سوچ کے دھارے تبدیل کیجیے

مقتدا منصور  پير 25 ستمبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت ملک کو درپیش سب سے سنگین مسئلہ مذہبی شدت پسندی ہے، جس پر بات کرنا تقریباً جرم بنادیا گیا ہے۔ خاص طور پر جب کہ منصوبہ سازوں کی سوچ سے مختلف آرا کا اظہار کیا جائے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ’’گھر کی درستی‘‘ کی بات کی، تو ان کے موقف کا ادراک کیے بغیر دیگر جماعتوں کے اکابرین کو تو چھوڑیے، خود ان کی اپنی جماعت کے بعض رہنماؤں نے ان پر کڑی تنقید کا سلسلہ شروع کردیا۔ جس سے یہ اندازہ ہوا کہ ایک طبقہ نہیں چاہتا کہ عقل و دانش پر مبنی کوئی بات کی جائے اور وطن عزیز کا تشخص بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔

مذہبی شدت پسندی ایک ایسا عفریت ہے، جس کے بارے میں نہ صرف عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، بلکہ ملک کے متوشش حلقے بھی اس کے باعث پریشانی میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کا نام آتے ہی دنیا کے بیشتر ممالک کے عوام کے ذہنوں میں دہشتگردی کو فروغ دینے والے ملک کا تاثر ابھرتا ہے۔ عالمی برادری کے ذہنوں میں بیٹھی اس غلط فہمی کو کج بحثی کے بجائے دانشمندی پر مبنی مثبت، ٹھوس اور دیرپا اقدامات کے ذریعے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ یہ طے ہے کہ ضد، ہٹ دھرمی اور تکرار معاملات میں بہتری کے بجائے خرابی کا باعث بنتی ہے۔

جب عالمی سطح پر مذہبی شدت پسندی پر مبنی دہشتگردی کے حوالے سے ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں شدت پسند عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، تو سفارتی سطح پر انکار کے باوجود ہم ان شواہد کو نہیں جھٹلا پاتے، جو عالمی حلقے پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دہشتگردی اور متشدد فرقہ واریت کا بدترین شکار خود پاکستان ہے، جس نے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ریاستی منتظمہ کے بعض طاقتور حلقے اور مخصوص سیاسی و مذہبی جماعتیں ان عناصر کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور انھیں قومی اثاثہ سمجھتی ہیں۔ ایسے بیانات اور اقدامات روز کا معمول ہیں، جو عالمی تاثر کو تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں۔

کوئی ہفتے بھر پہلے عالمی خبررساں ادارے Reuters نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بعض حکومتی حلقے کالعدم تنظیموں اور ان کی قیادتوں کو قومی دھارے (Mainstream) کی سیاست میں لانے کے لیے عملی طور پر فعال ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ جس کے نتیجے میں کئی کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں اور اکابرین نئی جماعتوں کے ذریعے قومی سیاسی منظرنامے میں آنے کی تیاریاں کررہے ہیں اور کچھ آچکے ہیں۔ Reuters کے مطابق ایک دفاعی تجزیہ نگار نے نہ صرف ان اقدامات کی تائید کی بلکہ شدت پسند تنظیموں کے جنگجو جتھوں کو ریاست کے مختلف پیراملٹری گروپوں میں شامل کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ انھوں نے اس موقف کا اظہار کیا کہ بحیثیت پاکستانی شہری ان تنظیموں کے رہنماؤں، اکابرین اور کارکنوں کو ملکی سیاست میں حصہ لینے کا پورا حق حاصل ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہر پاکستانی شہری کو قومی سیاست میں حصہ لینے کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ عناصر اور جماعتیں، جو آئین پاکستان کی دھجیاں بکھیر رہی ہوں اور جنھیں فرقہ وارانہ آویزش کو بڑھاوا دینے اور متشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا گیا ہو، کیا ان جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو نئے نام کے ساتھ سیاسی میدان میں اترنے کی اجازت دی جانی چاہیے؟ اور اگر اجازت دیا جانا انتہائی ضروری ہوگیا ہو، تو یہ اجازت دینے کی مجاز اتھارٹی کون ہو؟ کیونکہ جمہوری معاشروں میں پارلیمان اور عدلیہ ہی کسی شہری یا جماعت کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے یا نہ دینے کی مجاز اتھارٹی ہوتے ہیں۔

اب تک دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب بھی کسی جماعت کو مذہبی، فرقہ وارانہ یا نسلی ولسانی بنیادوں پر منافرت پھیلانے کے الزام میں کالعدم قرار دیا گیا، اس کی قیادت اور معروف رہنماؤں نے ایک نئے نام سے اپنی سابقہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ جس کی وجہ سے آئین و قانون کی بالادستی کا تصور تمسخر بن کر رہ گیا۔ جب کہ عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بری طرح مجروح ہوا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جن تنظیموں پر عالمی ادارے تسلسل کے ساتھ دہشتگردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کررہے ہیں، انھیں کن مصلحتوں کے تحت کام کرنے کی چھوٹ دی جارہی ہے۔ اب اگر ان تنظیموں کو نئے نام سے قومی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے، تو کیا یہ اقدام عالمی سطح پر تشویش میں اضافے کے ساتھ ملک کے متوشش حلقوں کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہوگا؟ شاید اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو دو نئی جماعتوں (لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ) بالترتیب تیسری اور چوتھی پوزیشن پر آئیں، جب کہ قومی دھارے کی جماعت پیپلز پارٹی نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ یہ دونوں جماعتیں مسلکی بنیادوں قائم ہیں۔ اول الذکر جماعت ممتاز قادری کی سزائے موت کے ردعمل میں وجود میں آئی ہے۔ جب کہ موخرالذکر جماعت کے تانے بانے کالعدم جماعت الدعوۃ سے ملتے ہیں۔ اگر یہ جماعتیں عوام کی اکثریت کو جذباتی نعروں کے سحر میں گرفتار کرتے ہوئے مقبولیت حاصل کرکے خاطر خواہ تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، تو خدشات ہیں کہ پاکستان کو خدانخواستہ الجزائر یا مصر جیسی صورتحال کا سامنا کرنا نہ پڑ جائے۔

الجزائر اور مصر کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو جماعتیں اور تنظیمیں جمہوریت پر یقین نہیں رکھتیں اور آئین کی مسلمہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں، وہ اقتدار میں آنے کے بعد جمہوریت مخالف اقدامات کو اپنی اولین ترجیح بنالیتی ہیں۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں جرمنی میں نازی پارٹی اور اٹلی میں مسولینی انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آئے، مگر دونوں ممالک میں نسلی فاشزم بدترین شکل میں دنیا کے سامنے آیا۔

اسی طرح حالیہ برسوں کے دوران بھارت میں BJP کا اقتدار میں آنا، کمیونل تعصبات کو بڑھاوا دینے کا باعث بنا ہوا ہے۔ آج BJP کے اتحاد میں شامل ہندو نسل پرست تنظیم راشٹریہ سیوک سویم سنگھ (RSS) کو غیرہندوؤں کے ساتھ متشدد کارروائیوں کے لیے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں، سکھوں، مسیحیوں اور دیگر غیر ہندو کمیونٹیز کے ساتھ امتیازی سلوک انتہائی شدومد کے ساتھ شروع ہوچکا ہے۔ نتیجتاً بھارت کا سیکولر آئین اور نصاب تعلیم شدت پسند سوچ کی زد پر آگئے ہیں۔ چونکہ بھارت میں جمہوری ادارے خاصے مضبوط ہیں، اس لیے آئین کی شقوں کو غیر سیکولر کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ مگر نصاب تعلیم کو کمیونل بنانا اور غیر ہندوؤں کے ساتھ امتیازی سلوک کی روایت کو مضبوط کرنا ناممکن نہیں رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں آئینی ادارے انتہائی کمزور بلکہ زد پذیر (Vulnerable) ہیں، اس لیے یہاں آئین کا حلیہ مزید بگاڑنا اور یک مسلکی آمریت قائم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کی خاطر سب سے پہلے ریاست کے قومی بیانیہ یعنی Narrative کی تشکیل نو اہم ترین ضرورت ہے۔ کیونکہ اس بیانیہ کی وجہ سے پاکستان مختلف نوعیت کی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اس کے گرد گھیرا مسلسل تنگ ہورہا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے جاری بیانیہ پر نظر ثانی کریں اور مناسب ترامیم کے ذریعے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ دوسرے امریکا کے ساتھ تعلقات کی تاریخ کتنی ہی تلخ کیوں نہ رہی ہو، اسے آنکھیں دکھا کر ہم اپنا موقف درست ثابت نہیں کرسکتے۔ کیونکہ شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے بلند دوستی والا چین بھی ہمارے موجودہ قومی بیانیہ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس لیے عالمی برادری اور خود پاکستان کے صاحب الرائے متوشش حلقوں کو مطمئن کرنے کے لیے ضروری ہے ایک نیا اور قابل قبول بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ اس کے علاوہ ملک کو دہشتگردی کی دلدل سے نکالنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔