محرم الحرام میں امن اوررواداری کو فروغ دینا ہوگا!!

فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

محرم الحرام کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس ماہ میں دہشت گردی کے خدشات موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سکیورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں۔

رواں ماہ امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کیلئے حکومت ، سکیورٹی ادارے، علماء و دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کیا کام کررہے ہیں اس بارے میں جاننے کیلئے ’’محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں وزیر قانون پنجاب اور تمام مسالک کے علماء نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رانا ثناء اللہ
(صوبائی وزیر قانون پنجاب)
محرم الحرام کے جلوسوں میں عوام کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ان جلوسوں کا وقت، روٹ اور مقام پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے لہٰذا اس حوالے سے دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنا مشکل نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے محرم الحرام میں فول پروف سکیورٹی انتظامات کیے جارہے ہیں جبکہ اس دفعہ سکیورٹی کیلئے ’’چار حفاظتی حصار‘‘ قائم کیے جارہے ہیں جس کے تحت جلوسوں اور مجالس کے شرکاء کی چار مقامات پر چیکنگ ہوگی۔

ہم چاہتے ہیں کہ چیکنگ کے اس عمل میں شیعہ علماء اور ان کے لوگ خود بھی موجود ہوں تاکہ کسی بھی ممکنہ بدمزگی سے بچا جاسکے۔سکیورٹی معاملات کی وجہ سے علماء کو چاہیے کہ تمام جلوس بروقت ختم کریں، دوسرے مسالک کے علماء مجالس میں شریک ہوکر یکجہتی کا پیغام دیں اور واقعہ کربلا کے حوالے سے امت مسلمہ کو درس دیں ۔اس مرتبہ رینجرز اورپولیس کے ساتھ ساتھ تمام مسالک کے علماء مرکزی جلوس کی حفاظت کے لیے ساتھ ہوں گے تاکہ نچلی سطح تک اتحاد کا پیغام جائے۔ محرم کے ان ایام کے دوران تمام مسالک کے مختلف پروگرام ہوتے ہیں، ہم کوشش کررہے ہیں کہ بڑی مجالس میں تمام مسالک کے علماء شریک ہوں اور اپنے اپنے انداز میں شرکاء کو واقعہ کربلا سنائیں اور شہداء کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔

اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔ اہل تشیع عالموں کو بھی چاہیے کہ وہ دیگر مسالک کے پروگراموں میں شرکت کریں۔ ماضی میں حکومت کو فکر ہوتی تھی کہ مختلف مسالک کے علماء ایسی تقاریر کریں گے یا ایسا معاملہ اٹھائیں گے جس سے تفرقہ پھیلے گا اور حالات خراب ہوں گے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ موجودہ دور میں قوم و امت کو متحد رکھنے اور تفرقہ ڈالنے والوں کی سرزنش کرنے کا جذبہ علماء میں موجود ہے جس کے باعث ہمیں تشویش کم ہوتی ہے۔ جن کے بارے میں ہمیں شک ہوتا ہے یا انٹیلی جنس رپورٹ ملتی ہے کہ یہ خرابی پیدا کرسکتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور جن کی ضمانت علماء دیتے ہیں ہم انہیں اجازت دے دیتے ہیں اور جن کی وہ ضمانت نہیں دیتے ان کو سزا دی جاتی ہے۔

ہم نے گزشتہ پانچ برسوں میں محرم الحرام کے جلوسوں کے دوران ہونے والے ناخوشگوار واقعات کا جائزہ لینے کے بعد موثر پلاننگ کی ہے ، جلوس کے راستے میں آنے والی مساجد پر خصوصی فوکس کیا جائے گا۔ لاؤڈ سپیکر کے حوالے سے منتظمین کو خیال رکھنا چاہیے کہ آواز صرف شرکاء تک جائے ۔ اس محرم الحرام میں دہشت گردی کا خطرہ کم ہے تاہم ہائی پروفائل سیاسی و مذہبی شخصیات کو محتاط رہنا ہوگا، حکومت بھی ان کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ پنجاب میں سکیورٹی انتظامات بہترین ہیں، یہاں دہشت گرد ہیں اور نہ ہی ان کے سہولت کار جبکہ کومبنگ آپریشنز میں مزید تیزی لائی گئی ہے تاکہ کسی بھی قسم کے خطرے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں کرکٹ میچ کا پر امن انعقاد اس بات کا ضامن ہے کہ سکیورٹی حالات بہتر ہیں تاہم ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

مولانا طاہر محمود اشرفی
(چیئرمین پاکستان علماء کونسل )
یکم محرم حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ اور 10محرم سیدنا امام حسینؓ کا دن ہے۔پاکستان علماء کونسل نے اس مرتبہ یکم محرم سے 10محرم تک، عشرہ فاروقؓ و حسینؓ منانے کا فیصلہ کیا جسے امن و سلامتی کے عشرے کا نام دیا گیا ۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ یہ شخص ان پر حملہ کرنے والا ہے۔ جب صحابہ کرامؓ نے آپؓ سے کہا کہ اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ آپؓ نے فرمایا کہ اس نے یہ عمل ابھی کیا نہیں۔ اسی طرح اگر سیدنا امام حسینؓ کال دے دیتے تواس وقت لاکھوں جانیں آپؓ پر قربان ہوجاتیں کیونکہ حج کے ایام تھے اور دنیا بھر سے لوگ وہاں موجود تھے مگر آپؓ نے امن برقرار رکھا اور دنیا کو پیغام دیا کہ ظلم اور جبر کے سامنے قربانی دیکر دنیا کا امن و سلامتی برقرار رکھنا اسلام ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت امام حسینؓ نے امن و سلامتی کا جو درس دیااسے فروغ دیا جائے۔ محرم الحرام کے دوران دشمن کے پاس تخریب کاری کا نادر موقع ہوتا ہے کہ وہ ملک میں فساد پیدا کر سکے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان علماء کونسل نے تمام مکاتب فکر کے علماء کی مشاورت سے ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیا ہے جس کا بنیادی نکتہ ہے کہ اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں، دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں۔ کسی بھی شخص کو مقدس شخصیات کی توہین کا حق نہیں ہے۔ کسی بھی اسلامی مکتبہ فکر کو کافر کہنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ ہم نے حکومت سے بھی گزارش کی ہے کہ نفرت آمیز لٹریچر کی اشاعت پر صرف پابندی لگانا کافی نہیں، ایسا مواد شائع کرنے والے کو فوری سزا دی جائے۔ محرم الحرام میں امن و امان کے قیام کیلئے علماء، زاکرین اور خطباء کی ذمہ داری ہے وہ دین اسلام کے محبت کے پیغام کو عام کریں کیونکہ اسلام ، امن و سلامتی اور رواداری کا دین ہے جس میں غیر مسلموں کے لیے بھی سلامتی ہے۔

پاکستان علماء کونسل نے گزشتہ 10برسوں میںملک میں امن و سلامتی کے لیے بین المسالک رواداری و ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالموں کو فروغ دیا۔ امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کیلئے حکومت کو اپنی رٹ قائم اور ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر محرم کے جلوس وقت پر شروع اور مقررہ وقت پر ختم ہونے چاہئیں تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ ماضی میں ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو جگہ دی جاتی تھی، سبیلیں لگائی جاتی تھیں اور سب کا احترام کیا جاتا تھا، ہمیں اب بھی وہی طرز عمل اپنانا ہوگا۔ پاکستان میں کلبھوشن کی پلاننگ ابھی بھی موجود ہے ، دشمن سمجھتا ہے کہ پاکستان کو فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے کمزور کیا جاسکتا ہے لہٰذا ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ محرم الحرام کے ایام میں مجالس اور جلوس زیادہ ہوتے ہیں جن میں تخریب کاری کرنا دشمن کیلئے قدرے آسان ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ایام حساس ہیں۔

ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا چاہیے، قانون کی بالادستی قائم کرنی چاہیے اور انتظامیہ کی بات سننی چاہیے۔ میرے نزدیک قومی ایکشن پلان نافذ کرنے کا یہ بہترین وقت ہے تاکہ کوئی بھی شخص فتنہ پیدا نہ کر سکے۔ محکمہ اوقاف پنجاب کی کاوشیں ماضی میں اچھی رہی ہیں مگر اس مرتبہ معاملات تسلی بخش نہیں ہیں۔ تاحال وزیراعلیٰ پنجاب نے کوئی میٹنگ نہیں بلائی تاہم مرکزی سطح پر وزارت داخلہ و سلامتی کے اداروں کے رابطے موجود ہیں مگر صوبائی سطح پر خاموشی نظر آرہی ہے۔ پنجاب کی انتظامیہ و پولیس اپنی سطح پر محرم الحرام میں سکیورٹی کے حوالے سے کام کررہی ہے مگر مجموعی طور پر ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی جس طرح ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

قاری زوار بہادر
( صدرجمعیت علماء پاکستان )
ماضی میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل جیسے اتحاد سے سب کو مثبت پیغام گیا اور اکابرین کے اکٹھا بیٹھنے کے اچھے اثرات نچلی سطح تک گئے ۔ اُن دنوں تمام مسالک کی مساجد و امام بارگاہوں میں مشترکہ جلسے کیے گئے جس میں تمام مسالک کے لوگ شرکت کرتے تھے جس سے حالات میں بہتری آئی۔ آج بھی عالمی حالات اور سازشوں کے پیش نظر علماء کو پہلے سے زیادہ متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے علماء اور سیاستدانوں کو محتاط رہنا ہوگا تاکہ دشمن کو تخریب کاری کا کوئی بھی موقع نہ مل سکے۔

محرم الحرام میں دشمن فساد پھیلا کر اسے شیعہ سنی فساد ات کا نام دینا چاہتا ہے حالانکہ شیعہ سنی کا آپس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ بارہا ایسا دیکھا گیا ہے کہ امام بارگاہ پر حملے کے متاثرین کو خون دینے والے سنی ہیں جبکہ کسی مسجد پر حملے کے متاثرین کو خون دینے والے شیعہ نوجوان تھے۔ سیاسی و دینی جماعتوں کے تمام بڑے لیڈران آپس میں مل بیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیں جبکہ نفرتوں و دوریوں کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’’را‘‘ کے ایجنٹ بلوچستان، کراچی و دیگر جگہ موجود ہیں اور ایسا حکومتی سطح پر بھی کہا جاچکا ہے لہٰذا انتظامیہ اور ہمیں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ محرم میں کوئی بھی تخریب کاری کاواقعہ نہ ہو کیونکہ ان ایام میں ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں۔

میرے نزدیک اس مرتبہ ریڈ الرٹ والی صورتحال ہے کیونکہ ماضی کی نسبت خطرہ زیادہ ہے اور دشمن قوتیں موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ جمعیت علماء پاکستان ہمیشہ سے ہی اتحاد امت کیلئے کام کرتی رہی ہے، اس مرتبہ بھی تمام صوبوں و اضلاع میں سرکاری و نجی کمیٹیوں میں ہمارے نمائندے موجود ہیں جو اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کررہے ہیں۔ دشمن ہر ’’کلمہ گو‘‘ کو مار رہا ہے لہٰذا ہمیں ذاتی اختلافات بالائے طاق رکھ کراسلام و ملک کی سلامتی کیلئے اتحاد قائم کرنا ہوگا تاکہ دشمن کو شکست دی جاسکے۔

حافظ زبیر احمد ظہیر
(مرکزی رہنما جمعیت اہلحدیث )
بھارت، اسرائیل اور امریکا پاکستان میں خرابی پیدا کرنے کوشش میں ہیں اور ایسا سننے میں آرہا ہے کہ بعض عناصر کو اس کا ٹاسک بھی دیا جاچکا ہے لہٰذا ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے ہمیں اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ حب الوطنی کے تقاضے ہمارے سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان اور اسلام کیلئے اپنے اپنے جذبات اور مسلکی نعروں و مفادات کی قربانی دیں، فرقہ واریت یا فساد پھیلانے والوں کا خاتمہ اور تخریب کاروں کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔

انتظامیہ ، پولیس اور حکومت کی جانب سے محرم الحرام کیلئے کیے جانے والے سکیورٹی انتظامات تسلی بخش ہیں، ہم حکومتی سطح پر ہونے والی میٹنگز میں شریک ہورہے ہیں تاکہ امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنایا جاسکے۔ ہمیں یقین ہے کہ محرم الحرام کا یہ مقدس مہینہ امن و امان سے گزرے گا اور دشمن کے عزائم پورے نہیں ہوسکیں گے۔ میرے نزدیک محرم الحرام کے دوران ہمیں تنازعات اور تنقید کے بجائے شہداء کی عظمت، فضائل، ہمارے فرائض ، ان کی شہادت و قربانی کا درس اور مثبت پیغام دینا ہوگا۔ ہمیں ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہیے۔

جس سے حالات خراب ہونے کا خدشہ ہو کیونکہ اس مرتبہ حالات حساس ہیں۔ دشمن گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوشش کررہا ہے مگر تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس سازش کو ناکام بنایا اور آئندہ بھی ناکام بنائینگے۔برما میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، ہمیں ہر مجلس ، تقریر، اجتماع اور جلوس میں برما کے مسلمانوں کی حمایت کرنی چاہیے اور ان کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ افسوس ہے کہ حکومتی سطح پر موثر آواز نہیں اٹھائی گئی، ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ترکی، ایران، سعودی عرب، و دیگر ممالک کے ساتھ ملکر برما کے مسلمانوں کے لیے کام کرے۔

حافظ کاظم رضا نقوی
( رہنما شیعہ علماء کونسل)
کسی بھی شخصیت کی شان میں گستاخی کی کوئی گنجائش نہیں ہے مگر جب تک کم علم لوگ ہماری صفوں میں موجود ہیں نفرت پھیلانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ایسے لوگوںکی پکڑ کیلئے ضابطہ اخلاق موجود ہے لہٰذا ان کی گرفت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ علماء کا بھی کام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی نشاندہی کریں۔ ہم نے اپنی صف میں موجود ایسے لوگوں کی خود نشاندہی اور پکڑ کروائی ہے جو نفرت پھیلا رہے تھے مگر انہیں کسی نے رہا کروا دیا۔

گزشتہ دنوں ہم نے ’’بشارت عظمیٰ کانفرنس‘‘ منعقد کی جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔آقا خامنائی کا خصوصی فرمان بہت عرصہ پہلے جاری ہوا کہ جو فقہ جعفریہ میں ہے ، میں ان کے لیے حکم دیتا ہوں کہ نام لے کر اہلسنّت کی کسی مقدس ہستی یا مقدس مقام کے بارے میں غلط گفتگو کرنا حرام ہے۔ ان کا یہ حکم ہمارے لیے مقدس ہے۔ 2000ء میں ہمارے گاؤں میں 6 محرم کو دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں 14 جنازے اٹھائے گئے جن میں 4شہداء میرے عزیز تھے۔ جنازے پر کھڑے ہوکر ساجد نقوی نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے ان نوجوانوں ، عزاداروں، مجلس سننے والوں اور نمازیوں کو کسی سنی نے نہیں مارا بلکہ یہ کرائے کے قاتل ہیں ، ان کے ہاتھ میں اسلحہ کس نے تھمایا اور یہ کہاں سے آیا حکومت کو سب معلوم ہے لہٰذا میں یہ حکم دیتا ہوں کہ ایک پتا بھی نہ ہلے۔

فرقہ واریت اور شیعہ سنی لڑائی نہ پہلے تھی نہ اب ہے، جاہلانہ گفتگو کرنے والے ہر دور میں موجود رہتے ہیں جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملی یکجہتی کے ایک پروگرام میں ساجد نقوی نے کہا کہ ’’میری خلوت اور جلوت کی گفتگو آپ کے سامنے ہے، میں ہر مقام پر یہی بات کرتا ہوں کہ چاہے مجھے گالی دے لو لیکن ملک کی بقاء اور اسلام کے تحفظ کے لیے میں ایسے الفاظ کی بالکل اجازت نہیں دیتا کہ کسی کے مقدسات کے بارے میں غلط گفتگو کی جائے‘‘۔ ہماری قربانیوں کے نتیجے میں دہشت گرد ناکام ہوچکے ہیں، اسی طرح ہمیں متحد ہوکر ایسے تخریب کار جو فرقہ وارانہ فسادات پھیلانا چاہتے ہیں، انہیں ناکام بنانا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔