طیب اردگان اور مسلم دنیا

عابد محمود عزام  پير 25 ستمبر 2017

ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ عقل و فراست اور تدبیر و حکمت کے ساتھ شجاعت و جرات بھی عطا کرتے ہیں اور اگر ایسی صفات کے لوگوں میں جذبہ صادق ہو تو وہ عظیم قائد بن کر ابھرتے ہیں اور وہ کچھ کر جاتے ہیں جو دوسرے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی لوگ اپنے عظیم کارناموں کی وجہ سے ایک محبوب کی طرح دنیا کے دلوں میں بستے ہیں۔ آج آپ کو ایک ایسے ہی شخص کی کہانی سناتے ہیں۔ اس شخص کا نام رجب طیب اردگان ہے، جو 1954 میں ایک غریب کوسٹ گارڈ کے گھر استنبول کی نواحی بستی ’’قاسم پاشا‘‘ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں ٹافیاں اور ڈبل روٹی بیچنا شروع کی اور ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔ 1965 میں گریجویشن اور 1981 میں بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کی۔

1976 میں سیاست میں قدم رکھا۔ 1994 میں استنبول کا میئر بن گیا۔ اس وقت استنبول جرائم کا شہر تھا۔ طیب اردگان نے صرف دو برس میں شہر کو کرائم فری کردیا اور عوام کے دیگر تمام مسائل بھی حل کردیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے استنبول دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہونے لگا۔ استنبول کی تعمیر و ترقی کو دیکھ کر عوام نے انھیں ترکی کے وزیراعظم کے طور پر آگے آنے کا مشورہ دیا اور 2002 کے انتخابات میں کامیابی ان کے نام کردی۔ ان دنوں ترکی ایک اقتصادی بحران میں پھنسا ہوا تھا۔ طیب اردگان نے ترکی کو اس بحران سے نکالا اور ترکی کو حقیقی معنوں میں ’’مرد بیمار‘‘ کی کیفیت سے نکال کر ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ ترکی کی معیشت کا شمار دنیا کی بہترین معیشتوں میں ہونے لگا۔

2007 میں الیکشن ہوا تو ترک قوم نے ایک بار پھر اسے ہی منتخب کیا۔ 2011 میں تیسری بار ترکی کا وزیراعظم بنا اور پھر ترکی کا مضبوط صدر بن گیا۔ ہر بار عوام کے دلوں میں اس کی محبت پہلے سے زیادہ ہوتی گئی۔ 15 جولائی 2016 کی شب فوج کے ایک دھڑے نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کیا تو بغاوت کی سازش کو ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اور اپنی جانیں قربان کرکے ناکام بنادیا۔ طیب اردگان کا وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی ایسا منصوبہ، کارنامہ، عالم اسلام کی حمایت اور اغیار کے خلاف دیا گیا کوئی بیان سامنے آتا رہتا ہے جو ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ اس وقت طیب اردگان اپنے ملک کی معاصر تاریخ کا مقبول ترین اور ہر دلعزیز حکمران شمار ہوتا ہے۔

طیب اردگان صرف اپنے ملک میں ہی مقبول نہیں، بلکہ پوری دنیا میں ان کی مقبولیت کا چرچا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں کہیں مظلوم مسلمانوں کی بات ہوتی ہے تو ظلم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں طیب اردگان ضرور آواز بلند کرتا ہے۔ اس کی تازہ مثال میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم ممالک کے تمام حکمران مل بیٹھ کر مختلف آپشنز پر عمل کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور الگ ریاست کی راہ ہموار کرتے، لیکن چند ایک کے سوا تقریباً تمام نے چند بیانات دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ ایسے میں مظلوم روہنگیا کے حق میں سب سے توانا، آواز اور مضبوط اقدامات اور سب سے اہم کردار ترکی کے صدر طیب اردگان کا ہے، جنھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے اس پر خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھی ذمے دار ٹھہرایا۔ اس حوالے سے مسلم دنیا کے متعدد ممالک کے رہنماؤں سے رابطہ کیا۔ آنگ سان سوچی کو فون کرکے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور بنگلا دیش میں آنے والے تمام روہنگیا مہاجرین کے نہ صرف تمام اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا، بلکہ فوری طور پر اپنی بیوی امینہ اردگان، اپنے بیٹے اور کئی کابینہ ممبران کو امداد کے ساتھ بنگلادیش بھیجا، جنھوں نے مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا اور امدادی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا۔

آستانہ میں ہونے والی او آئی سی کی میٹنگ میں طیب اردگان نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں بھرپور آواز اٹھائی۔ اس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میانمار کے مسلم اکثریتی اراکان ریاست میں مسلمان آبادی کا صفایا کیا جارہا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے گاؤں جو پہلے ہی انتہائی غربت میں جی رہے ہیں۔ انھیں اپنا خطہ اور آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بنگلا دیش میں روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں میں بنیادی انسانی ضروریات تک موجود نہیں ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ بالکل شام کی طرح، اراکان کے المیے پر بھی عالمی برادری ناکام ہوچکی ہے۔ جب تک میانمار میں جاری انسانی بحران کو روکا نہیں جاتا، تاریخ کے ایک اور سیاہ داغ پر انسانیت کو شرمناک زندگی گزارنا پڑے گی۔

دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے طیب اردگان نے پہلی بار قائدانہ کردار ادا نہیں کیا، بلکہ اس سے پہلے بھی جب دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر مشکل وقت آتا ہے تو ان کے حق میں بلند ہونے والی سب سے پہلی آواز طیب اردگان کی ہی ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی مسلم ملک میں زلزلہ، طوفان، قحط سالی، سیلاب آئے یا دہشت گردی و مسلم کشی کی لہر۔ طیب اردگان اور ان کی ٹیم کے ارکان سب سے پیش پیش، سب سے زیادہ فعال اور متحرک نظر آتے ہیں۔ طیب اردگان نے ہی شام کے مہاجرین کو گلے لگا کر ’’مواخاۃ مدینہ‘‘ کی یاد تازہ کی۔ 2012 میں برما میں روہنگیا مسلمانوں پر تشدد کی لہر نے جنم لیا، اس وقت بھی طیب اردگان نے روہنگیا مظلوموں کو گلے لگایا اور اپنی بیوی اور حکومت کے وزرا کو امداد کے ساتھ بنگلا دیش کے کیمپوں میں روہنگیا مہاجرین کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔

2008 میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد طیب اردگان کے زیر قیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں طیب اردگان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دو ٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنوینئر کی جانب سے انھیں وقت نہ دینے پر رجب طیب اردگان فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس کے بعد 31 مئی بروز پیر 2010 کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے میں 9 ترک شہریوں کی شہادت کے بعد پھر ایک بار اردگان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرے۔ بنگلادیش کی جانب سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسی پر واحد ترکی حکومت نے ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا۔

رجب طیب اردگان اگرچہ کائنات کا بہترین حکمران نہیں ہے۔ جہاں اس میں بہت سی خوبیاں ہیں، کئی خامیاں بھی ہوں گی، لیکن یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت مسلم ممالک میں سب سے بہترین حکمران طیب اردگان ہے۔ ایک درد دل رکھنے والا مسلم حکمران، جو امت کی بات اور عملی طور پہ دل جوئی کرتا ہے۔ ان کے اب تک کے اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے قوت دی تو وہ مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے گا اور ہر کمزور کے ساتھ اور ظالم کے خلاف کھڑا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔