بھٹکتی قانون سازی اور پارلیمنٹیرین(پہلا حصہ)

کشور زہرا  پير 25 ستمبر 2017

انتخابات کے موقع پر دن و رات ایک کرکے ووٹرز کو گھر سے پولنگ اسٹیشن تک ووٹ ڈالنے کی طرف نہ صرف راغب کرنا بلکہ آخر وقت تک ان کو آگہی فراہم کرنا بھی سیاسی کارکن کی ذمے داری ہوتی ہے، جو وہ بڑے جوش و جذبے سے کرتا ہے، جب کہ عوام اپنے دل اور ذہن سے کسی بھی سیاسی پارٹی کے نظریے کے ساتھ ہوں یا ہمدردی رکھتے ہوں، لیکن وہ عملی طور پر پولنگ والے دن صرف ووٹ دینے کے لیے ہی نکلتے ہیں۔ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ وہ عام آدمی جو اپنا ووٹ استعمال نہیں کرتا، بدقسمتی سے جمہوری پارلیمانی نظام کے حصے میں اپنا کردار ادا کرنے میں غیر ذمے دار ہے، جو سیاسی رائے دہی کی مضبوطی میں بڑی رکاوٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسی وجہ سے الیکشن سے پہلے سیاسی کارکن کو عوام اور امیدوار کے درمیان زیادہ سے زیادہ توجہ دلانے کے لیے سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اسی دوران کارکن رہنما اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے اور الیکشن ہوجانے کے بعد گمبھیر مسائل کے باعث سینڈوچ بھی بن جاتا ہے۔ اب حکومت کی لاپرواہیاں ہوں یا مجبوریاں، عوام کی توقعات تو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے منتخب نمایندے پر ہی لگی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے طلب عوام کا حق اور اس کو دلوانا منتخب نمایندوں پر فرض ہے، جب کہ وہ اپنی فرض شناسی کے لیے سوچ اور عمل سے کن پیچیدہ راہداریوں سے گزرتا ہے، میں اس بات کو اپنی تحریر میں سمیٹنے کی کوشش کروں گی۔

سماجی نظام میں بہتری لانے کے لیے قانون سازی اور پھر اس کا اطلاق لازم و ملزوم ہیں اور پھر صحیح عمل وہی ہوگا جو معاشرے کو برائیوں سے محفوظ رکھے۔ بدقسمتی سے آج تک جائز حقوق جن معصوم انسانوں کو 70 سال کے گزر جانے کے بعد بھی نہ مل سکے وہ پھر بھی اپنی کم مائیگی پر صبر کرکے اگلی نسل کے لیے آس لگائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آئینی و قانونی حقوق جن کا اطلاق ہونا چاہیے تھا، وہ بھی پوری طرح نہیں ہورہا، جن سے عوام کو سہولتیں مل سکیں۔ اب اسی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے تحت قوانین میں مزید ترمیمات کی جو کوششیں میں نے انفرادی اور اپنی پارٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر اجتماعی طور پر کی ہیں، وہ اسمبلی کی راہداریوں میں بھٹکتی، کمیٹیوں اور سب کمیٹیوں سے گزر کر اب بھی ایوان میں فیصلوں کی قبولیت کی منتظر ہیں۔

بحیثیت سوشل ورکر اور رضاکارانہ خدمات دینے پر مصائب و مسائل کو انتہائی قریب سے دیکھتے ہوئے قانون سازی کی ابتدا بھی ایک ایسے ہی سنگین مسئلے سے شروع ہوئی، جو عالمی ذرایع ابلاغ کی سرخیوں میں تھا، جس میں پاکستان کے اندر انسانی اعضا کی غیر قانونی خریدو فروخت کے حوالے سے پاکستان کو اعضا کا سستا ترین بازار قرار دیا جا چکا تھا، جس کی خبریں اخبارات و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ یقیناً یہ ملک کے لیے ایک بدنما داغ تھا، جب کہ اس مسئلے کی کچھ بنیادی وجوہات بھی تھیں۔

اگر کسی مریض کے گردے فیل ہوجاتے تو صاحب حیثیت لوگ اور غیر ممالک سے آنے والے امرا، غریب اور ضرورت مند افراد سے سستے داموں گردے خرید کر ٹرانسپلانٹ کروا رہے تھے اور اس کاروبار میں ایسے گروہ منظم ہوچکے تھے جو مجبور، غریب اور ضرورت مندوں کو گردے بیچنے کی طرف راغب کرتے، اول الذکر لوگ فیض اٹھاتے، دوسری جانب ایسے ہزاروں غریب، جو اس خرید کے متحمل نہیں تھے وہ زندگی سے ہاتھ دھو رہے تھے۔ اس گھناؤنے عمل کو ختم کرنے کے لیے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کئی سال سے ایسا قانون بنوانے کی کوششوں میں سرگرداں تھے جس کی رو سے اس کاروبار کا خاتمہ کیا جاسکے۔

جب میں نے2007 میں پہلی بار بحیثیت ممبر قومی اسمبلی ایوان میں قدم رکھا تو میں نے اور دیگر ساتھی ممبران نے ڈاکٹر ادیب کے اس مشن کو قانون کے ذریعے ’’پیوندکاری بل ایکٹ2010 ‘‘ منظور کروایا۔ اب اس کامیابی کو کاغذ کی تکمیل تو کہہ سکتے تھے، لیکن پایۂ تکمیل نہیں کہا جاسکتا تھا کہ نفاذ میں کمزوریوں کے باعث اعضا کی کھلے عام خرید و فروخت کا یہ عمل ڈھکے چھپے جاری رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا نہ تو کوئی قانون تھا اور نہ لوگوں میں آگہی۔ یاد رہے ایک مردہ جسم سے حاصل کیے گئے اعضا سے 17 افراد کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ میں نے اس کو قابل عمل بنانے کے لیے 2014 میں قانون کے اندر ایک ترمیم متعارف کروائی، جس میں رضاکارانہ طور پر ڈرائیونگ لائسنس اور شناختی کارڈ پر مخصوص خانے کا اندراج کیا جائے گا، جس میں لوگ اپنی مرضی سے اپنے اعضا بعد از مرگ عطیہ کرنے کی وصیت کا اندراج کروائیں گے اور ان حاصل شدہ اعضا سے ہزاروں افراد کی جانیں بچائی جاسکیں گی۔

ہماری سوسائٹی کا ایک اور المیہ معذور افراد اور ان کے صحیح اعداد وشمار موجود نہ ہونا بھی ہے، لیکن عالمی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں ان کی تعداد 12 سے  15فیصد ہے، جن میں سے 9 فیصد ایسے بھی ہیں جو صرف جسمانی محرومی کا شکار تو ہیں لیکن ذہنی طور پر چاق و چوبند ہیں اور وہ اپنے والدین کی کاوشوں سے اعلیٰ تعلیم سے آراستہ بھی ہیں، لیکن سرکاری سطح پر کوئی فلاحی سہولتیں انھیں حاصل نہیں، لہٰذا ان کی بہتری کے لیے بذات خود ایوانوں میں بحیثیت پارلیمنٹیرین ان کی اپنی موجودگی کو ضروری قرار دینے کی کوشش کی کہ ایوانوں میں بیٹھ کر یہ خود اپنے لیے قانون سازی کرسکیں۔ جس کے لیے میں نے ایک آئینی بل 2007 اور  2013 دونوں اسمبلیوں کے دورانیے میں پیش کیا، لیکن جس کو ماننے کے لیے نہ کمیٹیاں اور نہ ہی الیکشن کمیشن تیار نظر آتا ہے، جو آج تک زیر التوا ہے۔ اسلامی مملکت ہونے کے باوجود اسلام کے احکام سے عمل میں دور کا واسطہ نظر نہیں آتا، جس کے باعث معذوروں کی ایک بہت بڑی کمیونٹی اور ان کے اہل خانہ مایوسی کا شکار ہیں۔

معاشرے کا ایک اور افسوسناک پہلو دشمنی اور قانون سے بالادستی کی روش کے باعث جھوٹے مقدمہ بازی کی وجہ سے بے گناہ و معصوم افراد زیادتیوں کا نشانہ بن رہے ہیں، جس کی روک تھام کے لیے میں نے 2013 میں پاکستان پینل کوڈ اور ضابطہ فوجداری میں یہ ترمیم پیش کی جس میں ’’جھوٹی ایف آئی آر‘‘ درج کرنے والے پولیس آفیسر اور مقدمہ درج کروانے والے کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ کیونکہ طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر جھوٹی ایف آئی آر کٹ جانے پر میں نے کئی گھر برباد ہوتے دیکھے ہیں۔ یہ ترمیم بھی قائمہ کمیٹی کے پاس زیر غور ہے۔

پولیس تشدد کا چرچا نہ صرف ذرایع ابلاغ بلکہ عدالتوں میں بھی زیر بحث آتا رہتا ہے، جس کے خاتمے کے لیے میں نے ضابطہ فوجداری  2013  میں اضافی نوعیت کی ترمیم جمع کروائی، جس میں جسمانی تشدد اور ظالمانہ طریقہ تفتیش پر قدغن لگانے کے لیے ٹھوس تجاویز دیں، جو قائمہ کمیٹی کے پاس موجود ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بسا اوقات کسی بھی ملزم سے جرم کی تصدیق کے لیے اتنا تشدد اور ظلم کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یا مجبور ہوکر زبردستی اقرار جرم کرلیتا ہے اور یہ طریقہ کار انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح قانون میں چوری کی سزا کم ہونے کی وجہ سے زیادہ فائدہ چور کو ہورہا تھا، لہٰذا میں نے ایک بل ’’چوری کی سزا میں اضافہ 2014‘‘ تجاویز کے ساتھ اسمبلی میں پیش کیا، جس کی قائمہ کمیٹی نے ابتدائی سطح پر منظوری دے دی ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔