بینچ و بار کے بڑھتے تنازعات

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 24 ستمبر 2017
advo786@yahoo.com

[email protected]

بینچ (ججز) اور بار (وکلا) عدالتی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی کے لیے بینچ اور بار لازم و ملزوم ہیں۔ وکلا تنظیموں کا بنیادی کردار بینچ و بار کے درمیان تعلق اور وکلا کے پیشہ ورانہ معاملات سے ہوتا ہے یہ ملکی سیاست میں عوام کی رہنمائی اور حکومتوں کا قبلہ درست رکھنے میں بھی تاریخی کردار رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دور حکومت میں صاحبان اقتدار ان تنظیموں کو اپنے راستے کی بڑی رکاوٹ سمجھ کر مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ان پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

خاص طور پر اعلیٰ عدالتوں کے ججز پر خوف، دباؤ، لالچ اور پروپیگنڈے کا استعمال کرکے انھیں بے دست و پا اور بے وقعت کرکے اپنی ترجیحات اور مفادات کیمطابق قانون کی تشریح و تعبیر کراکے فیصلہ حاصل کرنے کے لیے کبھی قانون میں ترامیم کرکے کبھی ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں رد و بدل کرکے کبھی من پسند ججز کو برقرار رکھنے یا ممکنہ نا پسندیدہ ججزسے گلو خلاصی کے لیے ججز کا 5 سال تک اس عہدے پر براجمان رہنے کا حق دے کر یا فنانس بل کے تحت غیر قانونی طور پر ججز کی تعداد بڑھانے کا عمل کبھی PCO کبھی CPO کے تحت ججز کو گھر بھیجنے کا عمل کرتے نظر آتے ہیں ۔ عدالتی فیصلوں اور احکامات پر عمل در آمد نہ کرنا، آرڈیننسوں اور عجل وقتی قانون سازی سے ان کی حیثیت کو ختم یا متاثر کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔

ٹی وی چینلز پر متبادل و متوازی عدالتی نظام کی طرح مباحثوں، مذاکروں، تبصروں میں سیاسی اور قانون سے نابلد شخصیات و تجزیہ کار غیر محتاط، غیر ذمے دارانہ اور لا علمی و مبالغہ آرائی کے ذریعے اپنے اپنے مطمع نظر اور استطاعت کے مطابق زیر سماعت مقدمات کے قبل از وقت فیصلہ سناتے اور سادہ لوح عوام کا کسی خاص فیصلے کے لیے ذہن بناتے نظر آتے ہیں۔ کچھ دن قبل اٹارنی جنرل پاکستان نے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امید ہے میڈیا عدالتی نظام کے متوازی عوامی عدالتی نظام میں تبدیل نہیں ہوگا۔

کچھ عرصے سے بینچ و بار کے درمیان جھگڑوں اور تصادم کی فضا پیدا ہورہی ہے۔ ججز و مجسٹریٹ صاحبان سے مارپیٹ اور ان کی عدالتوں کے گھیراؤ کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔گزشتہ دنوں سرگودھا میں وکلا کی جانب سے ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنرکو اس کے دفتر میں تالا لگاکر بند کردینے کا واقعہ پیش آیا جس کو رات گئے ایک دوسرے اسسٹنٹ کمشنر نے تالا توڑ کر رہائی دلائی۔ اس قسم کے واقعات پر قلم کشائی کرتے ہوئے ایک سینئر صحافی یوں رقمطراز ہیں کہ ’’ان دنوں وکلا مقدمہ لڑنے کے بجائے عدالتوں سے لڑتے ہیں ، اگر یہی حالت رہی تو کچہریوں کے مقدمات تھانوں میں جائیںگے اور تھانے ہی عدالتوں اور انتظامیہ کو تحفظ فراہم کریںگے، جب سے تھانہ و کچہری میں سیاست گھسی ہے وہاں صرف وردی اور کالے کوٹ باقی رہ گئے ہیں۔ دہشتگردی اب ایک وسیع فیلڈ ہے جس میں پولیس گردی، وکیل گردی، ڈاکٹر گردی، الغرض اکثر سرکاری وغیر سرکاری خدمات گردی ہوگئی ہیں۔ دہشت گردی کا ایک نعم البدل وحشت گردی بھی منظر عام پر آگیا ہے یہ دہشت گردی کی نئی قانونی پروڈکٹ ہے جو اہل سیاست کے بھی کام آتا ہے۔‘‘

ملتان بینچ کے ججز اور بار ایسوسی ایشن کے صدر کے مابین دوران سماعت تلخ کلامی کے بعد سے وکلا کی جانب سے عدالتوں کے لا متناہی بائیکاٹ کا سلسلہ پھر لاہور ہائی کورٹ پر سنگ باری اور توڑ پھوڑ اور معاملے کا سپریم کورٹ تک پہنچ جانا با شعور وکلا اور ججز کے لیے مقام فکر ہے۔ بینچ و بار کا یہ تنازعہ اور اس نوع کے دیگر واقعات عوامی بحث کا موضوع بن چکے ہیں جن پر ٹاک شوز اور دیگر ٹی وی پروگراموں اور پرنٹ میڈیا میں تبصرے اور رائے زنی جاری ہے جس سے وکلا اور عدالتوں کا وقار بری طرح متاثر ہورہاہے اور لوگوں کا قانون اور انصاف کے شعبے پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ عدالتوں اور اسپتالوں میں رائج ہوتے مار پیٹ اور ہڑتالی کلچر نے صحت و انصاف سے محروم عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں ملک میں ججز اور ڈاکٹرز کی تعداد پہلے ہی بہت کم ہے اس پر آئے دن کی ہڑتالوں نے عوام کی زندگیاں مزید اجیرن بنادی ہیں۔

وکلا کی ٹارگٹ کلنگ کے متواتر واقعات پر، دیگر قومی وعلاقائی سانحات و حادثات پر اور چھوٹے چھوٹے واقعات اور معاملات پر عدالتوں کے بائیکاٹ، سینئر وکلا وججزکی وفات پر، ججز کی ریٹائرمنٹ پر، عدالتی امور کی معطل اور طویل سالانہ چھٹیوں جیسے عوامل سے عدالتی کام، سائلین اور خود وکلا بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں، وکلا نمائندوں اور وکلا تنظیموں کو اپنے معاملات میں انتہا پسندانہ کے بجائے قانون پسندانہ رجحان اختیار کرنا چاہیے، بینچ اور بار دونوں کے لیے قانونی راستے اور قانون موجود ہے جس پر ان دونوں کا اعتماد ہونے چاہیے تاکہ عوام کا ان اداروں پر اعتماد مزید مجروح نہ ہونے پائے۔

ماتحت عدالتوں میں نا اہل اور فہم وفراست اور دانش سے محروم ججز کی خاصی تعداد ہے جن کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر و تعطل اور بعض مرتبہ نا انصافی بھی واقع ہوجاتی ہیں ایسے ججز و کلا اور سائلین کے لیے درد سری کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری جانب وکلا میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو دھونس، دباؤ، رشوت یا ذاتی تعلقات کی بنا پر اپنے حق میں فیصلہ کرنے کرنا چاہتے ہیں عدلیہ کے بعض ججز بھی اپنے ریمارکس میں غیر محتاط طرز عمل اختیار کرجاتے ہیں جنھیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے جس سے ان کی غیر جانبداری پر بھی حرف آتا ہے اور ان ریمارکس پر میڈیا اور جلسے جلوسوں میں بحث و تمحیث اور شعلہ بیانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

سیاست دان اور حکومتیں مخصوص حالات، مخصوص مقدمات میں عدالتوں کی خوش آمد، چاپلوسی یا کردار کشی کرتے نظر آتے ہیں اور کمال ہوشیاری سے اپنی ناکامیوں اور ذمے داریوں کا بوجھ عدالتوں کے کاندھوں پر ڈالتے ہیں جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے اطلاق کے سلسلے میں نظر آیا۔ جب ایک سابق وزیر قانون کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس ملا تو اس نے میڈیا کے سامنے نوٹس کو لہراتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں کہاکہ نوٹس کا جواب یوں دوںگا ’’نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا‘‘ اس قسم کے رویے انصاف کے شعبے کے لیے کوئی اچھی روایت نہیں ہیں۔

نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاہے کہ ’’نا انصافی قوموں کو افرا تفری اور انارکی کی طرف لے جاتی ہے‘‘ یقینا آج ہم اس قسم کی صورتحال سے ہی دو چار ہیں با شعور وکلا، ججز اور شہری اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ بد عنوان، کرپٹ اور غلام حکمرانوں کے خلاف جد وجہد اور قانون کی حاکمیت کے بغیر انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا تصور بھی محال ہے۔

ایک مستحکم و مربوط آزادانہ عدالتی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ وکلا، ججز، حکومت اور حکومتی ادارے اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے دیانت دارانہ اور فعال کردار ادا کریں۔ مضبوط کردار کے حامل اہل ججز ہی عدلیہ کی حرمت کا پاس رکھ سکتے ہیں اور مضبوط کردار کے حامل باوقار، مخلص اور اہل امیدوار ہی با وقار بار کی ضمانت فراہم کرسکتے ہیں۔ محلاتی سازشوں کے موجودہ ماحول میں بار کو آج جتنے صاف ستھرا اور کردار کے حامل افراد کی ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ وکلا اور ججز کے لیے بینچ اور بار کو سیاست سے پاک رکھنا سب سے بڑا چیلنج اور وقت کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔