ کی پانچویں رحمت تھی، میرے بعد چار اور بھی اتریں۔ ہم وہ بد قسمت تھیں کہ جن کی پیدائش ہوتے ہی دایہ بھی ہماری ماں سے گلے لگ کر یوں دھاڑیں مار مار کر اور بین کر کے روتی تھی جیسے ہماری ماں کے ہاں بیٹی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کا جوان بیٹا مر گیا ہو۔ اس میں ہمت تک نہیںہوتی تھی کہ وہ ایک بار پھر باہر نکل کر ہمارے باپ کو بتائے کہ اس کے ہاں ایک اور نحوست اتری ہے۔

باپ کی ٹھوکریں اور ٹھڈے کھاتے اور پھر سوکھی روٹیاں پانی کے ساتھ نگل کر بھی ہم پل گئیں۔ ماں ہمہ وقت اس کے زیر عتاب رہتی گویا بیٹیاں پیدا کرنا اس کا قصور ہے۔ تیس برس کی عمر تک ، ہر سال ایک ایک بیٹی پیدا کر کے ماں نے نو بیٹیوں کا وہ بوجھ اپنے ناتواں وجود پر اٹھا لیا تھا کہ وہ ساٹھ سال کی بڑھیا لگنے لگی تھی۔

ماں اس کچے گھر میں ابا کی ہر مار اور ڈانٹ اس لیے برداشت کرتی رہی کہ وہ دس پیٹ لے کر اور کہاں جاتی، وہ دس ایسے نفوس … جن پر زمانہ دانت تیز کیے بیٹھا رہتا ہے۔ اس کے پاس دس برس کی عمر سے لے کردو سال تک کاہر ماڈل موجود تھا۔ غربت کے اس جہنم میں جہاں باپ مزدوری اور ماں لوگوں کے گھروں پر کام کر کے محنت کرتی تھی۔

وہ باپ جس کی نظر ہم پر ہمیشہ نفرت کی پڑتی تھی اور وہ کبھی ہمیں ہمارے ناموں سے پکارتا ہی نہ تھا، شاید اسے ہمارے نام آتے ہی نہ تھے۔ کم بخت، مردار، منحوس، کلموہی اور بد شکل- یہ اس کے رکھے ہوئے نام تھے، کسی کے اسکول جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ہم اتنی اتنی عمروں میں بھی اتنی صابر تھیں کہ اپنی قید کو ہی اپنا نصیب سمجھ لیا تھا۔

شام کا انتظار رہتا جب دونوں کی واپسی ہوتی اور ہمیں کھانے کو سوکھی روٹیاں، بچے کھچے سالن کے ساتھ یا فقط پانی میں بھگو کر مل جاتے تھے اور ہم اس ایک وقت کی روٹی کو کھا کر بھی خوش ہو جاتیں اور پیٹ بھرتے ہی سو جاتیں۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک کے اس طبقے سے ہیں جو اس ملک کے نصف کے لگ بھگ ہو گا، ایسی سو چ اور بیٹیوں سے ایسا سلوک۔ فرق صرف طور طریقوں کا ہے، ہم آج بھی تاریک دنیا کے ان لوگوںکی طرح ہیں جو بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے۔

ابا دوسری شادی کرنا چاہتا تھا، جوں جوں ہم سب اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر ایک ناپسندیدہ مخلوق کی طرح اس آنگن میں نمایاں ہوتی جا رہی تھیں توں توںاس کی فرسٹریشن بڑھتی جا رہی تھی۔ اماں کو وہ ہم سب کے سامنے مارتا تھا۔ ہم نے اس کم عمری اور معصومیت کے دور میں مرد کے ایک ہی روپ کو دیکھا تھا- کوئی نانا تھا نہ دادا، نہ چاچا ، ابا ہمارے دادے کے گھر کا اکلوتا ہیرا تھا اور ماموؤں سے ہمارا کوئی رابطہ نہ تھا، انھوں نے بھی اپنی بہن کا بوجھ اتار کر پھینکا تو مڑ کر خبر نہ لی کہ وہ کس حال میں ہے۔

خزانے کو جتنے بھی تالوں میں رکھ لو، کوئی نہ کوئی سیندھ لگا ہی لیتا ہے… سب سے بڑی بارہ برس کی ہو گئی تھی اور سب سے چھوٹی تین برس کی، جب اس خزانے کے ڈھیر پر کہیں نہ کہیں سے سیندھ لگنے لگی، کچے آنگنوں کی چھتیں بھی نیچی اور قابل تسخیر ہوتی ہیں۔ ابا سے سن سن کر بھی ہمیں سمجھ میں نہ آتا تھا کہ حیا اورشرم کیا ہوتے ہیں، اس لیے جو کچھ ہو رہا تھا وہ درست لگ رہا تھا، اگر کوئی ہماری چھت پھلانگ کر، مٹھائی کا ایک پاؤ ، چار سموسے، ایک پاؤ پکوڑے ، ٹافیاں یا کچھ بھی لے کر آتا تو اس سے ہم نو کی نو بہنوں کو تھوڑا تھوڑا حصہ مل جاتا تھا- باقی عزت کیا بلا ہے اس کا ہمیں علم نہ تھا، ہمیں تو صرف پیٹ بھرنے سے غرض ہوتی تھی۔

ابا کو محلے سے سن گن مل گئی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہم سب کے ساتھ ہوا وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ابا نے اماں کو گھر بٹھا دیا کہ ہماری پہرے داری کرے اور ایسا ہونے سے فاقے طویل ہونے لگے کیونکہ اماں جو بچا کھچا کھانا لے کر آتی تھی وہ اب نہ آتا تھا۔ بھوک سب سے بڑی منفی قوت ہوتی ہے، ماں گھر پر رہنے لگی تھی مگر ماں کی دو ہی آنکھیں تھیں، گھر لوٹ کراماں سے جو بھی تواضع ہوتی تھی وہ قابل برداشت تھی، ملنے والی نعمت میں سے ساری بہنوں کو حصہ مل جاتا تھا۔

ہمیں کون سا کسی نے زیور علم سے آراستہ کیا تھا، ہمیں کسی نے عزت اور حیا کے معنی کب بتائے تھے، اس لیے ہم میں سے جو بھی وہ سب کر رہی تھیں انھیں برا نہ لگتا تھا۔ ہم نے اپنے باپ کو شفیق دیکھا ہوتا، کبھی اس نے پیار سے ہمارا ہاتھ تھاما ہوتا، ماتھاچوما ہوتا، ہمیں گلے لگایا ہوتا اور سمجھایا ہوتا کہ بیٹیاں باپ کی عزت کی پاسبان ہوتی ہیں تو ہم نے یہ سب سہارے باہر نہ ڈھونڈے ہوتے۔ ایسی باتیں کہاں چھپی رہتی ہیں، ابا کو پھر بھنک پڑ گئی اور اس بار سارے کے سارے عتاب کی مستحق اماں ٹھہری… وہ جو ہم نو نے مل کر سہا تھا وہ ہم نے تنہا اپنی ماں کو سہتے دیکھا تھا، میں نے تو باپ کے ہر ٹھڈے کے ساتھ خواہش کی کہ اس کے ساتھ اماں مر جائے تو اچھا ہے مگر۔

اس روز ابا گھر لوٹا تو کتنا خوش تھا… وہ ہمارے لیے مٹھائی لے کر آیا تھا، ہمیں پہلی بار اپنے پاس پیار سے بلایا تھا اور ہم اس کی اتنی توجہ سے ہی اس کے قدموںمیں لوٹ پوٹ ہونے کو تیار تھیں۔ اس نے ہم سب کو ایک ایک لڈو کھانے کو دیا، اماںکو بھی پیار سے اپنے پاس بلایا تھا اور بتایا تھا کہ وہ کل سے مستری کا کام کرے گا اس لیے مٹھائی لے کر آیا ہے۔ ہم سب نے بڑے شوق سے مٹھائی کھائی… گیارہواں لڈو ابا نے خود کھایا اور بارہواں لڈو اس نے آدھا اماں کو دیا اور آدھا خود کھایا۔ لڈو بڑے بڑے اور مزے کے تھے، ہم سب اس وقت خوش تھیں۔

اس وقت میں اور میرا خاندان آپ کے گھروں میں بریکنگ نیوز کے طور پر موجود ہیں، اتنے لوگ ، اتنی گاڑیاں اور اتنے کیمرے میرے گاؤں میں نظر آ رہے ہیں، میں نے اس گاؤںمیں ایسا رش اپنی زندگی میں نہیں دیکھا… اگر آپ سب لوگ ہماری زندگی میں اس گھر میں آئے ہوتے تو آپ کو علم ہوتا کہ ہم نے کس جہنم میں اتنے سال گزارے اور پھر اس جہنم سے نجات پا کر اگلی دنیا میں جانے کس حال میں ہوں گی۔ ابا جیسے مردوں کے پاس ہمارے جیسے مسائل کا حل اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ زہر بھرے لڈو سب کو کھلا کر خود بھی ساتھ ہی چلے… زندگی کے مسائل سے نمٹنا نہ آتا ہو تو زندہ لاشوں سے کہو… ’’چلو مر جاتے ہیں!!! ‘‘

کچے صحن میں، کیڑوں مکوڑوںکی طرح بکھری ہوئی گیارہ لاشیں اس معاشرے… اس ملک، اس ملک کے حکمرانوں اور اس ملک میں بسنے والے ان نام نہاد مسلمانوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ صرف یہ ایک منظر اس چشم فلک نے نہیں دیکھا، اس کے علاوہ بھی اس ملک کے کوچے کوچے میں ہمارے خاندان جیسی کہانی والے مسائل کا شکار خاندان ہیں۔ جہالت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ہمیں علم ہی نہیں کہ درست کیا ہے اور غلط کیا- ہم لاعلمی میں ہی رل رل کر جیتی اور لٹ لٹا کر اپنے ہی باپوں کے ہاتھ مر جانے کے لیے پیدا ہوتی ہیں… ہماری پیدائش نحوست ہے تو موت نشان عبرت۔

بریکنگ نیوز سن لی ہو تو ٹیلی وژن بند کر دیں اور اپنا کام کریں، اپنی زندگی جئیں… کیونکہ آپ کچھ کر ہی نہیں سکتے، صرف کہہ سکتے ہیں ، ’’ کس قدر جاہل انسان تھا، اگر پال نہیں سکتا تھا تواتنی بیٹیاں پیدا ہی کیوں کیں، زیادہ سے زیادہ خود کو مار لیتا، اتنا غیرت کا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔