بجلی کا ناقص ترسیلی نظام،عوام کو1ماہ میں2ارب روپے کا نقصان

علیم ملک  پير 25 ستمبر 2017
بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میں بہتری کے حکومتی دعوے حقائق کے برعکس،انرجی مکس کوبھی بہترنہ کیاجاسکا،ایکسپریس کے رابطے پر نیپرا کا جواب سے گریز
 فوٹو: فائل

بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میں بہتری کے حکومتی دعوے حقائق کے برعکس،انرجی مکس کوبھی بہترنہ کیاجاسکا،ایکسپریس کے رابطے پر نیپرا کا جواب سے گریز فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  بجلی کے ناقص ترسیلی نظام کی وجہ سے عوام کوایک ماہ کے دوران 2 ارب 14 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرناپڑا ہے۔ گزشتہ ماہ 33کروڑ یونٹس بجلی چوری اورلائن لاسز کی نذر ہوگئے۔

دستیاب اعدادوشمارکے مطابق اگست کے مہینے میں 12ارب 75کروڑ 43 لاکھ یونٹس پیدا کیے گئے اور فی یونٹ قیمت 4 روپے 49 پیسے رہی۔ اعدادوشمار کے مطابق ناقص ترسیلی نظام کے باعث 33کروڑ سے زائد یونٹس ضائع ہوئے جن کا بوجھ بھی عوام کو برداشت کرنا پڑا۔ دستاویز کے مطابق صرف ایک ماہ کے دوران نقصانات کی وجہ سے عوام کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔ تقسیم کارکمپنیوں کی جانب سے جو بجلی عوام کو فراہم کی گئی وہ مہنگے ذرائع سے پیدا کی گئی۔ گزشتہ ماہ کے دوران ہائیڈل سے 4 ارب 19 کروڑ یونٹس سے زائد بجلی پیدا کی گئی۔ صرف ایک ماہ کے دوران فرنس آئل سے 29 فیصد بجلی پیدا کی گئی اورفرنس آئل سے عوام کو 29ارب 32کروڑ روپے کی بجلی فراہم کی گئی۔

فرنس آئل سے پیدا ہو نے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت 9 روپے 39پیسے رہی۔ اگست کے دوران ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 4ارب 53کروڑ روپے سے زائد کی بجلی پیدا کی گئی اور اس کی فی یونٹ قیمت ساڑھے 13 روپے رہی ہے۔ درآمدی ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 7 روپے 47پیسے فی یونٹ رہی۔ سی پی پی اے کے اعدادوشمارکے مطابق جولائی کے دوران 21کروڑ 55لاکھ یونٹس سے زائد کی بجلی ضائع ہوئی تھی اور عوام کو ایک ارب 39کروڑ روپے کا ٹیکہ لگایا گیا تھا اور بجلی کے لاسز 1.73 فیصد تھے جو ایک ماہ بعد اگست میں بڑھ کر -2.60فیصد تک پہنچ چکے ہیں اور جولائی کے دوران بھی بجلی کی پیدوار کا انحصار فرنس آئل اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر رہا۔ حکومت کی جانب سے ہر بار یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام میںبہتری لائی گئی ہے۔

تاہم صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ چار سال گزرنے کے باوجود بھی نہ تو انرجی مکس کو بہتر کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ترسیلی نقصانات اور لائن لاسز کی شرح کم ہو سکی ہے۔ اس سلسلے میں جب موقف لینے کیلیے پاور سیکٹرکے ریگولیٹری ادارے نیپرا کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو متعدد مرتبہ کوششوں کے باوجود ان سے بات نہ ہوسکی اور ان کا نمبر بند جا رہاتھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔