یہ ہمارا درد سر ہے کیا؟

شیریں حیدر  اتوار 5 اگست 2012
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

مجھے آج تک اس معصوم بچی کا چہرہ نہیں بھولتا جسے میں نے کراچی کے ایک اسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں دیکھا تھا، (اس وقت میں نے اس پر کالم بھی لکھا تھا) گیارہ برس کی عمر میں اس بچی نے انسانی بے حسی کی وہ انتہا دیکھی تھی کہ اس کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو چکا تھا، وہ خوف زدہ رہتی اور سوتے میں چیخیں مار کر جاگ جاتی تھی۔

اس نے ایک پر رونق اور بھرے بازار میں ایک موٹر سائیکل پر سوار دو لوگوں کو اپنی گاڑی روکتے، پستول نکال کر اس کے باپ کی کنپٹی پر رکھتے اور زور زبر دستی سے اس کی ماں کے کانوں، ہاتھوں اور گلے سے زیور چھینتے اور باپ کا موبائل اور بٹوہ لے کر جاتے …

ارد گرد ہزاروں نہیں تو سیکڑوں لوگوں کو تماش بینوں کی طرح یہ سب ہوتے ہوئے دیکھتے رہنا اور کسی قسم کی کوشش نہ کرنا… اور تو اور اس میں مارکیٹ میں موجود مسلح گارڈ بھی تھے جو اس وقت محض تماشائیوں کا حصہ تھے…

اس معصوم بچی کو کیا معلوم تھا کہ یہ بے حسی گزشتہ چند برسوں سے ہمارے کردار کا اہم حصہ بن چکی ہے اور ہم میں سے کوئی بھی پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑا کر اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ وہ بچی کبھی خوب صورت نظمیں اور اچھی اچھی کہانیاں لکھا کرتی تھی، ا س کے ماں باپ کا تو مالی نقصان ہوا مگر اس بچی کی آنکھوں سے خواب نُچ گئے تھے۔

مجھے تو وہ بچی اکثر و بیشتر یاد آتی ہے مگر آج آپ سے اس کی کہانی اس لیے شئیر کر رہی ہوں کہ اس بچی کا ایک سوال میرے ذہن پر ثبت ہو کر رہ گیا تھا، اس نے کہا تھا، ’’ آنٹی اگر وہ ہمیں مار بھی جاتے تو کوئی کچھ نہ کرتا… پھر قتل کا ذمے دارکون ہوتا؟ صرف وہ جو ہمیں مار کر چلے جاتے یا وہ سب جو اس قتل کے چشم دید گواہ ہوتے…

آج یہ سوال انٹرنیٹ پر ہر روز سیکڑوں بار مجھے ای میل میں، فیس بک پر اور مختلف بلاگ کے ذریعے نظر آتا ہے اور کئی لوگ تو براہ راست سوال پوچھتے ہیں کہ ہم میانمار (برما) میں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کے بارے میں کچھ کیوں نہیں کرتے؟ کیا کریں ہم… کوئی بتلائے!

ہم اپنے ملک میں اس حد تک بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے اور اس کے گھر میں کیا مسئلہ ہے… پہلے جن اوصاف کو باہمی ربط کا اظہار سمجھا جاتا تھا وہ اب پرائیویسی ڈسٹرب ہونے کے زمرے میں آتے ہیں! ہم کسی پر ظلم اور تشدد ہوتے دیکھ کر اپنی نظر بھی دوسری طرف نہیں پھیرتے، بلکہ اسے تماشے کی طرح دیکھ کر محظوظ ہوتے ہیں۔

اس کا اندازہ انٹرنیٹ پر لگائی گئی تصاویر کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے جہاں مقتول مسلمانوں کی برہنہ تصاویر کے البم کے البم سجے ہوئے ہیں… اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟ہم ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں سوائے اس کی مذمت کے… اور مذمت سے کسی کو کیا نقصان اور کیا ہدایت! تکلیف دہ بات تو ہے کہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار کہ جو ایک چیونٹی کی جان لینے کو بھی انسان کے قتل کے مترادف سمجھتے ہیں وہ بلا سبب یوں ہزاروں مسلمانوں کا قلع قمع کر دیں…

کیا اس سے دنیا میں سے اسلام اور اس کے نام لیوا ختم ہو جائیں گے۔ ہم تو جغرافیائی لحاظ سے ان سے ہزاروں میل دور ہونے کے علاوہ، اپنے اندرونی آلام میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں آ پاتا… ہماری حکومت نے اس وقت تو ہمیں لوڈ شیڈنگ سے بھون کر مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا ہے …

ہم کسی کے درد کا کیا مداوا کریں کہ ہمارے اپنے درد ہی ہمیں ہر وقت بلبلاتے رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔بیرونی طاقتیں ہمارے ملک کے پیچھے ہاتھ جوڑ کر پڑی ہیں، انھیں ہمارا وجود مانند خار کھٹکتا ہے۔ آج جو کچھ میانمارکے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس میں صرف بدھ مت کے پیروکار تنہا نہیں، اس کے ساتھ یقینا کچھ اور عوامل اور عناصر شامل ہیں۔ وہی عناصر جو دنیا بھر میں مسلمانوں کو ابتلا میں رکھے ہوئے ہیں۔

ہم اپنے مذہب کی تعلیمات سے نہ صرف ذاتی بلکہ اجتماعی طور پر بھی بہت غافل ہیں، وہ مذہب جو کہتا ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں جس کے کسی بھی حصے میں درد ہو تو باقی جسم چین سے نہیں ہو سکتا …وہ مذہب جو کہتا ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اخوت اور بھائی چارے کا سبق ہمارا مذہب ہی دیتا ہے۔

وہ مذہب جو امن و آشتی کا مذہب ہے، آپس میں اتفاق، پیار اور محبت کا درس دیتا ہے، اس مذہب کے ماننے والے ہم، اس ملک میں رہتے ہوئے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا واحد ملک ہے… آپس میں ہی علاقوں، قبیلوں، گروہوں، ذاتوں، برادریوں، لسانی گروہوں اور صوبائی عصبیت کے تانوں بانوں میں الجھے ہوئے ہیں… ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔

فاصلے کتنے ظالم ہو سکتے ہیں، ہم سے زیادہ کون جان سکتا ہے جنہوں نے اپنے ملک کا ایک حصہ اسی بنا پر گنوایا ہو… ایک منطقی سی بات ہے کہ فاصلے بہت سی مجبوریوں کے اسباب بن جاتے ہیں۔

یہی فاصلہ اس وقت ہم میں اور میانمار کے مسلمانوں کے بیچ حائل ہے جو فریاد کرتے ہیں تو کوئی ان کی پکار کو نہیں آتا، جان بچا کر ہمسایہ ملکوں میں پناہ کی خاطر بھاگتے ہیں تو بارڈر پر گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں …

ہم یہ سب ہوتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں اور بے بسی کے اظہار سے بڑھ کر کچھ نہیں کر پاتے۔ میں اپنے جیسے ان سب لوگوں کی طرف سے معذرت کے ساتھ میانمار کے مسلمانوں سے یہی کہہ سکتی ہوں کہ ہمیں ہماری بے حسی پر معاف کر دیں… ہم صرف انھی کے لیے بے حس نہیں، ہم اپنے ملک کے مظلوموں کے سلسلے میں بھی اتنے ہی بے حس ہیں۔

ہمیں ان کے مسائل کے حل کی نہ فرصت ہے نہ دلچسپی، ہم اپنے غم روزگار میں ہی اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے درد سر کو پال ہی نہیں سکتے۔ ہم غلط کو غلط سمجھنا، کہنا اور اس کا اظہار کرنا چھوڑ چکے ہیں… ہم مسائل کے انبار تلے دبی ہوئی وہ قوم ہیں جو خود پر بھی ظلم برداشت کر لیتے ہیں مگر ظالم کی مذمت بھی نہیں کرتے۔

اگر ہماری زبانی کلامی مذمت ان کے آنسو پونچھ سکتی ہے تو وہ ہم کر لیتے ہیں، ورنہ کون سا فورم ہے جہاں پر ہماری شنوائی ہے، کون سا ملک ہے جو ہماری سنے گا، کون سا مذہب ہے جس کی نظروں میں ہم معتبر ہیں اور کون سا جہاں ہے جہاں پر ہم ان اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کو اور ان کے بے قصور بچوں کو لے جائیں، جہاں ظلم کی ہوا بھی انھیں نہ چھو سکے… دل خون کے آنسو روتا بھی ہے تو یہ آنسو کون سا کسی کے دل پر گرتے ہیں،

ہمارے احتجاج بے ثمر، ہمارے نالے فضول اور ہماری آواز نقارخانے میں طوطی کی آو از بن کر رہ جاتے ہیں…ہاں مگرایک ذات ہے جو کسی کو مایوس نہیں کرتی… اس رب کائنات کی جو ہم سب کو پیدا کرنے والا، ہمارا پالن ہار اور پروردگار ہے۔ ہم سب کم از کم اس کی بارگاہ میں دل سے اپنے ان مظلوم بہن بھائیوں کے لیے دعا تو کر سکتے ہیں… اس ماہ مبارکہ میں ان کے لیے دل سے کی گئی دعائیں آسمان کو چھونے کی طاقت رکھتی ہیں،

بالخصوص افطارکے وقت کی گئی دعائیں شرف قبولیت پاتی ہیں… آپ سب سے درخواست ہے کہ دو کام کریں، ایک تو دل سے ان کے خلاف ظلم کو برا سمجھیں اور اگر ہمت ہے تو دامے، درمے، سخنے یا قدمے اپنا احتجاج پیش کریں اور دوسرے اپنی انتہائی اہم دعاؤں میں اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں کو ضرور شامل کریں۔ اللہ تعالی آپ کو اس کی جزا دے گا، انشاء اللہ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔