مت سمجھو تم کو بھلا دیا

سردار قریشی  پير 25 ستمبر 2017

کوئی 25-26 سال پہلے کی بات ہے، میں لالوکھیت میں رہتا تھا اور ہر ہفتے چھٹی کے دن امی سے ملنے شادمان ٹاؤن (نارتھ کراچی) جایا کرتا تھا، جہاں وہ میرے چھوٹے بھائی عطا محمد کے ساتھ رہتی تھیں۔ ایک بار جب میں حسبِ معمول وہاں پہنچا تو بھائی کے تینوں بچے، جو اب ماشاء اﷲ تعداد میں 7 ہیں، آکر مجھ سے لپٹ گئے۔ بڑا بیٹا خرم اور اس سے چھوٹی بیٹی سعدیہ تو مل کر چلے گئے جب کہ ان کی تیسری بہن رابعہ میری گود میں ہی بیٹھی رہی۔ بھائی دفتر گئے ہوئے تھے اور بھاوج کچن میں مصروف تھیں، ان کی غیر موجودگی سے حوصلہ پاکر اس نے مجھ سے چیز کھانے کے لیے آٹھ آنے (50 پیسے) کا سکہ مانگا، جو اتفاق سے میری جیب میں نہیں تھا۔ میں نے اسے ایک روپے کا نوٹ دیا اور بتایا کہ اس میں 8 آنے کے دو سکے ہوتے ہیں، لیکن اس نے وہ نہیں لیا اور بدستور سکہ مانگتی رہی، شاید نوٹ کو پیسے ہی نہیں سمجھتی تھی، تھی ہی کتنی، مشکل سے 6-5 سال کی رہی ہوگی۔ اس کی ضد سن کر بھاوج نے پہلے توکچن ہی سے اسے ڈانٹ پلائی لیکن جب وہ پھر بھی چپ نہ ہوئی تو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا اور ڈرانے کے لیے وہ چمٹا دکھایا جس سے وہ توے پر سے گرم گرم روٹیاں اتار رہی تھیں، ان کے چمٹا آگے کرنے کی دیر تھی کہ ننھی رابعہ بھی بھاگنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور ہڑبڑاہٹ میں گرم چمٹا اس کی کلائی پر جا لگا، جس سے وہاں چھوٹا سا پھپھولہ بن گیا۔

اس کی دل دہلا دینے والی چیخ سن کر میں بھاگ کر گیا، اسے کچن سے اٹھا لایا اور چپ کرانے کے لیے بہت دیر تک بہلاتا رہا، لیکن وہ جیسے چپ ہونا جانتی ہی نہ تھی، روتی جائے اور بار بار کلائی آگے کرکے مجھے یوں دکھائے جیسے کہہ رہی ہو کہ یہ سب میرے آٹھ آنے نہ دینے کی وجہ سے ہوا ہے۔ پھر جب کچھ دیر بعد خرم اوپر آیا تو میں نے اسے بھیج کر نوٹ کھلا کروایا۔ وہ رابعہ جو تھوڑی دیر پہلے تک گلا پھاڑ پھاڑ کر رو رہی تھی، سکہ پاکر یوں چپ ہوگئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا، مچل کر میری گود سے اتری اور بھائی کے ساتھ چیز لینے چلی گئی۔

سعدیہ بیٹی کو پیسوں اور چیز کھانے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، پوچھنے پر بس میک اپ کے سامان کی فرمائش کرتی۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں اسے شادمان سے اپنے ساتھ لالوکھیت لے گیا اور نیرنگ سینما والی سب وے کی کھلونوں کی ایک دکان سے میک اپ کی بہت سی کھلونا چیزیں دلائیں، جنھیں پاکر وہ بہت خوش ہوئی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ وقت کو پر لگ گئے، کل کے یہ تینوں بچے خود ہی بڑے نہیں ہوئے، اپنے بچوں کے ماں باپ بھی بن گئے۔ ان کے باقی دو بھائی اور دو بہنیں بھی الحمدﷲ جوان ہیں۔ یہ سطور ٹائپ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے وہ کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی ہے جو میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا تھا۔ آٹھ آنے کے سکے کے لیے ضد کرنے والی ننھی رابعہ ہم سے روٹھ کر بہت دور ایسی جگہ چلی گئی ہے جہاں سے کوئی بھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔

آج جب میں اس کی یادوں کو سمیٹنے بیٹھا ہوں، اسے ہم سے بچھڑے پانچ دن ہوچکے ہیں۔ چشم تصور سے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے جیسے آٹھ آنے کا سکہ پاتے ہی وہ میری گود سے اتر کر دادی کی گود میں جا بیٹھی ہے اور مجھے یوں دیکھ رہی ہے جیسے کہہ رہی ہو کہ اب وہ کبھی میرے پاس نہیں آئے گی اور دادی کے پاس ہی رہے گی۔ سال بھر پہلے جب وہ بیمار پڑی تو ڈاکٹروں نے بریسٹ کینسر کا مرض تشخیص کرکے علاج کے طور پر آپریشن تجویز کیا۔ ایک مشہور مقامی اسپتال میں نامور خاتون سرجن نے پہلے کرائے ہوئے آپریشن کو غلط قرار دے کر دوبارہ آپریشن کیا اور بتایا کہ انھوں نے مرض کو جڑ سے نکال پھینکا ہے، لہٰذا اب پریشان ہونے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں، لیکن ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق بجائے ٹھیک ہونے کے اس کی تکلیف روز بروز بڑھتی ہی گئی۔ ان سے مایوس ہوکر دوسرے اسپتالوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا اور کئی جدید طریقہ ہائے علاج آزمائے گئے، لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ آخری دنوں میں جب اس کی حالت بہت بگڑنے لگی اور اس نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا تو اسے ایک دوسرے کینسر اسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں اس کا علاج تو کیا ہوتا، صحیح طبی نگہداشت بھی نہیں ہوئی۔

اسپتال کے انچارج ڈاکٹر، ملک سے باہر گئے ہوئے تھے جن کے دیکھے بغیر علاج شروع نہیں کیا جاسکتا تھا، کچھ روز ان کی واپسی کی راہ تکتے گزر گئے ، پھر جب موصوف تشریف لائے تو سفر کی تھکاوٹ دور کرنے اور فریش ہونے میں انھیں مزید دو تین دن لگ گئے، ڈیوٹی جوائن بھی کی تو ان کی پہلی ترجیح او پی ڈی تھی۔ پھر جب انھیں ہماری گڑیا کو دیکھنے کا وقت ملا بھی تو صرف یہ بتانے کے لیے کہ اس کا وقت پورا ہوچکا ہے ۔ پیر، 18 ستمبر کو بوقت ظہر، بھائی نے فون پر بھرائی ہوئی آواز میں مجھے اس کی اطلاع دی۔ میں فوراً اسپتال پہنچا، جہاں گھر والوں اور خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ رابعہ کے شوہر اور دوسرے سسرالی رشتے دار بڑی تعداد میں پہلے سے موجود تھے۔

میں نے اپنی چہیتی بھتیجی کو جس کرب اور تکلیف کی حالت میں دیکھا، خدا وہ کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ اس سے بولا تو کیا سانس بھی نہیں لیا جارہا تھا، آکسیجن ماسک لگانے سے اس کی بے چینی میں مزید اضافہ ہورہا تھا، مجھ سے بچی کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی، آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھاتا ہوا محسوس ہوا تو میں اس کے برابر والے خالی بیڈ پر بیٹھ گیا، طبیعت سنبھلی تو نیچے انتظار گاہ میں آبیٹھا، تھوڑی دیر میں پھر میری طبیعت خراب ہونے لگی اور پورا اسپتال گھومتا محسوس ہوا تو بھائی نے بیٹے سے کہہ کر مجھے گھر بھجوادیا۔ نماز مغرب سے فارغ ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ بھائی نے اس کی وفات کی روح فرسا خبر سنائی۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

یوں رابعہ نے تو بیماری کی اذیت جھیلنے سے نجات پالی اور عین جوانی میں ماں باپ، بھائیوں، بہنوں، شوہر اور دیگر تمام رشتے داروں حتیٰ کہ اپنے معصوم بچوں تک سے ناتا توڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی، لیکن وہ ہمیں دکھ کے جس عذاب میں ڈال گئی ہے اس سے جیتے جی چھٹکارا ملنا ممکن نہیں۔ بھائی نے بتایا کہ جب رابعہ بیٹی کی میت اسپتال سے سرد خانہ منتقل کی جارہی تھی تو اس کی ماں نے پوچھا ساتھ کون جائے گا، وہ اکیلے میں ڈرے گی۔ غم اور صدمے سے نڈھال بھائیوں اور بہنوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی، اس کی چھوٹی بیٹی تسبیحہ رات کو سوتے میں نانا سے اﷲ میاں کا پتہ پوچھنے آئی تھی، اسے کسی نے بتایا تھا کہ تمہاری ماما اﷲ میاں کے پاس چلی گئی ہیں اور اب کبھی واپس نہیں آئیں گی، کہتی تھی وہ بھی ماما سے ملنے اﷲ میاں کے پاس جانا چاہتی ہے۔ میں اپنی پیاری بیٹی رابعہ سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تم بھلے ہی دادی کی گود میں بیٹھی یا پہلو میں لیٹی رہو جو یقیناً تمہارا ہم سب سے زیادہ خیال رکھیں گی، لیکن اتنا یاد رکھو کہ تم ہماری یادوں میں ہمیشہ آباد رہو گی، تمہیں شاید مٹی سے کچھ زیادہ ہی پیار تھا، تبھی اتنی جلدی اس میں جا ملی ہو، ہم نے بھی اسی خیال سے تمہیں مٹی میں سلا دیا ہے، آرام کرو اور مت سمجھو تم کو بھلا دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔